وہ ننھی پری اٹکھیلیاں کرتی ہوئی گھر سے نکلی تھی
۔۔۔۔۔، چھوٹی سی ریڈ رائڈنگ ہڈ ۔۔۔۔!!اسے کیاخبر تھی کہ بھیڑیے ایک اذیت
ناک موت لئے اس کے منتظر ہیں ۔۔
کیا جانتی تھی کہ یہ معاشرہ لٹیروں کا ایسا جنگل ہے جس میں وہ بری طرح نوچ
لی جائے گی۔ اور وہ اس سلوک میں اکیلی تو نہ تھی۔
اس سے پہلے اس کی اوربھی کئی ہم سن ان درندوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں
،وہ تو بس اس وحشت ناک سیریز کی نئی قسط تھی ۔درندگی کی داستان کا اگلاورق۔۔
ننھی زینب کی موت نے ملک بھر کو ہلاکر رکھ دیا ہے ،یہ نہیں کہ یہ کوئی
پہلاواقعہ تھا مگر زینب کی کوڑے میں پڑی ہوئی لاش معاشرے کے ضمیر کو
جھنجوڑنے کے لئے ایک تازیانہ بن گئی ۔۔۔۔ ہرکسی کو وہ اپنی بیٹی لگی جس کے
ساتھ یہ انسانیت سوز سلوک ہوا۔
میڈیا پر تشہیر کے نتیجے میں ان جرائم کی طرف توجہ مبذول تو ہوئی مگر
مجرموں کو سزائیں نہ ملیں ،میڈیا کاعمومی رویہ بھی سنسنی خیزی اورریٹنگ
بڑھانے والا رہا۔اس سے الٹا ایسے جرائم میں بے پناہ اضافہ ہواہے،صرف جرم کی
تشہیر سے جرم ہمیشہ بڑھتا ہی ہے ،اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ بچے بچیوں کے
ساتھ برے سلوک کی تفصیلات میڈیاپر دکھائے جانے کے بعد تواترسے کئی شہروں
میں ویسے ہی جرائم دہرائے گئے ہیں ،ابھی چند دن قبل ہی لودھراں میں ایک
اورمعصوم کلی عاصمہ کو بھی جنسی درندگی کے بعد قتل کر دیا گیا ،اس کی وجہ
یہی ہے کہ میڈیا چیخم دھاڑکرکے جرائم کی تشہیر کرتا ہے ،اوراوباشوں کو نت
نئے طریقے معلوم ہوتے ہیں جرم کرنے کے۔اگر یہی زورجرم کی تشہیر کی بجائے اس
کی عبرتناک سزا ؤں کی تشہیر پرصرف کیا جاتا تو جرائم میں خاطرخواہ کمی
دیکھنے میں آتی۔آج سے چالیس برس قبل پپوکے قاتلوں کو سرعام سزائے موت دی
گئی تھی ۔اخبارات میں اس کی جھولتی ہوئی لاش کی بڑی بڑی تصاویر شائع ہوئی
تھیں ،ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ برسوں بعد تک کسی کو یہ جراء ت نہیں ہوئی
تھی کہ کسی بچے کو بری نیت سے اغواکرے ، مجھے یاد ہے غالباََ انیس صدپچاسی
یا چھیاسی کی بات ہے جب میں سنٹرل ماڈل سکول میانوالی میں چھٹی ساتویں کا
طالبعلم تھاتو ان دنوں ایک قاتل کو میانوالی سٹیڈیم میں سرعام سزائے موت دی
گئی تھی،اورڈاکٹر حاکم خان صاحب بتاتے ہیں کہ اس کی سرعام پھانسی کے کئی
ماہ بعد تک میانوالی میں قتل نہیں ہواتھا۔دین اسلام بھی سزا اسی لئے دیتا
ہے کہ جب ایک بندے نے انتہائی قدم اٹھاکر کسی کو قتل کیا یا کسی سے جنسی
درندگی کی ہے تو پھر اس کی سزابھی انتہائی عبرت ناک ہونا چاہئے ،تاکہ دوسرے
اس جرم سے باز رہیں ،اسی لئے اسلام سزائیں سرعام دیتا ہے تاکہ لوگ دیکھیں
اورمجرمانہ ذہن رکھنے والے عبرت پکڑیں اورجرم کا قلع قمع ہوجائے ۔اگر زینب
یا عاصمہ یادیگر معصوم بچے بچیوں کے ساتھ جنسی درندگی کرکے قتل کرنے والوں
کو عبرتناک سزا سرعام دی جائے تو یقین ہے کہ پورے پاکستان سے اس جرم کا
خاتمہ ہوجائے گا۔
یہ جو شہروں شہروں ،سڑکوں پر لوگوں کا ہجوم نعرے لگا رہاہے ،اس کا مطالبہ
ایک ہی ہے ،۔۔۔درندوں کی گرفتاری اورعبرتناک سزا۔۔۔۔سرعام سزائے موت۔۔۔ اس
گھناؤنے جرم سے بچاؤ کے بے شک کتنے ہی حل پیش کردیئے جائیں ،وہ مجرم کی سزا
کا بدل نہیں ہوسکتے ۔
افسوس کہ ہم مسلمان ہیں مگر مغرب سے ڈرتے ہیں ۔اہل مغرب تو خود اپنے ہاں
جنسی تعلیم اورقانون کی حکمرانی کے باوجودایسے واقعات کو نہیں روک سکے ۔وہاں
ہرآٹھ منٹ میں ایک بچہ اس درندگی کا شکارہوجاتاہے ۔ایسے جرائم صرف اورصرف
اسلامی سزاؤں پرعمل درآمد سے رک سکتے ہیں ،گھناؤنے اورسنگین جرائم کے
مجرموں کوسخت شرعی سزائیں دی جائیں تو دوبارہ کسی کواس جرم کی مجال نہ
ہوگی۔دفتری ریکارڈ کے مطابق صرف قصورمیں ایسے واقعات کے ایک سوآٹھ کیسزہیں
،ایک بھی کیس پرعبرتناک سزاسرعام دی گئی ہوتی تو کئی معصوم بچے بچیاں اس
درندگی اورقتل سے بچ جاتے ۔کتنی ہی ماؤں کی گوداجڑنے سے بچ جاتی ۔تین سال
پہلے تین سوبچوں کااستحصال کرنے والے گروہ کاانکشاف ہوا۔یہ ملکی تاریخ کا
سب سے بڑا جنسی سکینڈل تھا ،مگرمجرم پس زنداں رہ کر بھی مظلوموں کو
دھمکارہے ہیں ،افسوس کہ ہم پوری طرح وہ معاشرہ بن چکے ہیں جس کے بارے میں
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے سخت الفاظ میں ہمیں متنبہ کیا تھا کہ :
" تم سے پہلے کی قومیں اس لئے ہلاک ہوئیں کہ جب کوئی بااثرفردجرم کرتا تو
اس کو چھوڑدیا جاتااورکمزورکو اس کے جرم پر سزادی جاتی ۔خداکی قسم اگر
فاطمہ بنت محمد (ﷺ) بھی چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جاتا"
(بخاری،مسلم)
بلکہ شایدہم اس سے بھی بدترہوچکے ہیں کہ کم
زورکو دبانے اورخاموش رکھنے کے لئے الٹا اسی پر مقدمات بنادئیے جاتے ہیں
اورتھانوں میں بے قصورگھسیٹا جاتاہے تاکہ وہ اپنی زبان بند رکھے۔اگر اس
معاشرے میں خداکاخوفرکھنے والے افراداورادارے اپنااپنا کردارادانہیں کریں
گے توہمیں اﷲ کے غضب کا شکارہونے سے کون روکے گا۔؟ اوراب آتے ہیں دوسرے
عوامل کی طرف جو ہمیں قدم بہ قدم زوال کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔چند سوال ہیں
جو ہمارے معاشرے کی تصویرکی عکاسی کرتے ہیں ۔
والدین تربیت سے غافل کیوں ہیں ؟ منبرومحراب کی ذمہ داریاں کہاں گئیں ؟
اخلاق وکردارڈھالنے والے اساتذہ کا کردارکہاں چلاگیا ؟
عام ماحول میں نگاہوں کی شرم کیوں مرگئی ؟ عریاں فلموں اوربے حیائی پرمبنی
ڈراموں کوگھرگھر میں دیکھنا معیوب کیوں نہیں رہا ؟
گھروں میں بزرگوں نے اپنا کردارادا کرنا کیوں چھوڑ دیا ؟ ایک اسلامی ملک
میں بلیوفلموں کے اڈے کیوں چل رہے ہیں ؟
مسلمان ہونے کے باوجودبھارتی ثقافت کی عریانیت ہمیں کیوں پسند ہے ؟
ہمیں غلط اورصحیح ،جائز اورناجائز کی تمیزکیوں نہیں رہی ؟
آئیے اپنے بچوں کی حفاظت کاآغازاپنے گھر سے کریں!بچوں میں شروع سے ہی اپنے
جسم کی حرمت کا شعوربیدارکریں ۔حیاداری اورلباس کے معاملے میں دینی احکام
واضح طورپراورلازمی بتائیں ، ان کے ساتھ بات چیت کریں ،ان کے ساتھ وقت
گزاریں ،ملازموں کے حوالے نہ کریں ،خصوصاََ ماؤں کو چوکنا رہنے کی اشد
ضرورت ہے ،کیونکہ بچے کاماں کے ساتھ بے حد قریبی تعلق ہوتا ہے ، ماں بچے کی
کیفیات کو زیادہ بہتر سمجھ سکتی ہے ۔
اساتذہ کرام طلبہ وطالبات کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت بھی
کریں ،اپنے ماں باپ سے زیادہ وقت اساتذہ کرام کے ساتھ گزارتے اوران پر
اعتمادکرتے ہیں ،اس وقت اورتعلق کوان کے اخلاق وکرداربہتربنانے اورصحیح
وغلط کی تمیزدینے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں ۔
علمائے کرام اورمساجد کے خطیب حضرات اپنی تقاریر میں شرم وحیا اوررشتوں کی
حرمت کاتصوراجاگر کریں ،معاشرے میں خواتین کے احترام کو رواج دیں ۔
میڈیا پر بے حیائی اورفحاشی وعریانی کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے ،ایسے
چینلز،شوزاورمیزبانوں (اینکرپرسنز)پرپابندی لگادی جائے جو کم لباسی،فحاشی
،عریانی اوربچوں کارقص دکھاکراپنی ریٹنگ بڑھانے کی کوشش کرتے ہوں ،اسی
حوالے سے تمام چینلز پر دکھائے جانے والے تمام انڈین پروگراموں اورفلموں پر
مکمل اورفوری پابندی لگائی جائے ۔ایسے اشتہارات جن سے جنسی ہیجان میں اضافہ
ہوتا ہو،(اکثر اشتہارات میں رقص وسرود اوربے حیائی کے مناظر عام ہیں) فحش
فلمیں دکھانے کے اڈے ملک بھر میں موجودہیں ،ان کے خاتمے کے لئے موثراقدامات
کئے جائیں ۔
انٹرنیٹ پر دستیاب پورنوگرافی کی ویب سائٹس بندکرنے کے لئے ٹھوس اقدامات
کئے جائیں ۔
اس ضمن میں یہ یادرکھیں کہ ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت خود کرنا ہے ، جان
رکھیں کہ ہمارے بچے ان شیطانوں سے اس وقت تک محفوظ نہیں ہیں جب تک بچوں میں
جرائم کرنے والے مافیا ہمارے ملک کے طول وعرض میں سرگرم ہیں ۔جن کے ڈانڈے
بین الاقوامی جرائم پیشہ نیٹ ورکس سے جا کر ملتے ہیں ،ا ن کا مقابلہ ہمیں
ہرسطح پرکرنا ہوگا۔جس کے لئے قانون کی طاقت استعمال کی جائے،اخلاق وکردارکی
تعمیر اورتعلیم وتربیت کے لئے ہرذمہ داراپنا کرداراداکرے ۔اوراس کے ساتھ
ساتھ معاشرے کے ماحول کو پاکیزہ بنانے کے لئے آگاہی پروگرمات کا سلسلہ شروع
کیا جائے۔ |