سچ بولنے کی سزا اور نیشنل گیمز کا رولر کوسٹر
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشتو میں ایک محاورہ ہے جو خیبرپختونخوا میں نسلوں سے چلتا آ رہا ہے۔ آپ نے بھی سنا ہوگا۔ ایک بچہ تھا، معصوم سا، لیکن بیماری یہ کہ سچ بولتا تھا۔ گھر والے بے چارے پریشان کہ نہ جھوٹ بولتا ہے نہ خاموش رہتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ روزانہ مار پڑتی۔ ایک دن ایک رشتہ دار خاتون آئی، اس نے بچے کی حالت دیکھی تو پوچھا کہ یہ کیوں روز پٹتا ہے۔بچہ سیدھا سا جواب دے کر بیٹھ گیا: میں سچ بولتا ہوں، اس لیے مار کھاتا ہوں۔
خاتون نے اسے وہ مشہور جملہ کہا جو اکثر سمجھانے والے کہتے ہیںمیرے ساتھ میرے گھر چلو، وہاں کوئی تمہیں نہیں مارے گا۔ تم دل کھول کر سچ بولو۔ بچے نے فوراً انکار کیا: آپ بھی مجھے ماریں گی۔خاتون نے سمجھایا، یقین دلایا، قسمیں کھائیں، جیسے ہمارے بڑے افسر سمجھاتے ہیں کہ “فکر نہ کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔”بچہ پھر بھی نہ مانا، لیکن اسے زبردستی اپنے ساتھ لے گئیں۔ دو تین دن تک خاموش رہا۔ خاتون نے کہا: کیوں خاموش ہو؟ یہاں کوئی مسئلہ نہیں، جو دل میں ہے کہو۔
بچہ بولا: یہاں بھی نہیں بول سکتا، آپ ماریں گی۔ خاتون نے کہا: میں کیوں ماروں گی؟ بچہ ہلکا سا مسکرایا اور وہی سوال اچھال دیا جس نے پاکستان کی پوری سیاست، بیوروکریسی اور سپورٹس ڈائریکٹریٹس کو آج تک رزق دیا ہوا ہے: آپ تو بیوہ ہو، اتنی لپ سٹک اور سنگھار کس کے لیے کرتی ہیں؟جملہ سنتے ہی خاتون کا وہی حال ہوا جو تنقید سنتے وقت ہمارے اداروں کا ہوتا ہے۔ خون کھول گیا۔ اور پھر بچہ وہی مار کھائی جس کی اسے پہلے سے خبر تھی۔
یہی ہماری حالت ہے۔ جہاں سچ بولیں، وہاں مار۔ جہاں خبر دیں، وہاں نوٹس۔ جہاں سوال کریں، وہاں دھمکی۔اور پھر لوگ کہتے ہیں: یار، تم نیشنل گیمز گئے نہیں؟ میں نفی میں سر ہلاتا ہوں، تو وہ حیرت سے دیکھتے ہیں، جیسے میں نے کوئی قومی جرم کر دیا ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ نہیں جاتا۔ اور وجہ وہی جو اس بچے نے بتائی تھی میں سچ بولتا ہوں۔
ایک سال پہلے بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے مین گیٹ پر مجھے اچھی خاصی ٹھکائی ہوئی تھی۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ یہ مار کھا کر چپ ہو جائے گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگ مار کھا کر سمجھدار ہوتے ہیں، کچھ زیادہ بولنے لگتے ہیں۔ میں دوسری قسم میں شامل ہوں اب اسی سچ کی وجہ سے ڈائریکٹریٹ نے عدالتی کارروائی کا سمن بھی بھیج دیا کہ آپ نے توہین کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈائریکٹریٹ کی توہین ہوتی کیسے ہے؟ کیا سچ بول کر؟ کیا سوال پوچھ کر؟ یا پھر توہین صرف اس وقت ہوتی ہے جب کوئی ان کے پسندیدہ چہرے پر انگلی رکھ دے؟
خیر، جہاں سچ کی قیمت مار ہو وہاں کسے کیا کہنا۔ نیشنل گیمز کا تماشا بھی اسی بچے کی کہانی جیسا ہے۔ اولمپکس والوں نے سمجھا کہ صحافیوں کا معاملہ ڈائریکٹریٹ دیکھے گا۔ ڈائریکٹریٹ نے سوچا کہ یہ کام اولمپکس کا ہے۔ نتیجہ یہ کہ دونوں نے ہمیں ایک دوسرے کے کھاتے میں ڈال دیا اور دونوں پوری تسلی سے یہ سمجھتے رہے کہ ہم بے وقوف ہیں۔ حالانکہ ہم سمجھتے تھے۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے تھے کہ اگر اولمپکس سے وابستہ لوگوں کے بچے آفیشلز میں جا سکتے ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں مزے لینے والے۔ اور سچ بات یہ ہے کہ ہمیں کراچی جانے کا شوق نہیں تھا۔ البتہ خبر اتنی ملی ہے کہ جن صحافیوں نے وہاں سے رپورٹنگ کی ہے وہ بھی حیران ہوں گے کہ انہیں کیا نہیں ملا۔
اب بات کرتے ہیں کہ کون گیا کون نہیں گیا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا شاید ہی کوئی شعبہ ایسا ہو جس نے کراچی کی ہوا نہ کھائی ہو۔ ایڈمنسٹریشن؟ حاضر۔اسٹیبلشمنٹ؟ حاضر۔ ڈویلپمنٹ؟ حاضر۔ لیگل ونگ؟ حاضر۔ جن کا وہاں کوئی کام نہیں تھا، وہ بھی موجود تھے۔ صرف پشاور سپورٹس کمپلیکس کی ایڈمنسٹریٹر اور ایک خاتون ایڈیشنل ڈی جی سمیت آپریشن سے وابستہ لوگ نہیں گئیں۔ ضم اضلاع کے ایک بڑے افسر البتہ پینٹ اور ٹائی لے کر غائب ہوئے اور پھر نظر نہ آئے۔
اب سوال یہ ہے کہ حساب کتاب دینے والا وہاں کیوں جاتا ہے؟ ڈویلپمنٹ والوں کو کراچی میں کیا بنانا تھا؟ لیگل ونگ والوں نے وہاں کون سا مقدمہ لڑنا تھا؟ اور اسٹیبلشمنٹ والوں نے کون سی نئی تقرری کرنی تھی؟ اگر پوچھ لیں تو آپ بھی اسی بچے کی طرح مار کھائیں گے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت درخواست دے دیں تو شاید جواب اگلے نیشنل گیمز میں ملے۔ وہ بھی اگر نصیب میں ہوا۔
اب آتے ہیں کھلاڑیوں کے ڈی اے پر۔ یہ کہانی بھی کم مزاحیہ نہیں۔ کئی کھلاڑیوں کے الاو¿نس کھا لیے گئے۔ جو اکیس ہزار روپے سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے دینے تھے، وہ بھی گئے۔ سندھ والوں کے ساڑھے سترہ ہزار بھی غائب۔ جمناسٹک ٹیم کی کھلاڑیوں نے کراچی میں ایک خاتون افسر کو یہ بات بتائی، اور اسی سے خبر لیک ہوئی۔ خبر کی کمی نہیں، مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ہمارے پاس مائیک پکڑنے کی جگہ ڈنڈا پکڑنے والے زیادہ ہیں۔
کسی نے پوچھا کہ تم کراچی کیوں نہیں گئے؟ میں نے سیدھا سا جواب دیا: سچ بولتا ہوں، اس لیے نہیں گیا۔ وہی بات جو بچے نے اپنی رشتہ دار خاتون کو کہی تھی۔ اگر چلا جاتا تو سچ بولنے پر وہاں بھی مار کھاتا۔ اور مجھے مار کھانے کا باقاعدہ تجربہ ہے، فریش سرٹیفکیٹ بھی موجود ہے۔
ہمارے ہاں ایک عجیب مزاج ہے:جس کے پاس اختیار ہے وہ صرف حکم دینے کے لیے بنا ہے۔ جس کے پاس اختیار نہیں وہ صرف برداشت کرنے کے لیے۔ اور ہر بڑا افسر خود کو طرم خان سمجھتا ہے، باقی سب کو وہی مشہور دو لفظ سمجھتا ہے جو ہمارے دیہاتی اکثر کھیل کے میدان میں بھی بولتے ہیں۔
نیشنل گیمز کا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ کون گیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کس نے کیوں گیا۔ کس نے کس کا چہرہ بچانے کے لیے گیا۔ کس نے بجٹ کے نام پر اپنی موجودگی کو ضروری قرار دیا۔اور کس نے محض اپنی کرسی کے حکم پر اپنا بستہ اٹھا کر کراچی کی فلائٹ پکڑی۔ ادھر ہمارے کھلاڑی ہیں جن کے الاو¿نس غائب۔ ان کے میڈلز سے پہلے ان کا پیسہ غائب ہو گیا۔پھر بھی ہم پوچھیں تو ہمیں غلط کہا جاتا ہے۔ سوال پوچھنا اب جرم ہے۔ اور جرم بھی ایسا جس میں سزا پہلے ملتی ہے اور سماعت بعد میں ہوتی ہے۔
اب اگلے ہفتے جب سب واپس آئیں گے، تب اور کہانیاں نکلیں گی۔ مزید خبریں سامنے آئیں گی۔ کچھ کھلاڑی بتائیں گے کہ وہ کس حال میں گئے، کس حال میں رہے اور کس حال میں واپس آئے۔کچھ آفیشلز بتائیں گے کہ کس فائل پر کتنی بار دستخط ہوئے۔ اور کچھ لوگ اپنے چہرے بچانے کے لیے نئی کہانیاں گھڑیں گے۔ تب تک ہمارا حال وہی رہے گا جو اس بچے کا تھا:سچ بولیں گے نہیں تو ضمیر مارے گا، سچ بولیں گے تو لوگ ماریں گے۔
اللہ حافظ۔
#SportsJournalism #KP #NationalGames #Truth #InvestigativeColumn #KhyberPakhtunkhwa
|