ٹارٹن ٹریک کی ٹھنڈی آہیں اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی گرم وارداتیں

صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخوا کی ٹارٹن ٹریک کی کہانی کچھ ایسی ہے جیسے پرانی پاکستانی فلم، جس میں ہیرو دیر سے بھی آتا ہے، لڑتا بھی کم ہے، لیکن ڈائیلاگ بڑے دھواں دار مارتا ہے۔ بس یہی فرق ہے کہ یہاں کھلاڑی ہیرو ہیں اور ڈائریکٹریٹ ولن بھی، ولن کا چچا بھی، اور ولن کا سپانسر بھی۔کہانی شروع ہوتی ہے کوئٹہ نیشنل گیمز سے کچھ پہلے، جب پشاور اسپورٹس کمپلیکس کے ٹارٹن ٹریک نے اچانک ٹھوکریں کھانا شروع کیں۔ کسی افسر نے شاید خواب میں ایتھلیٹکس کا ربڑ پھٹتے دیکھا ہوگا، اور صبح دفتر آکر فوراً اعلان کر دیا “ٹریک اکھاڑو، ابھی اکھاڑو، فوراً اکھاڑو… یہ ضروری ہے!”

بس پھر کیا تھا، مزدور آئے، ٹریک گیا، اور کھلاڑی بیٹھ گئے۔ ٹریننگ؟ وہ تو جیسے کوئی غیرقانونی سرگرمی ہو۔ ایتھلیٹس منہ دیکھتے رہ گئے: “بھائی، ہم دوڑیں نہ دوڑیں، کام تو کم از کم وقت پر کرو!” آرچری کے بیچارے کھلاڑی اوپن ایئر میں پریکٹس نہ کر سکے۔ فٹ بال والے بھی پھنس گئے۔ بس ایک یہی فائدہ ہوا کہ ڈائریکٹریٹ کے کچھ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا: “چلو آج پھر کھلاڑیوں کی واپسی سے پہلے گھر پہنچ جائیں گے۔”اب آتے ہیں پشاور سپورٹس کمپلیکس کے ٹارٹن ٹریک کی تعمیر پر۔ شیڈول کے مطابق، اگست 2024 میں ٹریک مکمل ہونا تھا۔ لیکن اگست آیا…، چلا گیا…، اور ٹریک نے کہا: “مِیں نہیں آتا!”

سال بھر چپ چاپ پڑی جگہ پر اچانک کراچی نیشنل گیمز کا سناٹا ٹوٹتے ہی کام شروع ہو گیا۔ اب مزدور بھی بھاگ رہے ہیں، مشینیں بھی چیخ رہی ہیں، اور کھلاڑی بھی چیخنے کو دل کر رہا ہے۔کیونکہ دوڑنے کی بجائے وہ اب پچاس کلو کی ریت اٹھا کر راستہ ڈھونڈ رہے ہیں کہ ٹریک میں جاوں یا گھر۔ کہا جا رہا ہے کہ: “اب وقت ہے، ورنہ دوبارہ موقع نہیں ملے گا۔” جی، موقع نہیں ملے گا؟ یہی تو مسئلہ ہے کہ کچھ لوگوں کو صرف کام چالو کرنے کا ہی وقت ملتا ہے، کام مکمل کرنے کا کبھی نہیں۔

اب ایتھلیٹکس، آرچری اور فٹ بال کے کھلاڑیوں کے لئے ٹریننگ تقریباً ختم۔بس نیشنل گیمز میں اب حاضری لگے گی، جیسے سرکاری اسکول میں بچے رول نمبر سن کر “میں حاضر ہوں” بولتے ہیں۔خیبر پختونخوا کی بھی ان کھیلوں میں یہی حیثیت رہ جائے گی: “حاضر… اور غائب دونوں ایک ساتھ!” کوئی یہ سوال ہی نہیں کر رہا کہ نیشنل گیمز کے وقت ہی ٹریک بنانے کا چسکا کیوں چڑھا؟ ابھی تو پاڑہ چنار کا گراونڈ بھی کئی سالوں سے فائلوں میں سفر کر رہا ہے۔ وہاں اٹھنا تھا کام… وہاں ہو ہی نہیں رہا۔ پشاور صدر کا واحد گراونڈ جس پر پوری سٹی کی ٹریننگ ہوتی ہے، اس پر بھی تعمیراتی رکاوٹیں لگا دیں۔ پشاور یونیورسٹی؟ وہاں گراونڈ ملتا ہی نہیں۔ کھلاڑی ایسے لائن میں لگتے ہیں جیسے نیا شناختی کارڈ بنوانے گئے ہوں۔

اب انتظامیہ نے گراونڈ ٹھیکیدار کے حوالے کر دیا ہے۔ اور یوں ٹریننگ کے بجائے کھلاڑی روزانہ “کنسٹرکشن اینڈ چیئرنگ” کا نیا کھیل سیکھ رہے ہیں۔ یہاں ایک دلچسپ موڑ آتا ہے۔ ڈائریکٹریٹ نے وی آئی پی ہاسٹل میں ٹارٹن ٹرین کے دو ایکسپرٹ کے لیے راتوں رات ہاسٹل میں “انگلش کموڈ” لگوا دیا۔ کیوں؟ کیونکہ شاید ایکسپرٹ انڈین کموڈ استعمال نہیں کر سکتے۔ واہ جی، ترقی دیکھیں… کھلاڑیوں کے لئے گراونڈ نہیں، لیکن ایکسپرٹس کے لئے کموڈ اپ گریڈ فوراً۔ یہ ہے اصل “فاسٹ ٹریک ڈویلپمنٹ”۔

باقی تمام بندے، چاہے وہ کوچ ہوں یا عام سٹاف، سب کو ہاسٹل میں “کھپا” دیا گیا ہے۔ تقریباً ایک مہینہ یہی پروگرام چلے گا، اور ساتھ ساتھ عوام کے پیسوں سے گیس، بجلی، پانی کے بل بھی بڑھتے رہیں گے۔ اب اصل سوال یہ ہے کہ ان مہمانوں کی رہائش، کھانا، سہولیات… یہ سب کون دے گا؟ کیا کنٹریکٹر دے گا؟ یا سپورٹس ڈائریکٹریٹ؟ دونوں کے چہرے ایسے ہیں جیسے کوئی بھی ذمہ داری نہیں لینا چاہتا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کنٹریکٹر کی ذمہ داری ہے۔ لیکن انجنئرنگ ونگ اس معاملے میں بالکل خاموش ہے۔ ٹارٹن ٹریک کے پی سی ون کی معلومات نہیں دے رہی، جیسے کسی نے خزانے کا نقشہ مانگ لیا ہو۔

چلیں، اب بات کرتے ہیں بجلی کی، جو خود اپنی الگ کہانی ہے۔صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ دو سال سے بغیر میٹر بجلی استعمال کر رہا ہے۔جی ہاں، دو سال! افسران کے مطابق “ہم نے ادائیگی کی ہے، میٹر نہیں لگا رہے۔” لیکن یہ بات ایسے ہے جیسے کوئی کہے، “میں نے گاڑی لے لی تھی، بس شو روم والے ٹائروں سمیت دینے سے انکاری ہیں۔”

اب کنٹریکٹر نے ویلڈنگ کا کام شروع کر دیا ہے۔ بجلی کا بل آئے گا… اور وہ بھرے گا کون؟ جی، سپورٹس ڈائریکٹریٹ! جبکہ ویلڈنگ تو کنٹریکٹر کے کام میں شامل ہے۔ تو پھر ادائیگیاں کس چیز کی ہو رہی ہیں؟ ملک کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ایسی ادائیگیاں کاغذ پر زیادہ اچھی لگتی ہیں اور حقیقت میں باہر۔ یہ سب دیکھ کر لگتا ہے جیسے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے افسر، افسر کم اور ٹھیکیداروں کے رشتے دار زیادہ ہیں۔ کھلاڑیوں کا درد؟ وہ تو شاید ان کے لیپ ٹاپ کے “Others Folder” میں بھی موجود نہ ہو۔

آخر میں اصل نقصان کون اٹھائے گا؟ صوبے کے عوام۔ بجلی کا بل، ٹریک کی تاخیر، کھلاڑیوں کی پرفارمنس، نیشنل گیمز میں فارم… سب عوام کی جیب سے جائے گا۔ اور یہ وہی تبدیلی ہے جس پر پشاور نے کبھی نعرے لگائے، ڈھول پیٹے، اور خوشی میں ٹھمکے لگائے تھے۔ اب وہی تبدیلی عوام کو بجلی کے بل میں نظر آ رہی ہے۔ افسوس یہ کہ بدلا کچھ نہیں… بس ٹریک کی قسم بدل گئی، باقی نظام وہی پرانا۔

#KPDrama
#SportsDirectorateKP
#TartanTrackMess
#AthletesDeserveBetter
#KPSports
#PeshawarSportsComplex
#AccountabilityInSports
#PublicMoneyPublicRight
#SportsMismanagement

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 853 Articles with 694204 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More