خیبرپختونخوا کھیلوں کا نیا سیزن: اجلاس، انا، ہوٹل، ٹارچ اور وہی پرانی کہانی

خیبرپختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا۔ یہ جملہ سنتے ہی آدمی کے دل میں امید جاگتی ہے کہ شاید اب کوئی نیا فیصلہ ہو، کوئی نیا اصول بنے یا کم از کم کوئی پرانی خرابی دور ہو جائے۔ لیکن اجلاس میں شریک لوگ جیسے ہی کرسیوں پر بیٹھے، امید بھی پاس والی کرسی سے اٹھ کر باہر چلی گئی۔اجلاس میں تمام ایسوسی ایشنز کے نمائندے تھے۔ سپورٹس ڈائریکٹریٹ بھی تھا۔ ماحول میں گرمجوشی کم اور سجدہ شکر زیادہ تھا کہ چلو، ایک دن تو سب اکٹھے بیٹھ گئے۔ لیکن گفتگو شروع ہوئی تو پتا چلا کہ نئی بات بس اتنی تھی کہ ہر ادارہ اپنی حد میں رہ کر کام کرے۔ یعنی وہی پرانی مثال کہ میرا کھیت میرا، تمہارا کھیت تمہارا۔ فرق صرف اتنا کہ یہاں کھیت نہیں کھیل ہیں۔

اولمپک ایسوسی ایشن نے فوراً اعلان کر دیا کہ وہ انڈر 14 سے آگے کے مقابلے نہیں کرا سکتا۔ یہ بات بالکل درست ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ڈائریکٹریٹ کو اپنی حد کا پتا ہے، کیا باقی سب کو بھی ہے؟ کتنی ایسوسی ایشنز فعال ہیں؟ کتنی اپنی ہی ضد میں پھنسی ہوئی ہیں؟ کتنی صرف نام کی ہیں اور کتنی وہ ہیں جن کے دفتر میں کبھی صفائی کرنے والا بھی دکھائی نہیں دیتا؟ ڈی جی سپورٹس نے تو صاف کہہ دیا کہ انہیں تو اب تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ کونسی ایسوسی ایشن واقعی صحیح ہے اور کونسی صرف طاقت کی ریس میں لگی ہے۔ ان کی پریشانی دیکھ کر لگتا تھا کہ اگر فیصلہ انہیں کرنا پڑے تو شاید پہلے ایک مہینے کی چھٹی لیں اور پھر سوچیں کہ کہاں سے شروع کیا جائے۔

ادھر سابق وزیر کھیل سید عاقل شاہ کا کہنا تھا کہ صرف وہی تنظیمیں نیشنل گیمز میں جائیں گی جو ان کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ باقی سب گھریلو کرکٹ کی طرح گھر پر بیٹھ کر میچ دیکھیں۔ اس اعلان کے بعد کچھ نمائندوں کے چہروں پر وہی تاثرات تھے جو طالب علم کے چہرے پر ہوتے ہیں جب اسے بتایا جائے کہ اس کی رجسٹریشن آخری تاریخ کے بعد بھیج دی گئی ہے۔ایک طرف اولمپک ایسوسی ایشن کو یہ فخر ہے کہ وہ نیشنل گیمز کراتے ہیں۔ دوسری طرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو یہ مان ہے کہ وہ سرکاری لوگ ہیں۔ دونوں کا غرور دیکھ کر کھلاڑی بیچارے درمیان میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں جیسے ٹرک کے دونوں طرف سے زور پڑ جائے اور موٹرسائیکل درمیان میں ہو۔

کھلاڑیوں نے شکایت بھی کی کہ میرٹ پر آنے کے باوجود انہیں ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔ کچھ کہتے ہیں کہ ٹرائل ہو رہے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں ٹریننگ شروع ہو چکی ہے۔ کچھ کو خود نہیں پتا کہ ٹریننگ کہاں ہے۔ اور کچھ کی حالت ایسی ہے جیسے انہیں کسی خفیہ مقام پر بھیج دیا گیا ہو۔آرچری اور ہاکی کی نئی ٹرائلز کا اعلان ہوا ہے۔ باقی کھیلوں کی صورتحال اب بھی راز ہے۔ شاید اس لئے کہ راز داری بھی ہمارے کھیلوں کی روایتوں میں شامل ہے۔ خیر، سپورٹس ڈائریکٹریٹ چودہ دن کا کیمپ لگا رہا ہے اور کم و بیش پانچ سو افراد کا دستہ نیشنل گیمز بھیجنے کی تیاری میں ہے۔

اب آ جائیں ہماری کھیلوں کی کلاسک مشکلات کی طرف۔ ایتھلیٹکس گراونڈ بند ہے، سوئمنگ پول بند ہے۔ اب ٹریننگ کہاں ہوگی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب شاید وہی دے سکتا ہے جو عید پر چاند دیکھ لیتا ہے۔ سیریس بات یہ ہے کہ سوئمنگ کے کھلاڑی تو جائیں گے ہی نہیں کیونکہ کھیلنے کی جگہ ہی بند ہے اور انکا الحاق بھی اولمپک ایسوسی ایشن کیساتھ نہیں۔ نیٹ بال کے کھلاڑیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا الحاق اولمپک ایسوسی ایشن کے ساتھ نہیں۔کھیلوں کے الحاق، سیاسی تعلقات اور انا کے ملاپ نے سارا نظام ایسا بنا دیا ہے جیسے موبائل کا وہ مینو جس میں آدھے بٹن کام نہیں کرتے اور باقی غلط جگہ لے جاتے ہیں۔

اور اب ذکر ہو جائے ٹارچ کا۔ کراچی سے نیشنل گیمز کی ٹارچ آئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں استقبال دیا جاتا، وہاں سے آگے کشمیر منتقل کرتے۔ لیکن ٹارچ ہوٹل میں اتر گئی۔ جیسے کسی نے کہا ہو ”سہاگن وہی جسے پیا من چاہے“۔ ٹارچ نے بھی شاید وہی فیصلہ کیا۔ یا پھر پیغام یہ تھا کہ کھیل اب میدانوں سے زیادہ ہوٹلوں میں ہوتے ہیں۔میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور آج بھی کہوں گا کہ جب صحافی آپ کی تعریف کرے تو اچھا لگتا ہے۔ جب حقیقت لکھے تو برا لگتا ہے۔ سو میں بھی انہی برا لگنے والوں میں شامل ہوں۔ پروا نہیں۔

اب آ جائیں اس واقعے پر جس نے اجلاس میں ہلکی خوشگوار ہلچل پیدا کی۔ ڈی جی سپورٹس نے ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کو، جو اب عمران خان کرکٹ سٹیڈیم ہے، پھر ارباب نیاز ہی کہہ دیا۔ کوئی کہتا تھا کہ یہ عادت کا مسئلہ ہے۔ کوئی کہتا تھا کہ ابھی نام زبان پر نہیں بیٹھا۔ کچھ نے کہا کہ نام بدلنے سے کام تو نہیں بدلتا۔ جو بھی ہو، سامعین نے ایک دوسرے کو دیکھ کر معنی خیز مسکراہٹ ضرور دی۔اب خواتین کھلاڑیوں کی طرف آ جائیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہی کھلاڑی کو تین تین کھیلوں میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ جیسے کسی نے کہا ہو کہ ”چلو بھئی، ایک ہی جیون میں تین کھیل کھیل لو“۔ اس عجیب فیصلے کے باوجود کچھ لوگ بڑے اعتماد سے کہتے ہیں کہ ان کے پاس ڈائریکٹر کھیل بھی ہیں۔

کل کو یہی لوگ کہیں گے کہ ہمارے ہاں ثقافت کا مسئلہ ہے۔ دراصل مسئلہ ثقافت کا نہیں، انتظامیہ کا ہے۔ اگر کھیلوں کو سنجیدگی سے لیا جائے تو سب کچھ ممکن ہے۔ اگر نیت ہو تو ایک گاوں کی بچی اولمپکس تک جا سکتی ہے۔ اگر نیت نہ ہو تو ایک شہر کی ٹیم ٹرائل کے لئے جگہ بھی نہیں ڈھونڈ سکتی۔سنا ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کھیلوں کے سامان کے لئے ایسوسی ایشنز کو رقم بھی دے دی ہے۔ اب یہ رقم کتنی ہے ،کھیلوں کیلئے سامان کتب آئیگا ا، کس نے کیا سنبھالا، اور کس نے کیا خواب دیکھا، اس کا پتا اگلا اجلاس بتائے گا۔ یا شاید وہ بھی نہیں۔آخر میں ایک سوال رہ جاتا ہے۔ کیا ہم واقعی ایک کھیل دوست صوبہ ہیں؟ یا ہم صرف اجلاسوں، بیانات، فوٹو سیشن اور ہوٹلوں میں ٹارچ وصول کرنے تک محدود ہیں؟ جواب شاید سب جانتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ شاید اسی دعوے نے ہمیں آج تک تھام رکھا ہے۔

#SportsReform #KPKSports #FunnyColumn #CriticalColumn #NationalGames2025
#KPOlympics #SportsPolitics #NationalGames #PakistanSports #KhyberPakhtunkhwa


 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 878 Articles with 707002 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More