قومی کھیلوں میں اینٹی ڈوپنگ کا مذاق، ناتجربہ کار اہلکار اور غیر شفاف نظام نے کھلاڑیوں کا اعتماد ختم کردیا
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
یہ جو پاکستان میں اینٹی ڈوپنگ کا سارا سسٹم چل رہا ہے نا، اسے دیکھ کر بندہ سوچتا ہے کہ یہ کھیل ہے یا کوئی چاندنی چوک کا ہومیو کلینک جہاں ڈاکٹر کی ڈگری بھی نہیں، سرٹیفکیٹ بھی فوٹو سٹیٹ، اور مریض بھی خود ہی اپنے اخبار میں اشتہار چھاپ کر اپنا علاج تجویز کرتا ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ وہاں مریض ایک ہوتا ہے، یہاں پورا ملک سر پکڑے بیٹھا ہے۔
قومی کھیلوں کے دوران ڈوپنگ ٹیسٹ کا معاملہ اس قدر دلچسپ اور پیچیدہ ہو چکا ہے کہ اب کھلاڑی کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ بھاگ رہا ہے مخالف سے، نیند سے یا خود اینٹی ڈوپنگ والوں سے۔ کھلاڑیوں کی حالت کچھ یوں ہے جیسے سکول میں ٹیچر نہ ہو اور مانیٹر خود ہی رول نمبر لگا کر سب کو سزا بھی دے، انعام بھی دے اور کبھی کبھار خود بھی کلاس سے بھاگ جائے۔چلیں بات شروع کرتے ہیں بڑے مسئلے سے۔ ناتجربہ کار، اناڑی اور جعلی حیثیت رکھنے والے افراد۔ اب خدا جانے یہ کون سے سرکاری ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام میں منتخب ہوتے ہیں جہاں واحد معیار شاید یہ ہو کہ آپ ڈوپنگ کا سپیلنگ غلط نہ لکھیں، باقی تجربہ ہو یا نہ ہو کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کے سامنے بیٹھ کر کھلاڑی یہ سمجھ نہیں پاتا کہ یہ نمونہ لینے آئے ہیں یا خود کوئی تحقیق چاہ رہے ہیں کہ ٹیسٹ کس طرح لیا جاتا ہے۔
ڈوپنگ ٹیسٹنگ کا نظام بے اعتباری کا شکار ہو چکا ہے۔ جی بالکل۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ بے اعتمادی اتنی گہری ہے کہ اگر کل کوئی اعلان کرے کہ کھلاڑیوں کے ٹیسٹ اب افطار کے بعد کسی بین الگرل میں، نیپکن پر لکھ کر کیے جائیں گے تو کچھ لوگ حیران نہیں ہوں گے۔ کم از کم نیپکن کے پیسے تو بچ جائیں گے۔اب آتے ہیں اس مقبول فنکارانہ طریقہ پر جسے ہم کہتے ہیں "ڈراو دھمکاو، کم سزا دکھاو، اپیل سے ڈراو"۔ یہ سسٹم تو ایسے چل رہا ہے جیسے کوئی پرانا پراپرٹی ڈیلر کرائے کے مکان کا سودا کر رہا ہو۔ پہلے ڈراوکہ بیٹا کرایہ بڑھ جائے گا۔ پھر کہو چلیں آپ کے لیے خاص رعایت ہے۔ پھر آخر میں بتاو اپیل نہ کرنا ورنہ مالک کچھ بھی کر سکتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہاں مالک کی جگہ کچھ لوگ بیٹھے ہیں جن کی شناخت عوام کو نہیں معلوم، مگر آواز بہت اونچی ہے۔
اب بات کرتے ہیں سب سے بھاری لفظ پر۔ "احتساب"۔ ہمارے کھیلوں میں احتساب ایسا ہے جیسے ٹریفک سگنل پر سب رکے ہوں اور موٹرسائیکل والا پھر بھی پیدل چلنے والوں کی جگہ سے گاڑی نکال کر آگے جا رہا ہو۔ مخصوص کھلاڑیوں کے خلاف کارروائیاں ہوتی ہیں۔ باقی مخصوص کھلاڑیوں کے ٹیسٹ لینے کی ہمت تک نہیں ہوتی۔ جیسے کھلاعیاں بھی برانڈز میں تقسیم ہیں۔ کچھ عام سائز والے، کچھ میڈیم، کچھ بڑے اور کچھ "باس نے کہا ان کو نہ چھیڑو" والے۔اب آتے ہیں اپیل کمیٹی کی طرف۔ جو آج تک بنی نہیں۔ جس کمیٹی کا ہونا ضروری تھا وہ بن نہیں سکی اور جس کو ختم ہونا چاہیے تھا وہ بدل بدل کر بھی قائم رہتی ہے۔ اپیل نہ ہونے کی وجہ سے کھلاڑیوں کی حالت ایسی ہے جیسے عدالت ہو، کیس بھی ہو، ملزم بھی ہو، مگر جج چھٹی پر ہو، اور چپڑاسی فیصلہ سنا دے۔ کھلاڑی مایوس، کوچز پریشان اور قوانین بے معنی۔
اب کچھ سنجیدہ بات، مگر تھوڑے طنز کے ساتھ۔ معلومات آرہی ہیں کہ تیاری کے دوران کھلاڑیوں پر انجیکشنز اور ادویات آزمائی جاتی ہیں۔ یعنی کھلاڑیوں کو اسپیشل پرفارمنس کے بہانے کچھ ایسا پکڑایا جاتا ہے جو ان کے جسم میں دوڑ تو دیتا ہے لیکن بعد میں ٹیسٹ میں پکڑا بھی جاتا ہے۔ اسے ہم کہہ سکتے ہیں کھیل کا تقدس اور صحت دونوں کو ایک ہی شاٹ میں خطرے میں ڈال دینا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس ملک میں لوگ ویکسین لگوانے سے بھی ڈرتے ہیں وہاں کھلاڑی انجیکشن پر بھی اظہار تشکر کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ کوچ صاحب نے کہا ہے "یہ والی چیز لگانے سے ریکارڈ ٹوٹے گا"۔ بس یہ نہیں بتایا جاتا کہ ساتھ کیریئر بھی ٹوٹ سکتا ہے۔
اگلا نقطہ بھی دلچسپ ہے۔ اینٹی ڈوپنگ آرگنائزیشن مستقل چیئرمین کے بغیر۔ یعنی جہاز اڑ رہا ہے مگر پائلٹ نہیں۔ ہوائی جہاز میں اگر کپتان نہ ہو تو اعلان ہوتا ہے کہ "پریشان نہ ہوں، ہم آٹو پائلٹ پر ہیں"۔ یہاں لگتا ہے آٹو پائلٹ پر بھی نہیں، بلکہ جہاز کھلاڑیوں کے کندھوں پر رکھا ہے۔ قائم مقام چیئرمین صاحب اختیارات اور مراعات دونوں پورے لے رہے ہیں۔ واہ۔ یہ ہم پاکستانیوں کی سب سے بڑی صلاحیت ہے کہ قائم مقام چارج سے پورے مستقل فائدے حاصل کر لیتے ہیں۔اب ایک اور دلچسپ موڑ۔ ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کی ہدایات بھی یہاں آ کر موثر نہیں رہیں۔ یعنی دنیا جو مرضی کہے، یہاں کی بیوروکریسی کا اپنا الگ قانون ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ملکی اینٹی ڈوپنگ سسٹم کہہ رہا ہو "آپ عالمی ادارہ ہیں، بہت اچھے۔ ہم مقامی ہیں، ہم سے مت الجھیں"۔
کھلاڑی کہہ رہے ہیں کہ اصل محنت کرنے والوں کے حقوق سلب ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ جب ٹیسٹ لینے والوں کی نیت اور صلاحیت پر سوال ہو تو پھر کھلاڑی کی محنت کا اعتبار کیسے ہو۔ یہاں محنت کرنا بھی خطرناک بن چکا ہے۔ اگر آپ بہت اچھا پرفارم کریں تو شبہ۔ اگر کمزور پرفارم کریں تو ٹیسٹ۔ اگر اوسط رہیں تو شاباش آپ محفوظ۔اب ذرا ایک منظرنامہ تصور کریں۔ کھلاڑی امریکہ سے آیا ہے، پرفارم شاندار، مداح ہزاروں۔ اینٹی ڈوپنگ ٹیم فوراً متحرک۔ دوسرا منظر۔ ایک کھلاڑی تین سال سے فائنل کے لیے کوالیفائی تک نہیں کیا۔ ٹیسٹ؟ رہنے دیں۔ کیونکہ اس کو پکڑ کر کیا ملے گا۔ یعنی یہاں جرم اور شہرت کا عجیب تعلق ہے۔
اگر حکومت، ادارے اور کھیل کے ذمہ دار واقعی کھیلوں کو صاف رکھنا چاہتے ہیں تو صرف پکڑنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ تربیت، رہنمائی، آگاہی، شفاف قانون اور سب سے بڑھ کر غیر جانبدار اپیل نظام ضروری ہے۔ کھلاڑی بھی انسان ہیں روبوٹ نہیں۔ کبھی کبھار ایک انجیکشن کے نام پر لالی پاپ دے کر سارا مستقبل چھین لیا جاتا ہے۔اس تمام صورتحال میں سب سے زیادہ مزاحیہ دکھائی دینے والی بات یہ ہے کہ ملک میں کھیلوں کے میدان کئی جگہ ویران ہیں، فنڈ کم ہیں، کوچز ناراض ہیں، اور ڈوپنگ سسٹم ایک ہیرو کی طرح پورے فریم میں جگہ بنائے بیٹھا ہے۔ جیسے فلم میں ولن کی اسکرین ٹائم ہی زیادہ ہو۔
آخر میں کھلاڑی شکوہ کرتے ہیں کہ اینٹی ڈوپنگ اہلکار نہ نیت سے صاف دکھائی دیتے ہیں نہ تربیت سے۔ تو تین بنیادی سوال۔ اگر ٹیسٹ کا طریقہ مشکوک ہے، اپیل کا راستہ بند ہے اور انصاف کا کوئی عمل نہیں۔ تو پھر کھیل کی شفافیت کہاں ہے؟ اور یہ سب کس لیے؟ کھیلوں کی بہتری کے لیے یا کیریئر کی بربادی کے لیے؟مزاح اپنی جگہ مگر حقیقت تلخ ہے۔ کھلاڑی کسی حکومت، دفتر یا میز کے سامنے نہیں کھیلتے۔ وہ قوم کے لیے کھیلتے ہیں۔ اینٹی ڈوپنگ کا مقصد کھلاڑی کو ڈرانا نہیں بلکہ بچانا ہے۔ تربیت دینا ہے نہ کہ پھانسنا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر سسٹم کو ایسا بنانا ہے جہاں ٹیسٹنگ سزا نہیں بلکہ اعتماد کی علامت ہو۔
اگر یہ نظام درست ہوا تو کھلاڑیوں کا مستقبل روشن ہوگا۔ اور اگر اسی طرح چلتا رہا تو ایک دن آئے گا جب ڈوپنگ سسٹم ہی سب سے بڑی لطیفہ بازی بن کر رہ جائے گا۔ اور پھر کسی طنز نگار کو بیٹھ کر شاید یوں لکھنا پڑے کہ پاکستان میں کھیل کم اور اینٹی ڈوپنگ کا کھیل زیادہ ہوتا ہے۔ کھیل کے میدان میں اصل مقابلہ کھلاڑیوں کے درمیان نہیں، ٹیسٹنگ کے طریقوں اور ٹیسٹ والوں کی ترجیحات کے درمیان ہوتا ہے۔مزاح کے انداز میں چھپی یہ حقیقت ایک گہرا سوال ہے۔ کیا ہم کھیل کو شفاف بنانا چاہتے ہیں یا صرف رپورٹ میں شفافیت دکھانا چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ وقت یا کسی کمیٹی پر نہ چھوڑیں۔ کیونکہ یہاں کمیٹی بنتی کم ہے، ختم زیادہ ہوتی ہے۔ اور کام درمیان میں لٹکا رہتا ہے۔ کھلاڑی انتظار میں۔ اور تماشائی حیران۔
#AntiDopingCrisis #SportsIntegrity #AthletesRights #FairPlayNotFoulPlay #TransparencyInSports #CleanSportsMovement #StopDopingAbuse #ProtectOurAthletes #SportsReformsNow #AccountabilityInSports #musarratullahjan #kikxnowdigitalcreator #kikxnow ھ |