ایک بار سلطان غیاث الدین بلین نے بابا فرید رحمتہ اللہ
علیہ کی خدمت میں سرخ سکوں سے بھرے ہوئے دو طشت ارسال کئے . آپ نے لنگر
خانے کے منتظم حضرت بدر الدین اسحاق رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا ، آج لنگر
خانے میں کتنی رقم درکار ہے ؟ انہوں نے عرض کیا ، آج صرف ایک سرخ سکہ کافی
ہوگا . آپ نے فرمایا ، ایک سکہ رکھ لو اور باقی رقم ضرورت مندوں میں تقسیم
کر دو . انہوں نے عرض کیا ، ایک سکہ لنگر خانے کے انتظامات کے لئے قرض لیا
تھا اسکی ادائیگی بہی باقی ہے . آپ نے فرمایا ، وہ سکہ بھی رکھ لو اور باقی
رقم تقسیم کر دو .انہوں نے رات کے اندھیرے میں وہ سکے تقسیم کئے . اتفاق سے
ایک سکہ زمین پر گر گیا اور وہیں پڑا رہا . تقسیم کا کام ختم ہو چکا تو
مولانا کی نظر اس سکے پر پڑی . انہوں نے اس سکے کو اٹھا کر اپنے لباس کی
جیب میں رکھ لیا کہ کل لنگر خانے میں کام آئے گا .
عشاء کی نماز کا وقت ہوا اور بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ امامت کیلئے کھڑے
ہوئے . ابھی سورہ فاتحۂ کی تلاوت مکمل ہوئی کہ آپ نے نیت توڑ دی . تمام
مقتدیوں کو حیرت ہوئی لیکن سب خاموش رہے . دوبارہ نیت باندھی اور اور ابھی
نصف نماز بھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ پھر نیت توڑ دی . غرض تین چار مرتبہ ایسا
ہوا . آخر بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ مصلے پر بیٹھ گئے . تمام مرید اور
خدمت گار شدید حیران تھے لیکن کسی میں سوال کرنے کی جرات نہ تھی . آخر آپ
نے خود ہی مولانا بدر الدین اسحاق رحمتہ اللہ علیہ سے فرمایا ، مولانا !
مجھے نماز میں حضوری حاصل نہیں ہو رہی . حضرت بدر الدین اسحاق دست بستہ
کھڑے ہو گئے .
سیدی ! اس سلسلے میں یہ ناقص کیا کر سکتا ہے ؟ آپ نے کچھ لمحے کی خاموشی کے
بعد پوچھا ، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سلطان کی طرف سے آئے ہوئے سکوں
میں سے کچھ باقی رہ گیا ہے . مولانا ! تم نے ساری رقم محتاجوں میں تقسیم کر
دی تھی نا ؟
یہ سنتے ہی مولانا بدر الدین رحمتہ اللہ علیہ نے سر جھکا لیا . سیدی ! کل
کے خرچ کیلئے ایک سکہ رکھا ہے . مرشد کی خفگی کے خیال سے آپکی آواز لرز رہی
تھی .
کدھر ہے وہ سکہ ؟ بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کے لہجے میں خفگی کا عنصر
نمایاں تھا . مولانا بدر الدین رحمتہ اللہ علیہ نے جیب سے سکہ نکال کر مرشد
کی خدمت میں پیش کر دیا . بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ نے وہ سکہ لیکر دور
پھینک دیا اور فرمایا ، " یہ ہی دہات کا ٹکڑا بندے اور اللہ کے درمیان حائل
ہو گیا تھا " تمام حاضرین پر جیسے سکتہ طاری تھا .
آپ نے مولانا بدر الدین رحمتہ اللہ علیہ کو مخاطب کر کے فرمایا ، مولانا !
کیا ہو گیا تھا تمہیں ؟ درویش ہو کر مادی اسباب پر بھروسہ کرتے ہو ؟ عمر
گزری جا رہی ہے اور ابھی تک توکل کا مطلب سمجھ نہیں آیا ؟ اسکی رزاقی پر
یقین نہیں ہے- |