"بابامجھے فوراً پانچ ہزارروپے چاہئیں،میں آج سکھر جاؤں
جا رہا ہوں۔سلمان تحمکانہ انداز میں اپنے والد کو مخاطب کرتے ہوئے گویا ہوا،
میرے دوست علی زمان کی شادی ہے کپڑے لوں گا اور کرایہ بھاڑہ کرنا ہے۔یہ سن
کر رحیم چاچا (اس کے باپ) نے کہا کہ بیٹا اتنی بڑی رقم تو میرے پاس نہیں
ہے۔تمھیں پتہ تو ہے تمھارا لاغر اور ضعیف باپ گورکن کا کام کرکے لوگوں کی
قبریں کھود کر روز کے جو پیسے لاتا ہے اس سے گھر کا خرچ چلتا ہے۔سلمان کا
باپ ایک قبرستان میں کھدائی کا کام کرتا تھاان کا بیٹا سلمان ماں کے لاڈ
پیار کی وجہ سے اس قدر عیاش اور بگڑ گیا تھا۔ اس کی ماں کی وفات کے بعد اس
کے باپ نے سنبھالنا چاہا تو مزید بگڑتا گیا۔گلے محلے کے لڑکوں کے ساتھ
بیٹھنا،بھتہ خوری،چوری چکاری اور محلے کی لڑکیوں کو چھیڑنا روز کا معمول بن
گیا تھا یہا ں تک کہ اب وہ نشہ بھی کرنے لگا تھا۔اسے اپنی بہن تک کی پرواہ
نہیں تھی کہ وہ جوان ہو رہی ہے اور اس کے لئے اچھے گھرانے کا لڑکا دیکھے
اور محنت مزدوری کرکے اس کی شادی کے لئے رقم اکھٹی کرے۔
باپ (رحیم چاچا) اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہاتھا وہ دمہ اور شوگر کا
مریض بوڑھا صبح کو نکل جاتا اور شام سورج کے ڈھلنے پر قدموں کو گھر کی سمت
گھسیٹتا۔رحیم بابا کی بیٹی اور سلمان کی بہن نور فاطمہ غریبی کی چادر میں
ڈھکی حیاء کی پیکر وہ لڑکی محلے والوں کی سلائی کڑھائی کر کے اپنے باپ کا
خانہ داری میں ہاتھ بٹاتی۔ اور کچھ پیسے بچاکر رکھتی کہ شادی میں کام آئیں
گے۔اس نے چاہا کیوں نہ ان پیسوں میں سے کچھ پیسے سلمان کو دے دے۔بیچارہ
دوست کی شادی میں جارہا ہے اسے ضرورت پڑ ے گی تقریبا ً 15ہزار روپے کی رقم
اس کی کئی مہینوں کی محنت کی کمائی بھائی باپ کو بتائے بغیر چھپا کر جمع کی
تھی۔لہذا پیسے نکالنے کے لئے صندوق کی جانب بڑھی ابھی وہ صندوق کا تالا
کھول ہی رہی تھی کہ باہر دروازے پر دستک ہوئی۔نور فاطمہ نے اندر سے کہا کون؟
آواز آئی پولیس!پولیس کا نام سن کر چونک گئی جلدی میں دروازہ کھول
دیا۔پولیس والے اندر داخل ہوئے اور کہا!کہاں ہے تمھارا ڈکیت بھائی۔
نور فاطمہ یہ سُن کر کہتی ہے کیوں کیا ہوا صاحب؟اس کے خلاف چوری کا اور
لڑکیوں کو چھیڑنے کا مقدمہ درج کرایا گیا ہے ۔تمھارے ایک پڑوسی نے شکایت
درج کرائی ہے کہ وہ ان کی لڑکی کو کالج جاتے ہوئے چھیڑتا ہے اور گلی محلے
کے لڑکوں کے ساتھ مل کر اس کا تعاقب کرتا ہے۔اب اس کے خلاف ایف آئی آر ہی
ہوگی تم جیل میں ہی ملنا اب اپنے لاڈلے بھائی کو، یہ کہہ کر صوبے دار نے
کہا بتاؤ کہا ں ہے تمھارا بھائی؟ اتنے میں سلمان باہر سے جیسے ہی اندر داخل
ہوا پولیس والوں نے اس پر ایسے جھپٹا مارا جیسے بلی چوہے پر،شکاری ہرن اور
کبوتر پر مارتی ہے اور سلمان کو مارتے ہوئے پکڑ کر لے گئے۔کسی نے رحیم چاچا
کو قبرستان میں جاکر سلمان کی گرفتاری کی اطلاع دی تو وہ بوڑھا باپ بیچارہ
ایک قبر کی کھدائی میں لگا تھا وہ چھوڑ چھاڑ کر ابھی جانے ہی لگا تھا کہ
انہیں سلمان کے ایک دوسرے دوست نے بتایا کہ سلمان کے خلاف ایف آئی آر کٹ
چکی ہے اور اسے اب جیل ہو جائے گی۔اس پر چوری اور لڑکیوں کو حراساں کرنے کا
مقدمہ لگا ہے۔لاغر اور غموں سے چور محنت کش ضعیف کو یہ سن کر دھچکا لگا اور
بے ہوش ہوگیا۔رحیم بابا کو اسپتال لے جایا گیا اور ساتھ ہی بیٹی کو بھی خبر
کردی گئی۔ ایک طرف اس کا بھائی جیل میں جانے کے لئے لے جایا جارہاتھا تو
دوسری طرف باپ اسپتال میں پڑا تھا۔وہ روتی ہوئی اسپتال پہنچی اور ڈاکٹر سے
اپنے بابا کی طبیعت کا پوچھا۔ڈاکٹر نے کہا!بی بی تمھارے ابو کو دل کا دورہ
پڑا ہے وہ آئی سی یو میں ہیں ان کے علاج کے لئے رقم جمع کراؤ،تو نور فاطمہ
نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ علاج شروع کریں میں پیسے لے کر آتی ہوں وہ بھاگی
بھاگی اسپتال سے نکلی بس میں بیٹھی اور گھر کی جانب روانہ ہوئی ابھی گھر کا
دروازہ کھولنے کے لئے چابی پرس سے نکال ہی رہی تھی کہ گھر کا داخلی دروازہ
کھلا پایا۔وہ اندر داخل ہوئی اور جو منظر دیکھا اس کی روح جیسے پرواز کرگئی
ہو وہ سکتہ میں آگئی اس نے مہینوں و سالوں محنت کرکے جو پیسے جمع کئے تھے
وہ چوری ہوچکے تھے۔کافی دیر تک اس پر سکتہ طاری رہا اس لڑ کی کی سمجھ میں
نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے؟بامشکل اس نے اپنے ڈھیلے،بے جان اور لرزتے جسم کو
سنبھالااور سوچا پڑوسیوں سے مدد طلب کروں شاید کوئی مدد کردے۔
اس نے برابر والی آنٹی کے دروازے پر دستک دی باجی ہمارے گھر چوری ہوگئی ہے۔
آپ کو کچھ علم ہے کہ کون داخل ہوا ہمارے گھر میں،بس یہ سننا تھا کہ وہ عورت
جسے انگاروں سے اٹھ کر آئی اور کہنے لگی۔ہمیں کیا پتہ تمھارے گھر کون
آیا؟کون گیا؟تمھارا بھائی تو خود چور ہے،کہیں وہی تو چُرا کر نہیں لے گیا
یہ سُن کر نور فاطمہ بولی نہیں نہیں باجی میرا بھائی تھانے میں ہے اور اس
پر چوری کا الزام ہے۔ارے کتنی بے شرم لڑکی ہو تم سارا محلہ جانتا ہے کہ
تمھارا بھائی چوری کرتا ہے۔بھتہ خوری،لڑکیوں کو چھیڑنا یہ سب مشغلے ہیں اس
کے جاؤ یہاں سے آج کے بعد قدم مت رکھنا میری دہلیز پر۔آئیں بڑی کہ پیسے دے
دو۔
وہ لڑکی روتی ہوئی وہاں سے چلی اور کونے پر بنی قاسم بھائی کی کریانے کی
دکان پر رک گئی اور قاسم بھائی سے کہا کہ:
قاسم بھائی ابا کو دل کا دورہ پڑا ہے آپ میری کچھ مدد کر دیں قاسم بھائی نے
یہ سن کر کہا فاطمہ مجھے پتہ ہے مگرآج کل میرا کاروبار بھی صحیح نہیں چل
رہا اوپر سے تم لوگوں پرمیرے راشن کے پیسے بھی ادھار ہیں۔یہ سُن کر وہ اچھا
چاچا کہتی ہوئی وہاں سے چل دی اور مایوسی کے عالم میں سوچوں میں غُم جارہی
تھی کہ اب کیا کرے گی باپ اسپتال میں ہے اور بھائی جیل منتقل کردیا گیا
ہوگا؟وہ ان ہی خیالوں میں غرق تھی اور راستہ اسپتال سے چند قدم کا رہ گیا
تھا کہ اس کے ماموں زاد بھائی نے اسے بتایا کہ چاچا رحیم اب اس دنیا میں
نہیں رہے۔یہ سننا تھاکہ وہ لڑکی بدحواس اسپتال کی جانب بھاگی اور مسلسل
بولتی جارہی تھی کہ ابا نہیں مر سکتے،وہ میرے جینے کا سہارا ہیں،انہیں میری
اور سلمان بھائی کی شادی دیکھنی ہے یہ دہراتی ہوئی جب آئی سی یو میں داخل
ہوئی تو اس کے بابا کا لاشہ پڑا دیکھا۔
وہ ضعیف اور مصائب کا مارا بوڑھا بے یارومددگار اور روپیہ پیسہ نہ ہونے کی
وجہ سے خالق حقیقی سے جا ملا۔وہ باپ کی میت دیکھ کر بین کرنا شروع کردیتی
ہے اور مکمل ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ باپ کی میت
کو اسپتال سے گھر لے کرجائے خدا کا کرنا ایک ڈاکٹر مسیحا بن کر آتا ہے۔اور
کہتا ہے کہ یہ لو 10ہزار روپے اپنے بابا کے کفن دفن کے لئے رکھ لوتو وہ
لڑکی روتی ہوئی کہتی ہے کہ اب ان کاغذوں کا میں کیا کرو۔جب میرا باپ زندہ
تھا کسی نے میری مدد نہ کی اس نے وہ پیسے لینے سے انکار کردیا۔
بات یہ تھی کہ وہ ڈاکٹر ان کے محلے کا تھا اور رحیم چاچا کی شرافت،حسن
اخلاق،خودداری کا دلدادہ تھا اس ڈاکٹر نے کہا تمھارا باپ مجھے جانتا تھا
اور وہ میرے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ باپ بھی تھے کیوں کہ وہ ان پڑھ اور
غریب ہونے کے باوجود کسی رئیس،حاتم طائی اور درویش سے کم نہ تھے ان سے بہت
کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔یہ کہہ کر ڈاکٹر نے کہا لو بیٹا یہ لے لو اس لڑکی
نے وہ رقم لے لی۔اور ساتھ ہی اسپتال کے باہر کھڑی ایمبولینس کے ڈرائیور
کواس ڈاکٹر نے تاکید کی کہ اس لڑکی کے ساتھ اس کے باپ کی میت ہے۔اسے گھر تک
چھوڑ آؤ- باپ کی میت کو لوگوں کے سہارے سے ایمبولینس میں رکھا اور گھر کو
روانہ ہوگئی۔
راستے میں باپ کی میت کو دیکھتی اور روتی جاتی وہ اپنے باپ کی میت سے ابلاغ
کر رہی تھی کہ آخر مجھے اس ظالم سماج میں درندوں کے بیچ کیوں چھوڑ کر چلے
گئے۔میں تمھارے بغیر کیسے جیوں گی بھائی کو بھی جیل ہو گئی ہے۔میت پڑوسیوں
نے خود اتاری اور گھر میں منتقل کی یہ وہی لوگ تھے جو جیتے جی تو مدد کو
نہیں آئے۔ مگر مرنے کے بعد ہمدرد بن گئے۔نور فاطمہ یہ سوچ رہی تھی کہ ان
10ہزار سے کفن،میت گاڑی،غسل دینے والے کے اخراجات نکل جائیں گے۔مگر اسے کیا
پتہ تھا کہ یہ دنیا ہے کس شے کا نام۔اسے رحیم چاچا کے ساتھ کام کرنے والے
شمشاد انکل نے بتایا کہ بیٹا قبر کھدائی کے 8 ہزار مانگ رہے ہیں یہ سن کر
وہ لڑکی ایک دم بولی مگر انکل بابا تو پوری زندگی قبروں کی کھدائی ہی کرتے
رہے۔آج ان کی قبر کھدائی کے لئے بھی پیسہ درکار ہے۔ہاں بیٹا ہماراسیٹھ بہت
سخت دل اور ظالم ہے۔وہ پیسوں کا پجاری ہے رحیم جب 15سال کا تھا۔جب سے
تمھارے دادا کے ساتھ اس کام میں جُت گیا تھا اور آخری دم تک اسی پیشے سے
منسلک رہا۔ اللہ پاک تمھارے ابا کو جنت میں جگہ دے آمین۔ شمشاد انکل کہتے
ہیں بیٹا!میرے پاس یہ 2 ہزار روپے ہیں تم یہ رکھ لو کام آئیں گے۔نہیں نہیں
انکل مجھے نہیں چاہئے اللہ بے حد بڑا ہے نور فاطمہ یہ کہتی ہوئی شمشاد انکل
8 سے مخاطب ہوتی ہے اور کہتی ہے یہ لو8 ہزار روپے اور جاؤ جلدی قبر کشائی
کرو۔
شمشاد انکل رات میں،جب کہ سلمان کے بابا دن میں لوگوں کی قبریں کھودا کرتے
تھے۔ اس لڑکی نے پیسے تو دے دئے مگر دل ہی دل میں یہ سوچ رہی تھی کہ خدایا
یہ کون سا سماج ہے،کون سا قانون ہے،کس طرح کے لوگ بستے ہیں تیرے اس فانی
جہاں میں۔یہ کیسے امیر کبیر لوگ ہیں کہ جن کے لئے غریب اپنی ساری زندگی و
جوانی نچھاو ر کر دیتا ہے مگر اس کے باوجود ہمدردی کے کچھ بول اور انسانیت
کے چند لمحوں کے لئے ترستا ہے۔ نور کی دوست جوکہ ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی وہ
وہی موجود تھی، اس نے کہا یار یہ سرمایہ دارانہ نظام کادور ہے اس نظام میں
محنت کش اور مزدور طبقہ سرمایہ داروں کو کما کر دیتا ہے اس کے باوجود ہ وہ
دو وقت کی روٹی سے محروم ہے اور ان ظالم سرمایہ داروں کو کام کرتے مزدور
پسند ہیں مرے ہوئے مزدور نہیں۔
نور اللہ پر کامل توکل کرتی تھی، اب وہ 2ہزار روپے ہاتھ میں پکڑ کر یہی سوچ
رہی تھی کہ غسل والے،کفن کے،میت بس اور دیگر اخراجات کیسے ہوں گے مکمل؟
انہی سوچوں میں گم تھی کہ ایک بچی نے آکر کہا کہ رحیم باباکے ایک دوست آپ
سے ملنا چاہتے ہیں نور فاطمہ نے کہا اچھا بلالاؤ اس نے پردے کے پیچھے رہ کر
ان کی بات سنی۔ وہ کہنے لگے تمھارا باپ میرا بچپن کا دوست تھا۔ ہم دونوں
غریب ضرور تھے مگر دل کے امیر تھے ایک دوسرے کے لئے جان دینے کو تیا
ررہتے۔کل تقریباً 17سال بعد ہم ملے اور ملتے ہی رحیم نے مجھے کہا!جہانگیر
جب میں مروں تو میری میت کو اسی قبرستان میں دفنانہ جہاں میرا بچپن،جوانی
اور بڑھاپہ گزرا۔اسی قبرستان میں میری ماں ا ور باپ کی قبریں ہیں بھائی
توکوئی تھا نہیں 2بہنیں تھی ان کی بھی آرام گاہیں یہی ہیں۔اور تمھارے بابا
کی آخری وصیت یہی تھی کہ میرا جنازہ پیدل گھر سے قبرستان تک لے کے جانا
مجھے کیا پتہ تھاکہ آج میرا جگری 17سال بعد مجھ سے بچھڑنے کے بعد! اب کی
بار ایسا بچھڑا کہ اب آخری جہان میں ہی ملاقات ہوگی یہ کہتے ہوئے وہ دوست
زارو قطار رونے لگا۔جمعہ کا دن تھا نماز ظہر کے بعد نمازہ جنازہ ادا کرنا
تھی، اتنے میں ایک پولیس کی گاڑی آئی اور سلمان کو باپ کا آخری دیدار کرایا
اور پھر بیڑیوں میں جکڑ کر لے گئے۔ جنازے میں اس قدر خلقت تھی کہ مسجد میں
نماز جنازہ ادا کرنے کے باوجود غائبانہ نمازپڑھی گئی۔ یہ ہمارے معاشرے کا
ریت و رواج ہے کہ مردے کی تدفین کے بعد 3 روز سوگ منانا اور کھانا کرنا
لازمی قرار دے دیا گیا ہے، ورنہ لوگ طعنے دیتے ہیں۔ مگراس جاہل اور سماجی
رسم کی ادائیگی کے لئے اس لڑکی کے ہاتھ خالی تھے لہذا رحیم چاچا کی تدفین
کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے۔ اللہ نے اس لڑکی کے صبر اور توکل
کی لاج رکھی اور میت بس کا خرچہ نہ ہوا،غسل بھی چاچا کے ایک امام صاحب دوست
نے فی سبیل اللہ دے دیا،رہی کفن کی بات تو چاچا نے اس کی ادائیگی مرنے سے
پہلے ہی کردی تھی۔" یعنی وہ پہلے ہی ایک دوست کی دکان پر کفن کے پیسے ادا
کر چکے تھے، اور وہ دکان قبرستان کے ساتھ ہی تھی جہاں رحیم بابا کی تدفین
ہونی تھی "۔
آج نور فاطمہ اس وحشی اور درندے سماج میں تن تنہا جواں لڑکی زندگی گزار رہی
ہے۔معاشرے کے ان درندوں کی نظر میں کھٹک رہی ہے کہ یہ لڑکی عیاشی،ریاکاری
کیوں نہیں کر رہی؟ اور سماج میں کیوں گھل مل نہیں رہی؟یہ ہمارے ساتھ باتیں
کیوں نہیں کرتی،ٹائم پاس کیوں نہیں کرتی؟پڑوس کے لڑکے اسے چھیڑتے ہیں اور
باہر نکلنے پر اس پر اسی طرح ہُوٹنگ کرتے ہیں جس طرح کبھی سلمان کیا کرتا
تھا۔سچ کہا ہے کسی نے کہ "اپنا کرا۔۔۔۔۔اپنوں کے آگے آتا ہے "۔۔۔ |