صوابی ہاکی ٹرف: کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری، لیکن معیار ایسا کہ کھلاڑی بھی شرم سے بیٹھ جائیں

صوابی میں بننے والی ہاکی ٹرف کی کہانی شاید پاکستان کی کھیلوں کی ترقی کی “سب سے بڑی کامیابی” کے طور پر یاد رکھی جائے — اگر آپ طنز کے انداز میں دیکھیں تو! پی ٹی آئی کی حکومت نے کروڑوں روپے کی لاگت سے یہ ٹرف بنایا، لیکن اب کھلاڑیوں اور مقامی ذرائع کے مطابق یہ ٹرف مختلف جگہوں پر بیٹھ گیا ہے، رنکلز پیدا ہو گئی ہیں، اور کھیل کے دوران کھلاڑی زمین سے جھولتے ہوئے لگتے ہیں کہ جیسے وہ کسی مزاحیہ شو کے حصے میں ہیں۔یہ کوئی عام مسئلہ نہیں ہے۔ کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ ٹرف پر دو قدم چلنا ایسا ہے جیسے زمین کسی عجیب و غریب رقص پر دعوت دے رہی ہو۔ حقیقت میں کروڑوں روپے کی یہ سرمایہ کاری اب ایک طرح کا "فن پارہ" بن گئی ہے، مگر افسوس کہ یہ فن پارہ کھیل کے معیار کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

یہ صورتحال پشاور سپورٹس کمپلیکس اور لالہ ایوب ہاکی کمپلیکس کی کہانی کو دہرا رہی ہے۔ دونوں جگہوں پر بھی معیار کی کمی اور ناقص مواد کے استعمال کی شکایات سامنے آئی تھیں، لیکن لگتا ہے کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے اس پر “نظر انداز کا عمل” اپنایا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے نزدیک کھیل کا مطلب صرف فائلوں میں منصوبہ بنانا اور میڈیا میں افتتاحی تصاویر دینا ہے، اصل کام یعنی معیار کو برقرار رکھنا شاید نظرانداز ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ہاکی ٹرف کی تنصیب ایک حساس کام ہے، جس میں زمین کی تیاری، صحیح مواد کا استعمال، اور ماہر کاریگروں کی نگرانی لازمی ہے۔ لیکن صوابی میں ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ یا تو نظر انداز کر دیا گیا یا “کون جانے کب آئے کوئی افسر” کے بہانے جلد بازی میں کام مکمل کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کروڑوں روپے کے ٹرف پر رنکل پیدا ہو گئی اور زمین بیٹھ گئی۔ کھلاڑی اب ٹرف پر کھیلتے ہوئے زیادہ محتاط ہیں کہ کہیں یہ اچانک کسی چھپے ہوئے سوراخ یا رنکل میں نہ پھنس جائے۔

یہ صرف کھیل کے لیے خطرہ نہیں بلکہ یہ نوجوان کھلاڑیوں کے حوصلے کو بھی متاثر کرتا ہے۔ سوچیں، ایک نوجوان کھلاڑی جو ہاکی کے خواب دیکھ رہا ہے، وہ کروڑوں روپے کی ٹرف پر کھیلنے آیا اور رنکلز اور بیٹھنے والی زمین دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس لمحے میں کھیل کا مزہ تو ختم ہو جاتا ہے، اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ شاید ہمارے صوبے کے کھیلوں کے لیے "کامیاب منصوبہ" کا مطلب صرف تصویروں کے لیے ہے۔یہ معاملہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی نگرانی پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔ لگتا ہے کہ افسران کی ترجیح یہ رہی کہ منصوبہ بروقت مکمل ہو جائے، چاہے معیار کچھ بھی ہو۔ اور جب معیار خراب نکلتا ہے تو صرف “انکشافات” ہوتے ہیں، رپورٹیں بنتی ہیں، اور کوئی سرکاری جواب نہیں آتا۔یہاں ایک اور طنزیہ پہلو یہ ہے کہ پشاور اور لالہ ایوب میں بھی یہی ہوا، اور اب صوابی میں بھی۔ یوں لگتا ہے کہ صوبے کے کھیلوں کا معیار صرف “منصوبہ بندی میں خوبصورت اور تصویری” ہے، عملی طور پر نہیں۔

صوابی ہاکی ٹرف کی تعمیر پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے، لیکن عوام کو معلوم نہیں کہ یہ پیسہ کہاں گیا۔ سرکاری دستاویزات میں صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ ایک “اسپورٹس کمپلیکس” بنایا گیا، مگر ہاکی ٹرف کی الگ قیمت، مواد کی تفصیل، یا معیار کی جانچ کا کوئی ریکارڈ عوامی سطح پر نہیں ہے۔ یہ ایک عام مسئلہ ہے: منصوبے تو بڑے بڑے لگائے جاتے ہیں، مگر ان کا اصل معیار اور خرچ عوام تک پہنچتا نہیں۔اگر ہم اس معاملے کو مزاحیہ انداز میں دیکھیں، تو صوابی کا ٹرف شاید “پاکستان کی سب سے نازک رقص کرنے والی زمین” کا اعزاز لے سکتا ہے۔ کھلاڑی قدم رکھنے سے پہلے غور و فکر کرتے ہیں، کہیں زمین اچانک اٹھ کر جھول نہ جائے۔ ایسے میں کھلاڑی کی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کا اعتماد بھی کمزور ہوتا ہے۔

یہ صورتحال نوجوان کھلاڑیوں کے لیے مایوس کن ہے۔ وہ دن رات محنت کرتے ہیں تاکہ کسی دن بین الاقوامی مقابلے میں حصہ لے سکیں، اور پھر یہ دیکھتے ہیں کہ صوبائی سطح کی سہولیات ناقص ہیں۔ یہ نہ صرف کھیل کے فروغ کو متاثر کرتا ہے بلکہ ان کے حوصلے بھی توڑ دیتا ہے۔صوابی ہاکی ٹرف کا معاملہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ صوبائی سطح پر کھیلوں کے انفراسٹرکچر میں معیار اور شفافیت کے شدید مسائل ہیں۔ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود، یہ سہولیات کھلاڑیوں کے لیے قابل اعتماد نہیں رہتیں۔ اگر حکومت اور متعلقہ افسران نے واقعی کھیل کو فروغ دینا ہے، تو انہیں نہ صرف منصوبے بنانے ہیں بلکہ اس کی معیاری تنصیب، مواد کی جانچ، اور وقتاً فوقتاً دیکھ بھال پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ورنہ، اگلے “انکشاف” کی فہرست میں صرف صوابی نہیں بلکہ ہر ضلع شامل ہو جائے گا، اور کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری صرف فائلوں اور تصویروں میں یاد رکھی جائے گی، حقیقت میں کھیل کے معیار پر نقصان کے ساتھ۔
#SwabiHockeyTurf #SportsInfrastructurePK #HockeyPakistan #KP #PTIGovernment #SportsCorruption #HockeyFacilities #YouthSports #KhyberPakhtunkhwa

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 868 Articles with 702106 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More