فرشتوں کا دیدار

عامل کی اس میزان کا تصور کیجیے ، جس کے ایک پلڑے میں انتقام، عداوت ، غصہ اور کینہ رکھا جاتا ہے تو دوسرے پلڑے میں دولت رکھ کر اسے برابر کیا جاتا ہے۔

عراق میں وہ کنواں دیکھنے کی خواہش پر گائیڈ ہمیں کنویں تک لے گیا اور ہمیں کنویں کے متولی کے حوالے کر دیا جس نے ہمیں دونوں الٹے لٹکے ہوہے فرشتوں کا دیدار کرانا تھا۔ لیکن انکشاف یہ ہوا کہ ہماری گناہگار آنکھیں فرشتوں کو دیکھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتیں۔مذہبی کتب میں ان دو فرشتوں کا ذکر موجود ہے جو آزمائش کے لیے بھیجے گئے تھے۔ان دو فرشتوں کی کہانی یوں ہے کہ یہ لوگوں پر سحر ، کالا جادو اور عملیات وغیرہ کاعمل کیا کرتے تھے اور اس کام کی تربیت بھی دیا کرتے تھے۔پھر ان سے کوئی ایسی لغزش سرزد ہوئی کہ بعض روائت کے مطابق وہ ستارے کی شکل میں آسمان پر ہیں اور متولی کا اصرار تھا کہ وہ اسی کنویں میں الٹے لٹکے ہوے ہیں اور یہ قیامت تک اسی حالت میں رئہں گے۔ یہ روائت بنی اسرائیل کی ان روایات میں سے ہے جن کو اسلام نے بھی اپنا لیا ۔ما فوق الفطرت چیزیں ، جن ، فرشتے ، سحر اور کہانت انسان کے لیے بڑی دلچسپی کے موضوع رہے ہیں، اور موجودہ دور میں ان چیزوں کے بارے میں یہ تصور مضبوط ہوا ہے کہ ان عملیات سے انسانی فطری خواہشات حسد ، کینہ اور انتقام پوری کی جا سکتی ہیں۔ اس تصور کو پھیلانے میں print media میڈیا کا حصہ ہے اور e.media پر تو ماہرانہ طور پر مخصوص طبفے کو target
کر کے ان تک پیغام پہنچایا جاتا ہے ۔کسی حقیقت پسند نے کہا تھا،
regardless of what you do for a living ,name f the game is money
دولت اور اعتقاد کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔اور اعتقاد کو مستحکم کرنے میں قصے ، حکایات اور سنی سنائی کہانیاں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جنات کی حکایات کا بالائی سرا حضرت سلیمان نبی اللہ کے نام کے ساتھ جوڑ کر اس میں تقدس پیدا کیا جاتا ہے اور سحر وجادو کی اہمیت اس سوال کے ذریعے اجاگر کی جاتی ہے کہ " کیا رسول اللہ پر لبید نامی یہودی نے جادو نہ کیا تھا۔" قرآن پاک میں فرعون مصر اور حضرت موسی نبی اللہ کے قصے میں ہے کہ "جادو گروں کے جادو سے انہیں خیال ہوتا ہے۔کہ وہ دوڑ رہے ہیں "۔ (طہ ۔66 ) لفظ خیال غور طلب ہے۔ اعتقاد کے ساتھ جڑی دولت کا اندازہ لگانے کے لیے عامل کی اس میزان کا تصور کیجیے ، جس کے ایک پلڑے میں انتقام، عداوت ، غصہ اور کینہ رکھا جاتا ہے تو دوسرے پلڑے میں دولت رکھ کر اسے برابر کیا جاتا ہے۔ جاہلیت کا یہ کھیل طویل مدت سے جاری ہے۔ اور کھلاڑی بار بار المیوں کو جنم دیتے ہیں۔ان حالات کی حوصلہ شکنی کی بجائے ، اب تفریح کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔جب کوئی منفی عمل فلاش پوائنث بن جاتا ہےتو معاشرہ منفی انداڑ میں اثر انداڑ ہوتا ہے۔پاکستان چونکہ مخصوص طبقات کے لیے آڑاد تر ملک ہے ، اس لیے حفظ ما تقدم کے طور پر مشورہ یہی ہے کہ اپنے خاندان اور خاص طور پر نوجوانوں کو ٹی وی کے ابسے پروگرامز سے دور رکھیں ورنہ منفی اثرات آپ کے گھر کا رخ اختیار کرنے میں ڑیادہ دیر نہیں لگائیں گے ۔جن کی دسترس میں ہے انھیں عاملوں کے اشتہارات دیواروں پر لکھنے ، اخبار و رسائل میں چھاپنے پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ اور میڈیا میں ان حوصلہ شکنی کریں۔ کہ اصلاح کا عمل تمام خیر و بھلائی کی جڑ ہے۔
 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 149074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.