نیشنل گیمز… شکست کا شور، بہانوں کا راج اور ذمہ داری سے فرار


مسرت اللہ جان

کراچی کے نیشنل گیمز اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں، مگر ان مقابلوں نے ہمارے کھیلوں کے نظام کی وہ پرتیں کھول دی ہیں جنہیں ہم برسوں سے چھپانے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ ہر ایونٹ کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے، مگر نیشنل گیمز نے اس بار شاید ہمیں ”سیکھنے“ سے زیادہ ”سوچنے“ پر مجبور کیا ہے۔خیبر پختونخواہ کی ٹیمیں بڑے دعووں، بلند نعروں اور اس یقین کے ساتھ کراچی پہنچیں کہ اس بار صورتحال مختلف ہوگی۔ مگر نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں مقابلہ سخت ہوا، وہاں حوصلے پہلے دن ہی دم توڑتے نظر آئے۔ ہاکی سے لے کر خواتین فٹ بال، ووشو اور آرچری تک—زیادہ تر کھیلوں میں شکست کی وہ تصویر سامنے آئی جسے کسی فریم میں سجا کر نہیں رکھا جا سکتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدائی دو دنوں میں کے پی ڈیپارٹمنٹ کے بعد نمایاں پوزیشن پر دکھائی دے رہا تھا، مگر تیسرے دن نتائج نے ساری کہانی بدل دی۔ پنجاب پہلے، سندھ دوسرے اور خیبر پختونخواہ تیسرے نمبر پر۔ مقابلے ابھی مکمل نہیں ہوئے، مگر اتنا ضرور واضح ہو چکا ہے کہ توقعات اور نتائج کے درمیان فاصلہ بہت بڑا رہ گیا ہے۔اب اس فاصلے کو کم کرنے کے بجائے بہانوں سے بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کوئی پنجاب کے بڑے صوبے ہونے کا ذکر کرتا ہے، کوئی سندھ کے ہوم گراونڈ کا، کوئی کراچی کی گرمی کا گلا کرتا ہے، کوئی اپنے ساز و سامان کی ناکامی کا۔ یہ وہی کیفیت ہے جس کا خلاصہ پشتو کی ایک خوبصورت کہاوت میں یوں بیان ہوا ہے:"چہ ڈمے لہ گڈا نہ ورزیءنو وای چی غولے تنگ دے"
یعنی نااہلی کا پردہ بہانوں سے ڈھانپ دیا جائے۔

نیشنل گیمز کے دوران سامنے آنے والی بے ترتیبیوں نے بھی کئی سوالات اٹھائے۔ کھلاڑیوں کی رہائش کے مسائل، کھانے کی شکایات، ٹی اے/ڈی اے میں بے ضابطگیاں، اور کم عمر ایتھلیٹ کے ساتھ ناانصافی جیسے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ کھیلوں کا نظام صرف کھلاڑیوں ہی نہیں بلکہ پورے ڈھانچے میں تعمیر نو کا محتاج ہے۔یہ سب کچھ دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شاید ہمارے کھیلوں کا اصل مسئلہ مقابلہ نہیں، مزاج ہے۔ ہم اصلاح چاہتے ہیں، مگر خود احتسابی سے گھبراتے ہیں۔ ایسوسی ایشنز ہوں یا ادارے—سب اپنی کارکردگی کے گلاب پر پانی تو چھڑکتے ہیں، مگر اس مٹی کی نمی کو کبھی جانچتے نہیں جس میں یہ گلاب گنا چاہیے تھا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے تمام افسر کراچی میں موجود تھے۔ مگر افسوس، گراونڈ میں چند چہرے نظر آئے اور باقیوں کی موجودگی صرف تصاویر تک محدود رہی۔ اداروں کی کارکردگی صرف رپورٹوں سے نہیں، میدان میں قدم رکھنے سے بہتر ہوتی ہے۔ کاغذی رپورٹوں کی ساکھ اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کسی فائل میں دبے ہوئے ان خطوط کی جو کبھی نہ پڑھے جائیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ایسوسی ایشن اپنی ایک جامع رپورٹ مرتب کرے۔ اپنی غلطیاں تسلیم کرنا شکست نہیں، ترقی کا پہلا قدم ہے۔ ڈویلپمنٹ، لیگل اور اسٹیبلشمنٹ کے افسران کو بھی اپنی اپنی ڈومین کے مطابق وہ سچ بیان کرنا چاہیے جو انہوں نے کراچی میں دیکھا—نہ زیادہ، نہ کم۔ اس کے بعد ان رپورٹوں کو پبلک کیا جائے تاکہ لوگ جان سکیں کہ اصل خامیاں کہاں ہیں اور بہتری کہاں ممکن ہے۔

ایک پریس کانفرنس بھی ضروری ہے۔ ایسی پریس کانفرنس جس میں صرف تصاویر نہ ہوں، بلکہ سوال بھی ہوں۔ میڈیا کو بلایا جائے، ذمہ داران سامنے آئیں، اپنی کارکردگی اور کمزوریوں دونوں کا اعتراف کریں۔ چھپنے کا دور گزر چکا ہے۔ آج کے دور میں کارکردگی وہی ہے جو عوام تک پہنچے، چھپائی نہیں جائے۔اگلے ماہ انڈر 21 گیمز ہونے جا رہے ہیں۔ اب اگر یہی رفتار، یہی بے ترتیبی، اور یہی بے نیازی رہی تو نتائج کچھ بھی تبدیل نہیں ہوں گے۔ اس بار کھیل ریجنل سطح پر ہوں گے، اس لیے نہ ایسوسی ایشن بہانے بنا سکے گی، نہ ادارے اپنی ناکامی کسی اور پر ڈال سکیں گے۔

اصل مسئلہ وہی ہے جسے ہم جانتے بھی ہیں مگر اسے تسلیم نہیں کرتے فنڈز کہاں خرچ ہوئے؟ کتنے اضلاع میں کھیلوں کا انعقاد ہوا؟ کس ضلع نے کھیلوں کے فروغ کے نام پر بجٹ لیا اور کیا کارکردگی دکھائی؟ اور سب سے بڑھ کر—دو سہ ماہیوں کے بعد کھیلوں کے نام پر ملنے والے فنڈز کا حساب کہاں ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کھیلوں کے مستقبل کا تعین کر سکتے ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ ان سوالوں کو سنا بھی جائے۔ کھیلوں کا مستقبل میدان میں بنتا ہے، فائلوں میں نہیں۔
اور جب تک ہم اس حقیقت کو دل سے تسلیم نہیں کرتے، نیشنل گیمز جیسے ایونٹس آتے رہیں گے، گزر جاتے رہیں گے، شکستیں بھی ملتی رہیں گی، مگر بہتری کے دروازے بند ہی رہیں گے۔

#NationalGamesKarachi #SportsColumn #PakistanSports #AccountabilityInSports #SportsGovernance #KPPerformance #YouthGames2025 #SportsReform #ColumnWriting #SportsIntegrity


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 882 Articles with 709746 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More