اُمت مسلمہ کو درپیش علمی، فکری اور نظریاتی چیلنجز

آج عالم اسلام کی تمام مملکتیں ابتر حالات سے گزر رہی ہیں اور اُمتِ مسلمہ کی زبوں حالی ترقی یافتہ دُنیا کا سب سے مرغوب عنوان ہے جبکہ ہر مملکت کا مقدر پتلی تماشے میں ناچنے والی کسی پتلی سے زیادہ نہیں رکھتا۔ مصر، بحرین ، کویت، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب، برونائی ،ترکی، سوڈان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، ازبکستان، تاجکستان، قازقستان، افغانستان اور پاکستان تک مقتدر حکمرانوں کے اقدامات اور ان کے طور طریقے ملاحظہ فرما لیجئے۔

آج حالت کا بہ نظر عمیق مطالعہ کریں تو ہمیں اقبال کی وہ پیشین گوئی یاد آئے گی جس میں اُنہوں نے باطل قوتوں کے عزائم اور پنجاب کی سر زمین سے متعلق کی کہ’’ مسلمانوں کو اپنے تحفظ کے لیے جو لڑائیاں لڑنی پڑیں گی ان کا میدان پنجاب ہو گا۔ پنجابیوں کو اس میں بڑی بڑی دقعتیں پیش آئیں گی کیونکہ اسلامی زمانے میں یہاں کے مسلمانوں کی مناسب تربیت نہیں کی گئی مگر اس کا کیا علاج کہ آئندہ رزمگاہ یہی سرزمیں معلوم ہوتی ہے (اقبال 1936ء)

یہی نہیں اقبال نے موجودہ حالات و واقعات کی طرف پہلے بھی اپنے مشاہدات کی روشنی میں کہہ دیا تھا کہ اسلام پر ایک بہت بڑا نازک وقت برصغیر میں آرہا ہے۔ سیاسی حقوق اور ملی تمدن تو ایک طرف خود اسلام کی ہستی ہی معرض خطر میں ہے ۔(منشی محمد صالح کے نام خط)

اقبال کے حقیقت پر مبنی خدشات کے پیش نظر آج مسلمانانِ عالم مصائب و آلام کی نہ ختم ہونے والی رات شروع ہے، میری روح اس رات کے اندھیروں کے تصور سے کانپ اٹھتی ہے، یہ یہود و ہنود اور صلیبی ہمیں مستقبل کے امن اور خوشحالی کی ضمانت دے کر دھوکا دیتے رہے اور دے رہے ہیں کہ ہم امن ِ عالم کے داعی ہیں۔ یہ دراصل اس عفریت کے چہرے کا حسین نقاب ہے جس کے خون آشام ہاتھ اُمت مسلمہ کی شہ رگ تک پہنچ چکے ہیں۔۔۔۔ بھیڑ بکریوں کی سر پرستی میں رہنے سے مر جانا بہتر ہے ۔ یہ ذلت و گمراہی ہے جس میں ہم سب دھنستے چلے جا رہے ہیں۔لا الہ کلمہ کی صدا بلند کرنے والی اُمت آج جی حضور ، حکم میرے آقا او ڈو مور کے آگے Ok Sir,جیسے الفاط میں ممیانے اور کانپتے جسم کے ساتھ غلامی کی انتہاؤوں کو چھورہی ہے۔

گذشتہ دہائی میں باطل قوتوں کی سفاکی کہ جس سے پوری انسانیت کانپ جاتی ہے ان ظلمت کدوں کی ظالمانہ کاروائیوں سے اُن کے اپنے پکار پکار کر کہتے آر ہے ہیں کہ یہ ظلم و ستم بند کرو۔ جس کی مثال عراق پر بمباری ، صدر صدام حسین کے خلاف ظلم و بربریت اور 12لاکھ انسانوں کو لقمہ اجل بنانا ہے جس پر بین الااقوامی اداروں کی رپورٹیں گواہ ہیں جن میں عراق پر بمباری کو غیر منصفانہ اور غیر انسانی سلوک لکھا اور کہا گیا ۔ افغانستان میں تو را بورا اور ابو غریب جیل کے انسانیت سوز مظالم اور کنٹینروں میں انسانوں کو بھر کر بند کر کے مارنا کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ، جہاں انسانیت بے بسی کے عالم میں چیختی چلاتی رہی اس کے باوجود کسی کے جسم پر جوں تک نہ رینگی۔مگر دنیا میں امن قائم کرنے کے جھوٹے دعویدار ٹس سے مس نہ ہوئے ، اور آج تک معصوم انسانیت پر آگ برسا رہے ہیں۔ ان مجبور اور مقہور انسانوں کو سہارا دینے والا کوئی نہیں، یہ مردہ دل اور مردہ ضمیر اور اتحاد و اتفاق سے عاری مسلمان کر بھی کیا سکتے ہیں۔آج مسلمانوں کے جعلی راہبر اور رہنما مسلمانوں کو گروہوں میں بانٹ کر اپنی اپنی غلامی میں مقید کیے ہوئے طرح طرح کی بولیاں بول رہے ہیں، اُنہیں کوئی فکر نہیں کہ اُمت ِ مسلمہ میں سے احساسِ زیاں کہاں تک پا یا جاتا ہے؟

اے کاش ہمارا انفرادی و اجتماعی ضمیر پھرسے انگڑائی لے اور پھر ہم اپنی ذلت و رسوائی کو ہمیشہ ختم کر دینے کے لیے اُسی جذبہ یزداں سے سر شار ہو کر دشمنان ِ ملت ِ اسلامیہ سے نبرد آزما ہو جائیں کہ پھر سے عظمتِ رفتہ کی یاد تازہ ہو جائے ، اور وہ مقام حاصل کر سکیں کہ جو قسام ِازل نے ہمارے لیے اس مثردہ کامیابی کے ساتھ مقدر کے ساتھ مقدر کیا تھا جیسا کہ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :۔
’’ولاتھنواولاتحزنووانتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘
ترجمہ۔ا’’ اور ہمت نہ ہارو اور نہ کچھ غم کرو اگر تم مومن رہے تو تمہی غالب و سرفراز ہوگے۔(القرآن)

تاریخ شاہد ہے کہ اﷲ رب العزت اپنے فضل و کرم سے جو مملکت پاکستان معرض وجود میں لے آیا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اسے واحد اسلامی ایٹمی قوت بنا ڈالا وہ ذات ہر چیز پر قادر ہے ۔مجموعی طور پر مسلمانانِ عالم کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ جس ذات نے عرب کے بادیہء پیماؤں کو تاریکیوں اور قعرمذلت سے نکال کر نورِ ہدایت کی راہ بخش روشنی میں ایک طرف افریقہ کے صحراؤں کی آخری حدوں اور مغرب میں سسلی اور سپین اور بحرِاو قیانوس کے ساتھ ساحلوں تک اور دوسری طرف مشرق بعید میں انڈونیشیا،یورینو، فلپائن اور بحرالکاہل کے کناروں تک نصف سے زائد دنیا کو اُن کے لیے مسخر کر دیا آج وہی ذات رب تعالیٰ ہمیں دعوت ِمبارزت دے رہی ہے ۔ اقبال نے اس امت کو جگاتے ہوئے تبھی تو فرمایا تھا:۔
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خُدائی
دو نیم اُن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی

مسلمان بظاہر مسکین مگر قوتِ ایمانی سے ثمر مند ہوتا ہے۔سابق دور سے مسلم کا خون ارزاں ہو ا پستی کی انتہاؤں میں دھکیلنے کا ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ سب سے پہلے پاکستان اور سب سے آخر میں مسلمان کا نعرہ لگایا گیا۔’’ نہندِ نامی زنگی کا فور‘‘ کے مصداق جدت پسندی ، روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا وہ نام نہاد دور شروع کر کے مسلمانانِ عالم کو مصائب و آلام کی نہ ختم ہونے والی رات کی نذر کر دیا گیا۔ بعض مذہبی جماعتوں کے جذبات اور احساسات و احتجاج سے نمودِ صبح کے آثار نظر آنے لگے مگر اُنہیں بھی ندامت اُٹھاناپڑی اور یوں سحر کو دوبارہ اندھیر ی رات میں بدلنے کے لیے عالمی استعماری و ملک دشمن قوتیں برسرِپیکار ہوگئیں بیگانے تو بیگانے اپنوں نے بھی جلوس نکال نکال کر اُمت ِمسلمہ کا جلوس نکال دیا۔مضبوط و بنیاد پرست مسلمانوں سے اتفاق و اتحاد کے طعنے دینے کے ساتھ ساتھ یہود و نصاریٰ اور ہنود کو دلائل اور ثبوت مہیا کرنے کی قبیح حرکات سے بھی باز نہ آئے ، اور یوں ملت اسلامیہ کو پستی میں دھکیل دینے کی خاطر اپنے ایمان کو بھی داؤ پر لگا دیا نام نہاد مذہبی اجارہ داروں نے اپنی دنیا تو خراب کر ہی لی تھی مگر عاقبت نااندیش کیا جانیں کہ انکا یہ واویلا باطل قوتوں کو کیا کیا جواز مہیا کر رہا ہے۔ ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ کے مصداق ان نا خداؤں کا قیامت کے دن کیا بنے گا۔ جب آواز آئے گی۔’’ وامتاز الیوم یھاالمجرمون‘‘ ۔ یہ تو حق بات ہے کہ جب کبھی بھی کوئی معاشرتی بگاڑ کا شکار ہوتا ہے تو اس کا سبب اسی معاشرے کا کوئی نہ کوئی فرد ہوتا ہے ۔ وہ معاشرہ وہ خطہ اور وہ ملک ختم ہو جاتا ہے جہاں صاحبِ ادراک لوگوں کا قحط پڑ جائے ۔ اقبال نے معاشرہ کی نبض پر ہاتھ رکھ کر جائزہ لیا اور قوم کو تنبیہ کی۔ قحط الرجال ہو یا اتحاد و یگانگت کی کمی معاشرہ ملک و ملت کے لیے زہر حلاحل کی حیثیت رکھتا ہے۔

ذرا غور کیجئے کہ من حیث القوم ہمارے حلیے ، ہمارا انفرادی و اجتماعی کر دار ، ہمارا ذوق عبادت، ہماری بودوباش کے طور طریقے، تہذیب و تمدن کے حوالے ، تعلیم و تربیت کے ضابطے ،رہن سہن کا ماحول، افکارونظریات کے پیمانے ، لین دین کے معاملات ، محرکات ومنکرات کے بارے میں حلال و حرام کے تصورات ، نظام حکومت کے اصول و قواعد ، معاش و معاد کے فلسفے غرض زندگی کا وہ کونسا شعبہ ہے جو مسلمانیت کا پر تو اور دین ِ اسلام کی عطا کر دہ الہامی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے ؟ عارضی و فانی زندگی کے ازل سے طے شدہ وہ ضابطے جو بطور قانون ہر مسلمان پر لاگو ہوتے ہیں اور جنہیں وحی مبین کے ذریعہ نجات و فلاح کا آخری راستہ قرار دیا گیا ہے اور مسلمان کے لیے قرآن ہی سب سے بڑا آئین اور قانون ہے۔ بساط ارض پر تخت کی ضمانت جن پر عمل پیرا ہونے سے مشروط کر دی گئی ہے ۔ اگر وہ اثاثہ حیات محض دو وقت کی روٹی کے حصول ، مادی آسودگی کی بے جا طلب رسوم ورواج اور تہذیب کفر کی چاہت میں بے قدری سے گنوا دیا جائے تو پھر جس کا سب کچھ ہے جو رزق سے لے کر اقتدار تک عطا کرتاہے ، پیدائش سے لے کر موت تک قادرِ مطلق ہے ، سانسوں کی ڈور جس کے حکم سے جڑتی اور ٹوٹتی ہے ۔ جس کے حکم سے کھیتیاں شاداب ہوتی ، لہلہاتی اور اجناس سے لد جاتی ہیں اور جس کے حکم سے ہی قحط اور زلزلے آتے ہیں۔

اے کاش ! دیکھا جا سکتا ، سنا جا سکتا اور قرآن مبین کے اس پیغام کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا جا سکتا کہ یہود و نصاریٰ ہر گز ہر گز تمہارے دوست نہیں ہیں۔ ان کی پیروی نہ کرو کہ تمہیں ہدایت کے جادہ مستقیم سے ہٹا کر کفر و معصیت کے جہنم زار میں کھڑا نہ کر دیں مگر افسوس صد افسوس اُمت ِ مسلمہ کم وبیش قرآن ہی کی بیان کردہ اس تمثیل کا عملی نمونہ بن چکی ہے۔
(جاری ہے)
 

Ch Ghulam Ghaus
About the Author: Ch Ghulam Ghaus Read More Articles by Ch Ghulam Ghaus: 11 Articles with 8436 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.