انسانی سمگلنگ

عائشہ طارق
دن بہ دن انسانی سمگلنگ کا رجحان بھرتا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں انسانی سمگلنگ اب اسلحے اور منشیات کی سمگلنگ کے بعد سب سے بڑا غیر قانونی کاروبار بن گیا ہے ۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا باہر کے ممالک جانے کی بڑی وجوہات بے روزگاری، غربت اور زیادہ رقم کمانے کی ہوس ہے۔ انسان کی ہوس اس کو تباہ کر دیتی ہے۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے نئی نسل کو ان ممالک میں جا کر قسمت آزمائی کا سوچنے پر مجبور کر دیا جہاں روزگار کے زیادہ مواقع ہوں ۔ اور ان کو ان کی محنت کا اتنا معاوضہ مل جائے، جس سے وہ دیار غیر میں اپنا اور پھر اپنے ملک میں خاندان سمیت عزیز و اقارب کی مالی مدد اور ضروریات پوری کر سکیں ۔ یہی جنون ان کو باہر کے ممالک جا کر دولت کمانے کا ہوتا ہے اور اس کے لئے وہ ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ، اس میں تعلیم یافتہ، ہنرمند اور محنت کش سب شامل ہیں۔
انسان سمگلنگ نہایت ہی شرم ناک اور انسانیت سوز عمل ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی ہے کہ انسانوں کو سمگل کر کے دوسرے ممالک میں بھیجا جائے۔ تحقیقات کے مطابق سب سے زیادہ خطرناک انسانی سمگلنگ کا رنگ مرکزی پنجاب میں کام کر رہے ہیں جو لوگوں سے لاکھوں روپے کے عوض انھیں بھیڑ بکریوں کی طرح خطرناک راستوں سے کوئٹہ، پھر ایران کے تفتان بارڈر اور وہاں سے ماکو کے پہاڑوں سے ترکی پہنچاتے ہیں۔ سفر پیدل، کشتیوں میں اور کبھی تو سامان والے کنٹینروں میں کیا جاتا ہے۔ راستہ اتنا دشوار ہے کہ اکثر لوگ منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی مارے جاتے ہیں یا تو بڑی تعداد میں دوسرے ممالک کی سرحدوں پر گرفتار ہو جاتے ہیں۔

لیکن یہ سب کچھ پہلے سے کسی غریب کو نہیں بتایا جاتا۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ یہ سمگلر اپنے سیاسی اور مالی اثر و رسوخ کے وجہ سے کھلم کھلا اپنا کام کر رہے ہیں۔ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا اور بدعنوانی ان کے ہتھیار ہیں جن سے وہ ایسے لوگوں کا با آسانی شکار کر رہے ہیں جو ملک میں بڑھتی لاقانونیت اور مفلسی کے شکنجے سے فرار ہونے کے لیے اپنا جان و مال لگانے کو تیار ہیں۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی سی) نے بتایا ہے کہ 2013 میں پاکستان کے اندر سرگرم جرائم پیشہ گروہوں نے انسانی سمگلنگ کے ذریعے 927 ملین ڈالرز کمائے۔

یو این او ڈی سی کی رپورٹ Socio-Economic Impact of Human Trafficking and Migrant Smugglingمیں وزارت داخلہ کے حوالے سے بتایا گیا کہ پاکستان کے اندر اس غیر قانونی کاروبار میں ایک ہزار سے زائد گروہ ملوث ہیں۔

اب لوگ مشرقی وسطیٰ ممالک کے بعد یورپی ممالک جانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ نائن الیون سے پہلے صورتحال مختلف تھی اس کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک میں جانے والوں کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا اور قانونی طور پر جانے پر قدغن کے باعث ، غیر قانونی طور جانے کے رجحان میں اضافہ ہی ہوا اور اس کا فائدہ بیرون ملک غیر قانونی طریقوں سے بھجوانے والوں نے بھر پور اٹھایا اور ایسے بے روزگاروں کو ’’سنہرے خواب‘‘ دکھا کر ان سے پیسے بھی لئے اور ان کو کسی نہ کسی طرح بیرون ملک پہنچا بھی دیا تو وہاں بے یارومددگار چھوڑ دیا اور پھر جب وہ غیر قانونی مقیم ہونے کی صورت میں قانون کے شکنجے میں آئے تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔ اور سالہا سال تک قید رہے اگر کسی وجہ سے اس کا رابطہ اپنے ملک میں ہو گیا تو اس کے حالات سے آگاہی ہوئی ورنہ وہ حالات کے رحم و کرم پر ہی اپنے نہ کردہ گناہوں کی سزا بھگتتا رہا.

ابتدا میں بیرون ملک بھجوانے کے لئے پاسپورٹ میں بھی ’’ہیرا پھیری‘‘ کر لی جاتی تھی، کسی پرانے پاسپورٹ پر تصویر بدل دی یا غیر ممالک سے ’’جعلی کاغذات‘‘ پر کام چل جاتا تھا۔ پھر پاسپورٹ میں بھی تبدیلی ممکن نہ رہی اور الیکٹرانک ترقی نے بھی دنیا کو قریب تر کر دیا تو غیر قانونی اور جعلی دستاویزات پر سفر ناممکن ہو کر رہ گیا اور پھر پاکستان جیسے ممالک کے بے روزگاروں کو بذریعہ سڑک غیر قانونی طور پر ایران کی سرحدوں کو پار کروایا جانے لگا ان کو بھوکا پیاسا کئی کئی دن تک رات کو سفر کرایا جاتا اور خوش قسمتی سے وہ سکیورٹی والوں کی زد سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے تو آگے دھر لئے جاتے ورنہ بارڈر پر ہی وہ گولیوں کا نشانہ بن جاتے۔ اور ان کی لاشوں کو جانور بھنبھوڑتے ،ان کے گھر والے ان کی راہ ہی دیکھتے رہ جاتے ۔ اسی دوران لانچوں اور کشتیوں پر بذریعہ سمندر ’’انسانی سمگلنگ‘‘ کے رجحان میں اضافہ ہوا اور ان کے ذریعے انسانوں کی سمگلنگ ہونے لگی۔ اسی رجحان کو روکنے کے لئے کئی ممالک نے الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا کے ذریعے بھی آگاہی مہم کا آغاز کیا تاکہ غیر قانونی طور پر آنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ خاص طور پر آسٹریلیا نے پاکستان سے غیر قانونی جانے والوں کو خبردار بھی کیا ۔مگر ان تمام اقدامات کے باوجود اب بھی لانچوں اور کشتیوں پر غیر قانونی طور پر یورپی یا مشرق وسطی کے ممالک میں جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔

گزشتہ دنوں یہ خبریں بھی سامنے آئیں جن میں بتایا گیا تھا کہ غیر قانونی طور پر سمندری راستے سے سپین جانے والوں کی کشتی لیبیا کے قریب الٹنے سے کئی پاکستانی افراد ڈوب گئے اور ان میں سے چند خوش قسمت لوگوں کو امدادی کشتیوں نے بچا لیا۔ مرنے والوں میں پنجاب کے ایک شہر کے میاں بیوی اور ان کا بیٹا بھی تھا۔ اس طرح کی اطلاعات کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آجاتے ہیں اور انسانی سمگلنگ میں ملوث گروہ کی پکڑ دھکڑ شروع ہوجاتی ہے ۔

یو این کی ایک تحقیقی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر غیر قانونی ہجرت صوبہ پنجاب بالخصوص گجرات، گجرانوالہ، منڈی بہاؤالدین، ڈیرہ غازی خان، ملتان اور سیالکوٹ سے ہو رہی ہے۔ ہم زندگی کی آسانیوں کے لیے اپنی ہی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ انسان اپنے ہی زیادہ کے لالچ میں ذلیل ہو رہا ہے۔ اور اس رجحان میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

لمحہ فکریہ ہے کہ ایک طرف تو جو بیرون ملک غیر قانونی طور پر جاتا ہے۔ اس کی اپنی زندگی دائو پر لگی ہوتی ہے اور اب لوگ سنہرے مستقبل کے لئے اپنے اہل خانہ کو بھی ساتھ لے کر ’’پرخطر‘‘ راستہ اختیار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بیرون ملک جانے والوں کی ان کے لواحقین کو کچھ خبر نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ اور اگر وہ پکڑے گئے ہیں تو کس ملک میں ہیں ان کی کسی کو کوئی خبر نہیں ہوتی۔ والدین اپنے بچوں کی راہ تکتے تکتے بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس میں وہ اپنی ساری جمع پونجی بھی ان ایجنٹوں کے ہاتھوں لٹا دیتے ہیں۔ ایسے انسانی سمگلروں کے خلاف اگرچہ کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں اور ان کو سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اب ایسے عناصر کے خلاف قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی سمندر پار پاکستانی و انسانی وسائل ترقی نے انسانی سمگلنگ کے تدارک اور ان کے خلاف سزائیں سخت کرنے کا امیگریشن (ترمیم) بل2017 متفقہ طور پر منظور کر لیا بل میں کہا گیا ہے کہ انسانی سمگلنگ کی پانچ سال کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ اور ایک ملین سے زائد کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ جو انسانی سمگلنگ کے لیے جعلی کاغذات بنائے گا یا مہیا کرے گا ان کے لیے 3 سال کی قید کی سزا مقرر کی گئی ہے اور ایک ملین کا جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔

انسانی سمگلنگ روکنے کے لئے اگرچہ اقدامات ہو رہے ہیں اور ان کو گرفتار بھی کیا جا رہا ہے مگر غیر قانونی طور پر جانے والوں کو بھی احساس ہونا چاہئے کہ ایک طرف وہ ان ایجنٹوں کے چکر میں آ کر پہلے پیسہ کھو دیتے ہیں اور پھر اپنی زندگیوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور جو خوش قسمتی سے بچ جاتے ہیں وہ ’’دیارغیر‘‘ میں پکڑے جانے پر جیل کی ہوا کھا رہے ہوتے ہیں۔ اس میں انسانی سمگلروں کے ساتھ ان کا بھی قصور ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی یہ خطرناک غیر قانونی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ خدارا ہوش سے کام لیجئے۔

Tariq Javed
About the Author: Tariq Javed Read More Articles by Tariq Javed: 28 Articles with 22807 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.