عام کھلاڑیوں کے کارنامے تو روزانہ ہی ہماری نظروں سے
گزرتے ہیں لیکن دنیا میں ایسے کھلاڑی بھی موجود ہیں جنہیں ’’خصوصی افراد‘‘
میں شمار کیا جاتا ہے۔انہوں نےہمت ہارنے کی بجائے نئے عزم اور حوصلے کے
ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھا۔ ان میں سے کئی افراد مختلف کھیلوں میں
حصہ لے کراب بھی کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ گرچہ معذور کھلاڑیوں کی
فہرست خاصی طویل ہے لیکن ذیل میں چند کھلاڑیوں کا تذکرہ نذر قارئین ہے جن
میں تین پاکستانی کھلاڑی بھی شامل ہیں۔
سلیم کریم
1965میں کراچی میں جنم لینے والے کرکٹر، سلیم کریم کا تعلق تاجر گھرانے
سےہے، وہ خود بھی ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ ان کی دائیں ٹانگ پیدائشی طور
پرمفلوج تھی۔ انہیں ہی بچپن سے کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا، انہوں نے اپنی
جسمانی معذوری کو اپنے شوق کی راہ میںآڑےنہیں آنے دیا اور مصنوعی ٹانگ کی
مدد سے کرکٹ میچوں میں حصہ لیتے رہے۔بدقسمتی سے موٹر سائیکل کے حادثے میں
بائیں ٹانگ سے بھی معذور ہوگئےلیکن دوسری ٹانگ سےمحرومی کے بعد بھی ان کے
دل سے کرکٹ کھیلنےکا شوق ختم نہیں ہوا ،بلکہ اس کے بعد ان کے ذہن میں ایک
نئے تخیل نے جنم لیا۔ اپنے دیرینہ ساتھی، فرسٹ کلاس کرکٹر اور پاکستان کرکٹ
بورڈ کے میچ آفیشل ، امیر الدین انصاری کے ساتھ مل کر ایک ایسی کرکٹ ٹیم
کے قیام کے لیے غور و خوض شروع کیا جو صرف جسمانی معذوری کے شکار کھلاڑیوں
پر مشتمل ہو۔ کچھ عرصےکے بعد پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ ٹیم کےکھلاڑی،محمد
نظام بھی ان کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس مشن میں شامل ہوگئے ۔
سلیم کریم نےٹیم کے قیام کے لیے حکومتی اداروں سے مدد کی درخواست کرنے کی
بجائے اپنےوسائل پر انحصارکیا، بعد ازاں 2006ء میں ’’پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ
ٹیم‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔اب ٹیم کے لیے سب سے بڑا مسئلہ معذور کرکٹرز کی
تلاش تھی۔ اس کے لیے انہوں نے گھر گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ ملک بھر کے دورے
کیے اور جہاں بھی معذور افراد کے بارے میںخبر ملی، اس سے ملاقات کرکے ، اس
کے دل میںکرکٹ کھیلنے کی تحریک پیدا کی۔خواہش مند افراد کو کراچی کے نیشنل
اسٹیڈیم میںٹرائل میں شرکت کی دعوت دی گئی، اس سلسلے میں تمام اخراجات ،
سلیم کریم نے خود برداشت کیے۔ ٹرائل والے روز سلیم کریم،امیرالدین انصاری ،
نظام الدین اور ساتھی کرکٹر ، اکبرعالم دوپہر تک ٹرائل میں شریک ہونے والے
کھلاڑیوں کا انتظار کرتے رہے، لیکن صرف 12 معذور لڑکے ٹرائل میں شریک ہوئے،
جنہیں ڈس ایبل کرکٹ ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ ان کھلاڑیوں میں وکٹ کیپر،
فاسٹ بالر،اسپن بالراورفیلڈرزشامل تھے ۔ سلیم کریم نے اپنی ٹیم کے ساتھ
پاکستان کے مختلف علاقوں کے دورے کیے اور صحت مند افراد کی ٹیموں کے خلاف
میچز کھیلے۔ اس کے بعد پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن قائم کی گئی جس
میں سلیم کریم صدر، امیرالدین انصاری اعزازی سکریٹری اور محمد نظام جوائنٹ
سکریٹری مقرر ہوئے۔ اگلے مرحلے میں پورے ملک میں کوآرڈی نیٹرز کا تقرر کیا
گیاجنہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں معذور کرکٹرز کے ٹرائل لے کر ٹیمیں تشکیل
دیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے تسلیم کیے جانے کے بعد2010ء میں پہلی ڈس
ایبلڈ قومی کرکٹ چیمپئن شپ کا انعقاد کراچی میں ہوا،جس میں ملک بھر سے
12ٹیموں نے شرکت کی۔ 2010ء سے اب تک باقاعدگی سے قومی چیمپئن شپ کا انعقاد
کیا جاتا ہے، جس میں 600سے 700کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔مذکورہ ٹیم نے 2010میں
ملائشیااور سنگاپور کا دورہ کیا۔ 2012ء میں متحدہ عرب امارات کے وینیو پر
انگلینڈ کے خلاف ایک روزہ اور ٹی ٹونٹی میچوں کی ہوم سیریز کھیلی گئی ،جس
میں مہمان ٹیم کو وائٹ واش شکست دی۔ 2014ء میںبرطانیہ کے ساتھ ہی دوسری
مرتبہ سیریز کھیلی اورپاکستانی ٹیم اس بار بھی فتح یاب رہی۔ 2015ء میں
افغانستان کی ڈس ایبل کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر کراچی پہنچی، قومی ڈس
ایبلڈ ٹیم نے اسے بھی ایک روزہ اور ٹی ٹونٹی سیریز میں شکست سے دوچار کیا۔
2015ء میں پانچ ملکی آئی آر سی انٹرنیشنل کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد بنگلہ
دیش میں ہوا جس میں پاکستان نے برطانوی ٹیم کو ہرا کر ٹرافی جیتی۔2016ء میں
پاکستان ڈس ایبل ٹیم نے آئی سی سی ورلڈ کپ جیتا۔رواں سال جولائی میں
برطانیہ میں پاکستان، بنگلہ دیش اور میزبان ملک انگلینڈ کے درمیان ، سہ
ملکی کرکٹ ٹرافی کا انعقادہوا جس میں پاکستانی ٹیم دونوں ممالک کو شکست دے
کرفاتح رہی۔سلیم کریم کا لگایا ہوا پودا اب تناور درخت بن چکا ہے اور ڈس
ایبلڈ کرکٹ ٹیم دنیا کی ٹیموں کے سامنے ہر مقابلے میں فاتح رہی ہے۔
زہرا نعمتی
زہرا نعمتی، ایران کی معذور کھلاڑی ہیں، انہوں نے اپنی جسمانی معذوری کو
خاطر میں لائے بغیر اپنے ملک وقوم کا نام روشن کیا۔ زہرا، 30اپریل 1985ء کو
ایران کے شہر کرمان میں پیدا ہوئیں۔ پیدائش کے کچھ عرصے بعدان کے والدین
تہران منتقل ہوگئے۔ زہرا کو مارشل آرٹ کا جنون کی حد تک شوق تھا ،انہوں نے
تائی کوانڈومیں ’’بلیک بیلٹ‘‘ حاصل کرنے کے بعد ایران کی قومی ٹیم میں جگہ
بنالی تھی، اب ان کی نگاہیں اولمپکس گیمز پر مرکوز تھیں جس میں وہ گولڈ
میڈل جیتنا چاہتی تھیں،لیکن 2003ء میں جب وہ 18سال کی ہوئیں تو کار کے ایک
حادثےمیں ان کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں، یوںان کا مارشل آرٹس میں اولمپکس
چیمپئن بننے کا خواب ادھورا رہ گیا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری ۔ تین سال
بعد انہوں نے تیراندازی سیکھنا شروع کی۔ صرف چھ ماہ کی محنت کے بعد انہوں
نے تیراندازی کی قومی چیمپئن شپ میں وہیل چیئر پر بیٹھ کرحصہ لیا اور تیسری
پوزیشن حاصل کی۔ 2013ء میں انہیں بنکاک میں منعقد ہونے والی ’’ورلڈآرچری
چیمپئن شپ ‘‘ کےمقابلوں میں حصہ لینے والی ایرانی ٹیم میں شامل کیاگیا۔
زہراٰ نے اس ٹورنامنٹ کے انفرادی مقابلے میں طلائی، جب کہ ٹیم کے ساتھ
کھیلتے ہوئے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ 2014ء میں انچیون ایشین گیمز میں بھی
انہوں نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ 2015ء میں تیر اندازی کی ایشین چیمپئن شپ
میں زہرا نے نہ صرف طلائی تمغہ جیتا بلکہ پیرالمپکس گیمز کے لیے بھی
کوالیفائی کرلیا۔ 2016ء میں برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں منعقد ہونے والے
اولمپکس گیمز میںانہوں نے اپنے ملک کے لیے دوسرا طلائی تمغہ جیتا۔
بکسٹر ہمبی
’’ون آرم بینڈٹ‘‘ کی عرفیت سے معروف کینڈین کک باکسر، بکسٹر ہمبی1972ء
میںپیدا ہوئے۔دوران پیدائش ، ان کے دائیں ہاتھ کی نسیں مردہ ہوگئی تھیں، جس
کی وجہ ڈاکٹروں کو ہاتھ کہنی تک کاٹنا پڑا۔ایک ہاتھ سے محرومی کے باوجود
بکسٹر بچپن سے ہی مختلف کھیلوں میں حصہ لیتے رہے۔ 11سال کی عمر میں مارشل
آرٹ سیکھنا شروع کیا اور کچھ ہی عرصے میں اس میںمہارت حاصل کرلی۔17سال کی
عمر میں ڈومیسٹک مقابلوں میں حصہ لیا ۔ 1992 اور 1994میں کینیڈین پیرالمپک
نیشنل ٹریک ٹیم کے مقابلوں میں شرکت کی۔ دو سال بعدکینیڈین سپر ویلٹر ویٹ
کک باکسنگ چیمپئن شپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔2010ء میں کیلی فورنیا میں
منعقد ہونے والی آئی کے کے سی ، یو ایس اے کک باکسنگ چیمپئن شپ جیتی۔ اس
وقت وہ ورلڈ سپر والٹرویٹ چیمپئن ہیں۔ بکسٹر دنیا کے پہلے ایتھلیٹ ہیں
جنہوں نے صرف ایک ہاتھ کی مدد سے مارشل آرٹ میںمتعدد ملکی و بین الاقوامی
اعزازات حاصل کیے۔
چیلیسا میک کلیمر
چیلیسا میک کلیمر 6سال کی عمرتک بالکل تندرست تھیں۔ایک دن چیلیسا روڈ پار
کرتے ہوئےکارکی ٹکر سے زخمی ہوگئیں، جس سے ان کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی،
جس کی وجہ سے ان کا نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا لیکن معذوری کو انہوں نے اپنی
شخصیت پر حاوی نہیں ہونے دیا ۔ وہ وہیل چیئر پر ٹینس ، باسکٹ بال اور ٹریک
ریسنگ میں حصہ لیتی رہیں۔ 2008ء میں وہ سب سے کم عمر ایتھلیٹ کے طور پر
یوایس پیرالمپکس ٹیم کا حصہ بنیں اور14 سال کی عمر میں بیجنگ اولمپکس
مقابلوں میں شرکت کرکے اولمپک گیمز کی سب سے کم عمر ایتھلیٹ ہونے کا اعزاز
حاصل کیا۔۔ 2008ء اور 2016میں پیرالمپکس چیمپئن رہیں۔ انہوں نے مختلف
مقابلوں میں تین میڈلز جیتے، جن میں ، دو نقرئی اور ایک کانسی کا تمغہ تھا۔
2011ء میں وہ آئی پی سی ایتھلیٹک ورلڈ چیمپئن شپس کی رکن رہیں، جب کہ
2012ء میں انہیں دنیا کی بہترین معذور خاتون ایتھلیٹ کے خطاب سے نوازا گیا۔
ملیسا اسٹاک ویل
1980ء میں مشی گن میں جنم لینے والی امریکا کی سابق فوجی آفیسر، دو مرتبہ
کی پیرالمپئن اور عالمی چیمپئن، میلیسا اسٹاک ویل کوبچپن سے پیراکی کا شوق
تھا، زمانہ طالب علمی میں بھی وہ اس کھیل میں حصہ لیتی تھیں۔ 2001ء میں
کولوریڈو یونیورسٹی میں سےامتحان پاس کرنے کے بعد فوج میں ملازمت کرلی اور
ورجینیا میں آرمی کورپس میں ٹرانسپورٹیشن آفیسر تعینات ہوئیں۔ 2004ء میں
انہیں فرسٹ لیفٹننٹ کے عہدے پر ترقی دے کر عراق بھیج دیا گیا، جہاں ایک
فوجی قافلے کے ساتھ گشت کے دوران بغداد کی ایک سڑک کے کنارے نصب بم عین اس
وقت پھٹا ، جب وہ اس کے قریب سے گزر رہی تھیں۔ اس دھماکے میں ان کی زندگی
تو محفوظ رہی لیکن بائیں ٹانگ گھٹنے کے اوپر سے اڑ گئی۔ کئی ماہ تک وہ
عراقی اسپتال میں زیر علاج رہیں۔ انہیں فوجی ملازمت سے سبک دوش کردیا گیا۔
صحت یاب ہونے کے بعد انہوںنے عراق میں مستقل رہائش اختیار کرلی اور جنگ میں
زخمی ہونے والے افراد کو علاج معالجہ فراہم کرنے والے ایک ادارے کی
ڈائریکٹر بن گئیں۔ نئی ملازمت کے ساتھ انہوں نے پیراکی کے کھیل پر توجہ
مرکوز کردی۔ 2008ء میں بیجنگ میں منعقد ہونے والے سمراولمپکس گیمز میں
انہوں نےمصنوعی ٹانگ کے ساتھ عراقی پیراک کے طور پر شرکت کی۔ اس ایونٹ
میںپیراکی کے تین مختلف مقابلوں میں انہوں نے بالتریب چوتھی، پانچویں اور
چھٹی پوزیشن حاصل کی۔ بیجنگ اولمپکس کی اختتامی تقریب میں انہوں نے اپنے
آبائی وطن ، امریکا کا پرچم اٹھا کر شرکت کی۔ بیجنگ سے واپسی کے بعد انہیں
2010ء میںپڈاپسٹ میں ہونے والی آئی ٹی یو پیراٹرائی تھلون ورلڈ چیمپئن شپ
کےلیے امریکی دستے میں شامل کیا گیااور انہوں نے مذکورہ چیمپئن شپ جیت لی۔
2011 اور 2012ء میں ملیسا نے پیراکی کی عالمی چیمپئن شپ جیتی۔2016ء میں ریو
ڈی جنیرو کے پیرالمپکس گیمز میں انہوں نے پیراکی کے مقابلوں میں کانسی کا
تمغہ حاصل کیا۔عراق میں فوجی خدمات کی انجام دہی پر انہیں امریکی حکومت نے
اعلیٰ ترین اعزازات ’’برونزے اسٹار‘‘ اور ’’پرپل ہرٹ‘‘ سے نوازا۔
تاتیانہ میک فیڈن
پیرالمپکس گیمز میں 17تمغے جیتنے والی تاتیانہ میک فیڈن1989میں سوویت یونین
کے شہر لینن گراڈ میں پیدا ہوئیں۔ انہیں پیدائش کے وقت سے ہی ’’اسپائنا
بیفیڈا‘‘ نامی بیماری لاحق ہوگئی اور مہروں کی خرابی کی وجہ سےکمر سےنیچے
کا دھڑ ناکارہ ہوگیا تھا۔ڈاکٹر نومولود بچی کی زندگی سے بہت مایوس تھے،
انہوں نے تاتیانہ کی ماںکو بتایا کہ اس کی بیماری ناقابل علاج ہے، جس کی
وجہ سے وہ صرف چند روز ہی زندہ رہ سکے گی اور اگر بچ بھی گئی تو صرف وہیل
چیئر پر نقل و حرکت کرسکے گی۔ اس کی ماں ایک غریب خاتون تھی، وہ اپنی بیٹی
کا علاج معالجہ کرانے اور وہیل چیئر خریدنے سے قاصر تھی۔ سو اس نےبیٹی کو
ایک یتیم خانے کے سپرد کردیا۔ وہاں مناسب دیکھ بھال اور علاج کی وجہ سے
تاتیانہ صحت یاب ہوگئی لیکن جسمانی معذوری ختم نہ ہوسکی ، ہوش سنبھالنے کے
بعدوہ ہاتھوں کے بل چلتی تھی۔ ایک مرتبہ امریکا کے محکمہ صحت کے ادارہ
برائے جسمانی معذورین کی سربراہ ڈیبور ا میک فیڈن اور ان کے شریک کار’’
بریجٹ اوشانیسی‘‘ روس کے دورے پر آئےتو انہوں نے مذکورہ یتیم خانےکا بھی
معائنہ کیا ۔ یہاں ان کی نظر تاتیانہ پر پڑی، جو ہاتھوں کے بل چلتی ہوئی
ایک گیند پکڑنے کی کوشش کررہی تھی۔ڈیبوراکو اس بچی پر بہت ترس آیا اور
انہوںنے یتیم خانے کے منتظمین سے گفتگو کرکے اس بچی کو گود لے لیا،حالاں کہ
ان کی ایک بیٹی ’’ہناّمیک فیڈن‘‘ بھی جسمانی طور سے معذور تھی۔ وہ تاتیانہ
کو لے کر امریکا کے شہر بالٹی مور آگئیں۔ ڈیبورا نے اس کی ایک ماں کی طرح
پرورش کی اور اس کا نام’’تاتیانہ میک فیڈن‘‘ رکھا۔ا نہوں نے تاتیانہ کے
علاج کے ساتھ ساتھ اس کے اعصاب اورعضلات کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف
کھیلوں کی جانب راغب کیا۔ تاتیانہ، اپنی بہن ہناّ کے ساتھ پیراکی ،
جمناسٹک، وہیل چیئر باسکٹ بال کھیلا کرتی ، جب کہ دونوں بہنیں وہیل چیئر پر
بیٹھ کر ایک دوسرے سے ریس بھی لگایا کرتی تھیں۔8سال کی عمر میں تاتیانہ نے
وہیل چیئر دوڑ کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ تاتیانہ کوتعلیم حاصل
کرنے کا بھی شوق تھا۔انہوں نے شکاگو کی الی نوائس یونیورسٹی سے ہیومن
ڈیولپمنٹ اور فیملی اسٹڈیز میں گریجویشن کیا۔ دورا ن تعلیم ، وہ یونیورسٹی
کی وہیل چیئر باسکٹ بال ٹیم میں بھی شامل رہیں۔ یونیورسٹی کے ایک استاد ،
ایڈم بلیکنی جو خود بھی معذور تھے، وہ وہیل چیئر دوڑ کے ماہر تھے، انہوں نے
تاتیانہ کی اس کھیل میں کوچنگ کے فرائض انجام دیئے۔2004ء میں صرف14سال کی
عمرمیں انہیںایتھنز میں منعقد ہونے والےسمر پیرالمپکس گیمزمیں شرکت کرنے
والے امریکی کھلاڑیوں کے دستے میں شامل کیا گیا۔ ان گیمز میںتاتیانہ نے
فقید المثال کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے100میٹر کی دوڑ میں نقرئی ،جب کہ
200میٹر کے مقابلے میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ اس ایونٹ میں اس نے 400میٹر کی
دوڑ میں پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ 2008کے بیجنگ پیرالمپکس گیمز میں تاتیانہ
نےمعذور خواتین کی 200اور 400اور 800میٹر کی دوڑ میں تین سلور میڈل حاصل
کیے، جب کہ 100میٹر کی دوڑ میں وہ چھٹی پوزیشن پر رہیں۔2009 میں تاتیانہ نے
اپنی توجہ صرف مختصر فاصلے کی دوڑ پر مرکوز کردی ، اسی سال شکاگو میراتھن
میں حصہ لیا اور فاتح رہیں۔ 2010ء میں نیویارک سٹی، 2011میں شکاگو ، لندن ،
بوسٹن اور 2015ء میں نیویارک میں وہیل چیئر دوڑ کے مقابلوں میں فاتح
رہیں۔2012ء میں لندن میں منعقد ہونے والے پیرالمپکس گیمز میں تاتیانہ نے
اپنی بہن، ’’ہناّ میک فیڈن‘‘ کے ساتھ100میٹردوڑ کے مقابلوں میں حصہ لیا۔
2013ء میں تاتیانہ نے فرانس میں منعقد ہونے والی آئی پی سی ایتھلیٹک کی
عالمی چیمپئن شپ میں 100میٹر کی دوڑ کے مقابلوں میں 6طلائی تمغے جیتے۔ اسی
سال انہوں نے بوسٹن، شکاگو، ، لندن اور نیویارک میں منعقد ہونے والی
میراتھن ریس میں سبقت حاصل کرکے ایک ہی سال میں 4میراتھن مقابلے جیتنے کا
عالمی ریکارڈ قائم کیا۔2014ء میں تاتیانہ نےاپنے آبائی وطن، روس کے شہر
سوچی میں منعقد ہونے والے سرمائی پیرالمپکس گیمز میں شرکت کی۔ انہوں نےسوچی
اولمپکس کے ایک کلومیٹر دوڑ کے مقابلے میں چاندی کا تمغہ جیتا، جب کہ
12کلومیٹر دوڑ میں وہ 5ویں پوزیشن پر رہیں۔ان گیمز کی خاص بات یہ تھی کہ ان
مقابلوں کو تاتیانہ کی حقیقی ماں نے بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ اسٹیڈیم میں
بیٹھ کر دیکھااور انعام ملنے کے بعد اپنی بیٹی سے ملاقات کی۔سوچی گیمز کے
ایک ماہ بعدانہوں نے لندن میں میراتھن دوڑ میں شرکت کرکے نہ صرف اپنے اعزاز
کا دفاع کیا بلکہ کم وقت میں فاصلہ طے کرنے کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔2015میں
تاتیانہ نے نیویارک میراتھن، اکتوبر 2017ء میں شکاگو میراتھن اور 2018ء میں
بوسٹن میراتھن میںطلائی تمغے جیتے۔
شیر علی آفریدی
صوبہ خیبر پختون خوا کی خیبر ایجنسی کے علاقے باڑہ سے تعلق رکھنے والے شیر
علی آفریدی پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بالر ہیں۔وہ اپنی مصنوعی
ٹانگ پر دوڑتے ہوئے تیز گیند یںکراتے ہیں۔ شیر علی آفریدی کی بالنگ کی خاص
بات یہ ہے کہ وہ بہت سے نارمل بالرز کی بہ نسبت زیادہ تیز گیندیں کراتے
ہیں۔1995ء میں پیدا ہونے والے،شیر علی کو یہ معذوری پیدائشی نہیں ملی بلکہ
جب وہ دو سال کے تھے تو طوفانی جھکڑوںکی وجہ سے ان کے مکان کے اس کمرے کی
چھت گر گئی جس میں شیر علی اور ان کی ننھی کزن سو رہے تھے، دونوں بچےملبے
تلے دب گئے ۔لوگوں نے آکر بچوں کوملبے کے نیچے سے نکالا، لیکن اس وقت تک
بہت دیر ہوچکی تھی۔ ان کی کزن اس حادثے میں ہلاک ہوچکی تھی جب کہ شیر علی
کی ٹانگ کی ہڈی ران کے پاس سے مکمل طور سے ٹوٹ گئی تھی ۔اس دور میں صوبہ
سرحد میںطبی سہولتوں کا حصول بے انتہا دشوار تھا۔زخمی آفریدی کو حادثہ کے
کئی گھنٹے بعدپشاور میں واقع اسپتال پہنچایا گیا،وہاں مختلف تشخیصی ٹیسٹس
اورایکسرے کے بعد ڈاکٹروں نے بتایا ،کہ ان کے پیر کے زخم اس حد تک خراب
ہوچکے ہیں کہ ان کی زندگی بچانے کے لئے ٹانگ کا ٹنا ہوگی ۔والدین کی اجازت
کے بعد ان کی ٹانگ گھٹنے کے اوپرسے کاٹ دی گئی۔ انہیں مکمل طور سے صحت یاب
ہونے میں تقریباً تین سال لگے۔شیر علی کے والد نے ان کے لیےمصنوعی ٹانگ
بنوا دی، جس کی مدد سے وہ چلنے پھرنے لگے۔ ابتدا میں انہیں دشواری پیش آئی
لیکن کچھ عرصے بعد وہ اس ٹانگ کے عادی ہوگئے۔ ہر دو سال بعد نئی ٹانگ
بنوانے کی ضرورت پیش آتی تھی، کیوں کہ بدن کی بڑھوتری کے ساتھ پہلی والی
ٹانگ چھوٹی پڑ جاتی تھی۔پانچ سال کی عمر میں انہیں اسکول میںداخل کرایا
گیا، ان کے جسمانی نقص کی وجہ سے ہم جماعت ، ان کا مذاق اُڑاتے اور تنگ
کرتے تھے ۔وہ اس بات کا تذکرہ جب اپنے والدین سے کرتے تو وہ ان کا حوصلہ
بڑھایا کرتے تھے، جس کی وجہ سےشیر علی نے اپنی پڑھائی جاری رکھی۔ پڑھائی کے
ساتھ ساتھ شیر علی کوکھیلوں سے بھی دل چسپی تھی۔ان کے اسکول میں صرف دو
کھیل ،کرکٹ اور والی بال کھیلے جاتے تھے۔انہوں نےاپنی مصنوعی ٹانگ کے
سہارے،ان دونوں کھیلوں میں بھر پور حصہ لیا۔ کرکٹ کھیلنے کا انہیں جنون کی
حد تک شوق تھا ۔میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد،وہ جیم خانہ گراؤنڈ گئے
اور کرکٹ کلب میں داخلہ لے لیا ۔داخلے کے وقت کلب کے کوچ نے ان سے کہا کہ،
آپ تو معذور ہیں، کرکٹ کیسے کھیلیں گے؟انہوں نے جواب دیا کہ آپ مجھے چانس
دیں گےتو میں اپنی اہلیت سے خود کو کلب کا بہترین کھلاڑی ثابت کرنے کی کوشش
کروںگا۔ جب انہوں نے کلب کی سطح سے کھیل کا آغاز کیا تو ان کی پرفارمنس سے
کلب کے آفیشلز بہت متاثر ہوئے۔کچھ عرصے بعدانہیں ایک دوست کے توسط سے،
پشاور کے قیوم اسٹیڈیم میں ڈس ایبل کرکٹ ٹیم کے ٹرائل کی اطلاع ملی، انہوں
نے پشاور پہنچ کر بالر کے لیے ٹرائل دیااور انہیں فاسٹ بالر کی حیثیت سے
ٹیم میں منتخب کرلیا گیا۔ اس کے بعد آل پاکستان ڈس ایبل کرکٹ کا ٹورنامنٹ
منعقدہوا جس میں شیر علی کی کارکر دگی متاثر کن رہی ،جس کے بعد وہ قومی سطح
پر مشہور ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے قومی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم میں شمولیت کے
لیے ٹرائل دیا جس میں انہیںمنتخب کر لیا گیا۔2012 میں پاکستان ڈس ایبلڈ
کرکٹ ٹیم نے بھارت کا دورہ کرکے T20 میچوں کی سیریز کھیلی۔ ان کی تیز
گیندوں نے بھارتی کھلاڑیوں کو بہت پریشان کیا۔ پاکستانی ٹیم نے میزبان ملک
کو وائٹ واش شکست دی۔ افغانستان کی ٹیم کے دورہ پاکستان کے دوران بھی ان کی
بالنگ کی وجہ سے پاکستانی ٹیم فاتح رہی۔2014 میں پاکستان ڈس ایبلڈ ٹیم
نےسوئٹزر لینڈ اور فرانس کا دورہ کیا اور ان ممالک کی کلب ٹیموں کے خلاف
میچ کھیلے ۔ پاکستان کی معذور کھلاڑیوں کی ٹیم نے یورپی کلبس کے نارمل
کرکٹرز کا مقابلہ کیا۔ ان میچوں میںشیر علی نے بہترین بالنگ اسپیڈ کا
مظاہرہ کیا، ان کی بالنگ میں شعیب اختر کی گیندوں کی جھلک نظر آئی۔ ان
میچوں میں انہوں نے 132 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بالنگ کرائی۔شیر علی
کو سوئٹزر لینڈ کرکٹ بورڈ کی طرف سے ’’اسپرنٹر بالر‘‘ کا ایوارڈدیا گیا۔
فرحان سعید
1986ء میں کراچی کے نواحی علاقے، کورنگی میں جنم لینے والے فرحان سعیدقومی
ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کےمنفرد فاسٹ بالر ہیںجو بیساکھی کے سہارے دوڑتےہوئے تیز
گیندیں کراتے ہیں۔ فرحان جب دو سال کے تھے تو انہیں بخار ہوا جس کے بعد
پولیوہوگیا، جس کے نتیجہ میںان کی بائیں ٹانگ مفلوج ہو گئی۔اپنی معذوری اور
گھریلو تنگ دستی کی وجہ سے وہ صرف ابتدائی تعلیم حاصل کرسکے اور 15برس کی
عمر میںانہیں چوڑیوں کے کارخانے میں ملازمت کرنا پڑی۔وہ اپنی معذوری کی وجہ
سے بہت دل گرفتہ رہتے تھے۔ایک روزفرحان گھر کے باہر بیٹھے ہوئے تھے کہ
انہوں نے گلی کے چند لڑکوں کو ٹینس بال کی مدد سے کرکٹ کھیلتے دیکھا۔ وہ ان
کے پاس گئے اور ان کے ساتھ کھیل میں شریک ہوگئے۔ انہوں نے بیساکھی کے سہارے
دوڑتے ہوئے بالنگ کرائی۔ اس تجربے نے انہیں حوصلہ دیااور وہ ایک نئے عزم
اور ولولے کے ساتھ محلے کی سطح پر منعقد ہونے والے میچوں میں حصہ لینے لگے۔
انہیں کھیلتا دیکھ کر لوگوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ 2007ء میں فرحان کے
چنددوستوں نے انہیں اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر دکھائی جس میں ڈس
ایبلڈ کرکٹ ٹیم کے لیے کھلاڑیوں کے ٹرائلز کا اعلان شائع ہوا تھا۔ فرحان نے
اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور مذکورہ دن نیشنل اسٹیڈیم
پہنچ گئے، وہاں ان کی طرح جسمانی معذوری کا شکار 12کھلاڑی تھے۔ ڈس ایبلڈ
کرکٹ ٹیم کےبانی سلیم کریم نے ہر کھلاڑی سے ملاقات کی اورٹرائلز لینے کے
بعددو سے تین پریکٹس سیشنز منعقد کرائے جس کے بعد تمام کھلاڑیوں کو قومی
ٹیم کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ٹیم کی تشکیل کے بعد،پاکستان کرکٹ اکیڈمی کے
ساتھ پہلا میچ منعقد ہوا ، جس میں فرحان سعید نے پہلی وکٹ حاصل کی۔اس کے
بعد علاقائی سطح پر میچ کھیلے جاتے رہے۔ 2010ء میںپہلی ڈس ایبلڈقومی کرکٹ
چیمپئن شپ کا انعقاد کراچی میں ہوا ۔ افتتاحی میچ میں دنیائے کرکٹ کی اہم
شخصیات نے شرکت کی جن میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے چیئرمین ہارون لورگاٹ
اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین سمیت بعض نام ور کرکٹرزاسٹیڈیم میں
موجود تھے۔میچ شروع ہونے کے بعد جب فرحان سعید بیساکھی کے سہارے دوڑتے ہوئے
اوور کی پہلی گیند کرانے آئے تو اس وقت ہر آنکھ اشک بار ہوگئی اور
تماشائیوں نے کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے ہوئے فرحان سعید کو داد دی۔2012 میں
فرحان سعید کو متحدہ عرب امارات میں انگلینڈ کی ٹیم کے خلاف کھیلنے والی
ٹیم اسکواڈمیں شامل کیا گیا۔2015 میں ٹیم نے بنگلہ دیش، افغانستان، انڈیا
اور انگلینڈ کے خلاف سیریز کھیلیں اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ان
تمام میچوں میں فرحان نےبہترین باؤلر کی ٹرافی حاصل کی ۔ |