غیر سیاسی باتیں

پچھلے دنوں مجھے گاؤں جانے کا اتفاق ہوا۔ میں ایک یو ٹرن پر گاڑی موڑ رہا تھا کہ میری نظر وہیل چئیر پر بیٹھے ایک مرد پر پڑی ۔ میں پہلی نظر ہی میں اس کو پہچان گیا ۔ وہ اسی طرح سمارٹ اور نوجوان لگ رہا تھا ۔ فرق اس کی عمر کے علاوہ صرف یہ تھا کہ اب وہ اپنے شعبہ میں ترقی کر گیا تھا ، وہیل چئیر پر بیٹھا تھا اور اسکا رنگ گرمی کی وجہ سے تھوڑا جھلسا ہوا تھا ۔

اسے دیکھتے ہی اکتیس سال پہلی یادوں کی ایک پوری ڈاکومنٹری میرے دماغ میں چلنے لگی۔

یہ سال 1987 کی بات ہے میں نے میٹرک کا امتحان پاس کرلیا ہوا تھا اور اس وقت دیہاتی علاقوں میں ڈسکو ، گول باڈی والی ، بسیں چلتی تھیں ۔ جب بھی میں بس پر سفر کرتا تو اکثر اس لڑکے کو دیکھا کرتا تھا۔ اس کی ٹانگیں سوکھی ہوئی تھیں اور وہ بیٹھے بیٹھے ہی اپنے ہاتھوں اور بازووں پر لکڑی کی بنے ہوئے خاص چپووں کی مدد سے چلتا تھا ۔ وہ بڑا ہی چست ، جھٹ پٹ ایک سے دوسری اور تیسری بس میں گھوم کر ،اللہ کے نام پر سوال کرتا ، پیسے اکٹھے کرتا ، ہنسی مزاق کرتا ، ہر وقت حرکت میں ہی دکھائی دیتا تھا۔ اپنے فن کا وہ بڑا ماہر تھا۔ اس کی اچھی اور ہنس مکھ طبیعت کی وجہ سے لوگ اس سے کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ اکثر روزانہ سفر کرنے والوں سے اس کی اچھی خاصی شناسائی بھی تھی۔

ایک دن ایسے ہی سفر کرتے ہوئے ، جب وہ گاڑی پر سوار ہوا تو میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ایک لڑکے نے مجھے اس کے بارے بتایاکہ یہ مانگنے والا لڑکا بہت امیر ہے۔ شائد وہ اس کے گاوں کا تھا۔ اس نے بتایا اس کے پاس بہت پیسے ہیں ، بلکہ اس کی ایک اپنی بس بھی چلتی ہے ۔ اب خدا جانے بات سچ تھی یا گپ ، مگر میں نے یہ بات بعد میں ایک دو اور لوگوں سے بھی سنی تھی۔

اب میرے ذہن میں اس کو دیکھتے ہی وہ ساری فلم چلنی شروع ہوگئی اور میں سوچنے لگا کہ یہ جو اکتیس سال پہلے اتنا امیر تھا ، آج تو یہ اور بھی زیادہ مال و دولت والا ہوگا بلکہ آمدنی کے لحاظ سے ، روز مرہ کی ضروریات میں تو یقیناً خود کفیل بن گیا ہوگا ۔ اب تو اس کو چاہیے کہ مانگنے کی بجائے آرام سے بیٹھ کر آسائش سے بھر پور زندگی گزارے بلکہ اپنی آمدنی میں سے دوسرے محتاجوں اور ضرورت مندوں کی مدد بھی کرے۔

خیر میں جب اس کے قریب گیا تو اس نے میری طرف کچھ ایسی سوالیہ ، پر اعتماد نظروں سے دیکھا ، جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ کار خیر میں حصہ ڈالنا ہے ، مجھ پر کوئی احسان نہیں ، دل کھول کر مدد کرتے جاو ۔ میں اس کی اعتماد بھری نظروں کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا ۔ اس کا اپنا ذہن ، علم اور تجربہ تھا اور یقیناً یہ سب ، اس کے اندر کا اعتماد ، کام سے لگاو ، محنت اور اچھے مقصد کا نتیجہ ہوگا۔ خیر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے پوچھا کہ کیا حال ہے ؟ آپ کی صحت ماشا اللہ اچھی ہے ، اور ترقی بھی کر گئے ہو ، اب وہیل چئیر پر بیٹھے ہو۔

وہ کہنے لگا۔

آجکل جدھر بھی جائیں پکی سڑکیں بنی ہوئی ہیں۔ چونکہ نئی نئی بنی ہیں اس لئے حالت کے اعتبار سے بھی ٹھیک ہیں اس لئے ٹریفک پہلے سے تیز ہوتی ہے اور دوسرا نئی ایجادات سے فائدہ بھی تو اٹھانا چاہیے۔
یہاں موڑوں پر چونکہ گاڑیاں آہستہ ہوتی ہیں اسلئے آسانی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے کہا آپ ابھی بھی یہی کام کرتے ہو؟ کہاں گئی تمھاری گاڑیاں؟
میرے اس ایک سوال میں میرے ذہن میں ابھرنے والے کئی اور سوال چھپے ہوئے تھے ، اور شائد انداز بھی تیکھا ہو ، اور شائد اور لوگ بھی اس سے یہی سوال کرتے ہوں۔

اس کا جواب ، خدا جانے حقیقت پسندانہ تھا یا از راہ مذاق مگر تھا بڑا ہی حکمت بھرا ۔

وہ بڑی ہی بے امتناہی ، اعتماد ، روانی اور بے نیازی کے انداز میں بولا

کہنے لگا گاڑیوں میں تیل ڈالیں تو چلتی ہیں اور دوسرے بھی خرچے ہوتے ہیں ۔ اگر مانگوں گا نہیں تو نظام کیسے چلے گا ، ہم جیسوں سے تو نہ کوئی ادھار کرتا ہے اور نہ کوئی قرض دیتا ہے۔ ہم اس وقت بھی مانگ کر ہی گاڑی چلاتے تھے اور اب بھی۔

لوگ خزانے لوٹ کر کھا گئے ہیں اور ہم اگر مانگ کر اپنی گاڑی چلا رہے ہیں تو اس میں برائی بھی کیا ہے ، نہ کوئی ٹھگی ہے اور نہ کوئی فراڈ ۔

اس کے لہجے میں تھوڑی سختی بھی آگئ تھی اب اس عمر میں میں کروں بھی کیا ، اگر بھیک مانگی ہے تو بھی کسی کی ضروریات ہی پوری ہوئی ہیں۔ اپنی اولاد کا پیٹ ہی پالا ہے ۔

اس کی باتوں نے مجھے لا جواب کردیا تھا۔ وہ ابھی بولتا جارہا تھا لیکن میں نے بلا چوں و چرا اپنی راہ لی۔ اور میں گاڑی چلاتے ہوئے بھی سوچ رہا تھا کہ اس کی باتیں تو ٹھیک ہی تھیں ۔

اس نے پوری زندگی یہی کام کیا تھا اور اس کے پاس جتنی بھی چستی اور پھرتی ہو ، جتنا بھی اچھا منتظم اور کار ساز ہو ، جتنا بھی زیادہ اعتماد اور حوصلہ رکھتا ہو ، جتنی بھی پر اثر آواز اور منکسر مزاج رکھتا ہو ، تجربہ تو اس کے پاس مانگنے کاہی ہے۔ اور وہ احسن طریقے سے یہی کام تو کر سکتا ہے۔

پھر اس کے ماحول میں بھی اس کی ہمت ، صلاحیت اور کارکردگی کی داد دینے والے اور واہ واہ کرنے والے موجود ہونگے۔ اسکی تو وہی دنیا ہے جس میں رہتا ہے ، جہاں پلا بڑھا ، تربیت پائی اور اس کی عزت وتکریم اور مقام کے پیمانے بھی تو اسی دنیا کے ہی ہیں۔

ایک کنوئیں کے مینڈک کی کنوئیں میں رہنے والی مخلوق اور وہاں کا ماحول ہی اس کی دنیا ہے اور سمندر میں رہنے والی مخلوقوں کی وہاں اپنی ایک دنیا ہے۔ جو جس ماحول میں رہتا ہے اسکے وہیں کے زندگی گزارنے کے اپنے پیمانے ہوتے ہیں۔

اور واقعی وہ اس میں اگر جرم کر بھی رہا ہے تو اتنا ہی نہ کہ اپنی اور اپنی نسل کی معاشرے میں تزلیل کروا رہا ہے۔ اس کا رہن سہن دوسروں سے کم تر ہے ۔ میں ذہنی طور پر قائل ہورہا تھا کہ اگر اس نے زندگی میں ایک دو یا تین گاڑیاں بنا ہی لی ہیں تو اس کے پاس اپنی ورکشاپ اور پٹرول پمپ تو نہیں ہے ناں کہ وہ مانگے بغیر اپنی گاڑیوں کا نظام چلا سکے ، اگر وہ اپنے تجربے سے پہلی گاڑیاں چلا رہا ہے یا ایک اور گاڑی بنا لیتا ہے تو خاندان ، علاقہ اور ملک کا تو کوئی نقصان نہیں فائدہ ہی ہے۔

اب اسکو کہاں یہ باتیں سمجھ آنے والی ہیں کہ یہ ساری زندگی مانگ کر نظام یا گاڑیاں چلانا کوئی پائیدار یا دانشمندانہ فیصلہ نہیں ۔ دانشمندانہ اور پائیدار عمل تو یہ ہے کہ میسر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے پہلے والے موجود زرائعے آمدن کو بہتر کیا جائے یا نئے زرائعے پیدا کئے جائیں تاکہ مانگنے والی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکے۔

مشہور چینی کہاوت ہے کہ مچھلیاں پکڑکر دینے سے بہتر ہے مچھلیاں پکڑنا سکھا دیا جائے۔

اس لئے کہتے ہیں کہ کسی کو ساری عمر بٹھا کر کھلانے کے عمل سے بہتر عمل یہ ہے کہ اس کو کوئی ہنر سکھا دیا جائے تاکہ وہ خود اپنے پاوں پر کھڑا ہو جائے اور معاشرے پر بوجھ نہ بنے۔

پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ یہ عجب یا برا بھی تو میری طرح کے لوگوں کو ہی لگتا ہو گا اور یہ ان کی اپنی ایک سوچ ہے ۔ یہ تو سوچ اور ماحول کا اثر ہے ۔

اب اس کی سوچ اور ماحول والوں میں تو وہ بھی ایک نمونہ ہوگا جس نے اپنی گاڑیاں اور نظام چلایا ہوا ہے ۔ اور رہی بات اچھے یا برے کی تو دلائل اور جواز دونوں اطراف میں ہی موجود ہیں۔

پھر مجھے ایک ماضی کا ہی واقعہ یاد آگیا۔
ایک دفعہ میں ایک ڈی سی صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بھکاری ، اچھا خاصہ صحت مند بھیک مانگتا ہوا ادھر آنکلا۔
کمشنر صاحب اپنی علم و دانش اور مذہبی نقطہ نظر کی بنیاد پر اسے سمجھانے لگے کہ آپ صحت مند بھی ہو اور سمجھدار بھی لگ رہے ہو کوئی کام وام کیا کرو اور یہ کام چھوڑدو ۔

وہ یہ کہہ کر چل دیا کہ
ویکھاں وڈا کمشنر ، داہ روپئے دے نہیں سکدا ، گلاں بڑیاں کردا اے۔

اس نے زرا لحاظ نہ کیا ، اس کے نزدیک تو وہ ہی اچھا تھا جو اس کی مدد کر دیتا ، وہ کیا جانے اس کی ذہانت ، فہم وفراست ، عہدہ ، جاہ و جلال یا علم کے اعتبار سے مقام۔

اب دونوں نے بات تو اپنے اپنے لیول کی ہی کرنی تھی ، اور ایک دوسرے کی نظروں میں عزت تکریم بھی سوچ کی بنیاد پر ہی ہونی تھی۔

سمجھ آئی کہ جھگڑا اور کوئی نہیں ۔

بات ساری اپنی اپنی سوچ اور ذہنی سطح کی ہے۔

دانشورانہ لیکچرز یا دلائل سے کسی کو قائل نہیں کیا جا سکتا جب تک اس کی سوچ اور ماحول کو تبدیل نہ کیا جائے۔
 

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 124275 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More