وہ اس رات خوف کے مارے کمرے سے باہر نہ نکل سکا۔ہر طرف آگ
تھی ۔ایسے جسے کسی چراغ سے روشنی نکل کر چاروں طرف پھیل گئی ہو؛بہت ظالم
روشنی ،جسم کو جلا دینے والی روشنی ،،، راکھ کر دینے والی روشنی۔اس کے
کانوں میں بہت سی آوازیں گونج رہی تھیں۔لیکن اس کے گلے سے ایک آواز نہ نکلی
۔اس کا سانس لینا مشکل ہوتا چلا گیا، آنکھوں میں دھواں چبھنے لگا۔ہلکی ہلکی
کھانسی ہونے لگی اور پھر غنودگی اس پر حاوی ہوتی چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاسم شاہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہائشی تھا،جواینٹوں اور پتھر وں
سے بنے ہوے ۲ مرلے کے کچے مکان میں اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔
قاسم قریب شہرمیں پھلوں کی ریڑی لگا تا۔جس سے اس کے گھر کا چولہاجلتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ناشتہ! ‘‘قاسم شاہ باتھ روم سے نکل کر،اوپر ہوئی کفوں کو کلائی تک لاتا
ہوا اونچی آواز سے بولا ۔
ـ’’لا رہی ہوں صبرکر‘‘اس نے اپنی بیوی شگفتہ کو باورچی خانے سے کہتے ہوئے
سنا۔
’’جلدی کر جلدیـ‘‘اس نے ابھی یہ کہا ہی تھا کہ اس کو ناشتے کی ٹرے لے کر
آتی شگفتہ نظر آگئی۔اس نے ٹرے قاسم کے پاس چارپائی پر رکھی اور ساتھ ہی
بیٹھ گئی۔
’’بیٹا کہاں ہے تیرا‘‘قاسم کو پراٹھے کے لکمے منہ میں ڈالتے ہوئے اپنے بیٹے
عظیم کا خیال آیا۔
’’سکولـ گیا ہے‘‘شگفتہ نے کہا۔
ـ’’واپس کب تک آتا ہے؟‘‘
ـ’’پتا نہیں واپسی کا بتا کر نہیں گیامجھے‘‘ شگفتہ نے لا علمی کا اظہار کیا۔
قاسم نے اپنی بیوی کو ایک نظر دیکھا اور کہا ،’’پتہ رکھا کر ، ایسے کہیں
غلط لوگوں میں بیٹھنا شروع ہو گیا تو روئے گی بیٹھ کر۔‘‘اس نے اپنی بیوی کو
سمجھاتے ہوئے کہا۔ـ’’میرا بیٹا ایسا نہیں ہے۔ہمیشہ مجھے بتا کرجاتا ہے۔وہ
تو امتحان ہونے والے ہیں نہ اس لئے بس کبھی کبھی دوستوں کے ساتھ پڑھنے چلا
جاتا ہے ‘‘ شگفتہ نے اپنے بیٹے کی صفائی دیتے ہوے کہا ۔
ًًًٌٍٍٍّٔـ’’اﷲ کرے ایسا ہی ہو ‘‘یہ کہتے ہوئے قاسم نے روٹی کا آخری نوالا
لیا
’’ایسا ہی ہوگا۔ تجھے اپنی اولاد پربھروسہ نہیں ہے پر مجھے پورا بھروسہ
ہے۔‘‘شگفتہ نے جتانے والے انداز میں کہا۔
’’ نی سیانی! گل بھروسے کی نہیں زمانے اور حا لات کی ہے۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے
بولا ’’چل اب میں چلتا ہوں آگے ہی بہت دیر ہو گئی ہے ــ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے گیارہ بج رہے تھے۔قاسم کے آنے کا وقت ہورہا تھا۔
اور عظیم صبح سے غائب تھا۔ شگفتہ پریشان ہونے لگی ،آخر اس کا بیٹا آیا کیوں
نہیں ابھی تک۔دو دن پہلے
اس نے امتحانات ، اور دوستوں کے ساتھ پڑھنے کا ذکر کیا تھا لیکن اس دن وہ
رات ۸بجے تک واپس آگیا تھا۔ شگفتہ ابھی یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ ایک دم اس
کے پاس پڑا موبائل بجنے لگا۔ وہ چونکی اور سائد پرپڑے موبائل کو دیکھنے لگی۔
موبائل کی سکرین پر ابھرتا، اس کے میا ں کا نام نظر آرہا تھا۔ کچھ دیر
موبائل کو بے مقصد دیکھتی رہی ۔پھر فون اٹھا لیا۔
قاسم نے فون آج رات کسی کام کی وجہ سے شہر رکنے کی اطلاع دینے کے لیے کیا
تھا ۔توشگفتہ کی سسکیوں نے اس کو پریشانی میں مبتلا کر دیا۔اس نے وجہ جانی
تو پتا لگا کہ عظیم ابھی تک گھر نہیں پہنچاتھا۔اس نے پریشانی کے عالم میں
اپنے سارے کام ترک کیے اور گاؤں واپس آ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نویں جماعت کا پہلا دن تھا، عظیم کی کلاس میں ایک نیا لڑکا داخل ہوا۔جو
عظیم سے تھوڑی بڑی عمر کا معلوم ہوتا تھا۔عظیم کو وہ لڑکا حلیے سے بہت عجیب
لگا ۔کھلے بٹن ،بنا ٹائی اور کندھوں تک آتے ہوئے بال۔خاصا عجیب و غریب
انداز تھا اس کا۔ وہ کلاس کے بیچ میں کھڑا پوری کلاس میں نظر گھومانے لگا۔
وہ شاید جگہ تلاش کر رہا تھا۔بلا آخر اس کو عظیم کے ساتھ والی کرسی خالی
نظر آئی۔وہ چلتا ہوا عظیم کے پاس آیا اور اس کرسی پر بیٹھ گیا۔پہلے دن تو
بس عظیم کی اس کے ساتھ رسمی سی گفتگو ہوئی،جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوستی
اور پھر پکی دوستی میں بدل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امین کے تعلقات بڑے بڑے سمگلرز سے تھے۔ایک دن وہ عظیم کو گاؤں سے دور ایک
ایسی جگہ پر لے گیا ۔ جو اسلحے کا اڈا تھا ۔ادھر بڑی تعداد میں اسلحہ
سمگلنگ کے ذریعے افغانستان اور پاکستان میں مختلف دہشت گرد تنظیموں کو
بھیجا جاتا تھا۔
اور مختلف ملکوں سے سمگلنگ کے ذریعے منگوایابھی جاتا۔ پاک فوج کی کاویشوں
کی وجہ سے بہت سارے ایسے ٹھکانے ختم کر دیے گئے تھے ۔لیکن یہ ان چند میں سے
تھا جو باقی رہ گئے تھے۔
ذہن میں پیسوں اور بڑھا آدمی بننے کا لالچ لیے، عظیم نے اس اڈے میں کام
کرنا شروع کر دیا ۔ابھی اس کو کام کرتے ہوئے کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ پاک فوج
کے آپریشن کی زد میں یہ اڈا بھی آگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عظیم کوپہلا ٹرک چمن کے علاقے تک پہنچانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔جس کی اس
کو منہ بولی قیمت اداکی جانی تھی۔
پاک فوج اور پولیس کی سخت سکیورٹی کی وجہ سے خفیہ ٹرک کہیں بھی بھیجنا نا
ممکن بنتا چلا جا رہا تھا۔اس سال صرف ان کے اڈے کا ایک ہی ٹرک دہشت
گردتنظیموں کو بھیجا جا سکا تھا۔
ہاں البتہ تھوڑی بہت سمگلنگ جاری رہتی تھی۔ جو کسی مسافر کے ذریعے یا کوئی
اورحربہ اپنا کر کی جاتی۔ پاک فوج کے اس قدر سخت کنٹرول میں وہ سمگلنگ کرنے
کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔اس لیے ان کو سکیورٹی کے ڈھیلے ہونے کا انتظار
کرنا تھا جو انہوں نے کیا ۔پھر ایک دن انکا انتظار ختم ہوا پاکستان میں
دھماکوں کی کمی ہوتی چلی گئی جس کی بنا پر آہستہ آہستہ سکیورٹی بھی کم
ہوگئی۔اور پھر ایک دن انہوں نے اپنا ٹرک چمن میں ایک دہشت گرد تنظیم کو
بھیجنے کی تیاری شروع کردی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس رات پوری تیاری ہو چکی تھی ۔ عظیم اور اڈے کے کچھ اور بندے کمال مہارت
کے ساتھ اسلحہ ٹرک میں پیک کرنے میں مصروف تھے۔
جس دوران ایک آہٹ سی محسوس ہوئی۔ ’’یہ آواز کیسی ہے؟‘‘ ان میں سے ایک آدمی
نے کہا۔اس دوران ان سب نے چونک کر اردگر دیکھا۔ایک آدمی نے غور کیاآواز
باورچی خانے کی طرف سے ا ٓرہی تھی۔’’ارے کچھ نہیں وہ آدم اﷲ چائے لینے گیا
تھا ، کوئی برتن شرتن گرادیا ہوگا اس نے‘‘ اس نے سب کو تسلی دینے ولے انداز
میں کہا۔
ــ’’آہٹ ہو تو ڈر ہی ہوتا ہے فوج ہی نہ حملہ کر دے کہیں‘‘ایک شخص نے خوف
کااظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’سردار کافرمان نہیں یاد تجھے ۔(کسی مائی کے لعل کی ہمت نہیں کے ہمارہ
ٹھکانہ تلاش کر سکیـ۔)‘‘اس بات پرایک قہقوں کی گونج اٹھی ۔
’’ویسے ہمارے سردار کی بھی کیا ہی بات ہے۔ٹھکانہ بھی ایسی جگہ بنایا جہاں
کسی کی سوچ بھی نہیں جا سکتی۔‘‘
ان سب کے دوران عظیم انکی باتیں سنتا اور ساتھ ساتھ اپنا کام کررہا تھا ۔ان
کی باتیں پاک فوج کے حق میں نہیں تھی۔جبکہ اس نے توبچپن سے یہ ہی سنا تھا
کہ پاک فوج ملک کی حفاظت کے لیے کام کرتی ہے۔ اور امین نے کہا تھا کہ یہ
لوگ ملک سے نا جائز لوگوں کو ختم کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔عظیم نے نا جائز
سے مراد دہشت گرد لی تھی لیکن ___پاک فوج پھر ان کو مارنے کیوں آئیگی۔کیا
ان کے نزدیک ناجائر پاکستان کی عوام تھی ۔اور جن کو وہ جہادی کہتے تھے ۔وہ
اصل میں جہادی نہیں دہشت گرد تھے!
عظیم کو ان کی فوج کے خلاف باتوں نے یہ سب سوچنے پر مجبورکر دیا۔وہ یہ سب
سوچ ہی رہا تھا ۔جب اس کو سامنے والے دروازے کے ساتھ والی دیوار میں ایک
سایہ گزرتا محسوس ہوا۔وہ سایہ ایک آدمی کا تھا۔جو گن پکڑے ہوئے اندھرآ رہا
تھا۔عظیم کا سانس سوکھنے لگا،اور ٹانگیں ہلکی ہلکی کانپنے لگیں۔وہ واقعی
فوج تھی۔اس کو سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے۔ان کو بتائے یا نہ بتائے۔بلا آخر
اس نے نہ بتانے کا فیصلہ
کیا۔ اور آنکھیں چراتا ہوا پیچھے سٹور کی طرف چلاگیا۔"کہاں جا رہا ہے
موڑے؟"عظیم کو اپنی پشت
سے آواز آئی،
’’پانی پینے‘‘عظیم نے بڑی مشکل سے اپنے لرزتے ہونٹوں پر قابو پاتے ہوئے کہا
،جو دماغ میں پہلا جواب آیا دے دیا۔
ـ’’اچھا چل جا‘‘۔۔۔عظیم چلتا ہوا کچن کے ساتھ والے سٹور میں چلا گیا،اور
ادھر ایک کونے میں چھپ گیا۔لرزتا کانپتا عظیم کافی دیرادھر تک چھپا رہا؛اور
وقفے وقفے سے گولیوں کی آوازیں سنتا رہا۔ پھر کچھ دیر گزری ہی تھی چھوٹے
چھوٹے دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں۔وہ نہیں جانتا تھا کہ باہر کیا ہو رہا
ہے؛لیکن گولیوں اوردھماکوں کی آوازوں کو بہت اچھی طرح سن اور سمجھ سکتا
تھا۔
اور سٹور میں بنے روشن دانوں سے دھماکوں سے ابھرتی آگ کو دیکھ بھی رہا
تھا۔وقفے وقفے سے دھماکوں سے پیدا ہونے والا دھواں روشن دانوں کے ذریعے
اندر داخل ہوتا چلا گیا،اور تیزی سے چاروں طرف پھیل گیا۔اس کا سانس لینا
مشکل ہوتا چلا گیا؛ آنکھوں میں دھواں چبھنے لگا ۔کھانسی بڑھنے لگی اور پھر
غنودگی اس پر حاوی ہوتی چلی گئی۔وہ ابھی آدھی بے ہوشی کی حالت میں تھا۔جب
اس نے کسی کواسے اٹھاتے اور گود میں لے کر جاتے ہوئے محسوس کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ایک ہفتہ ہونے کو تھا لیکن عظیم کا کچھ پتہ نہیں چلا ۔ کسی کو کچھ پتہ
نہ تھا،زمین کھا گئی تھی یا آسمان نگل گیا تھا۔قاسم بھی اس کو ڈھونڈنے کے
لیے مارا مارا پھررہا تھا، شگفتہ روز گھر کا دروازہ دیکھتی کیہ شاید اس کا
بیٹا بھاگتاہوا اندر داخل ہو اور وہ اس کو گلے سے لگا لے۔ غائب ہونے کی
اگلی صبح سکول سے پتہ لگا کہ وہ چار دنوں سے سکول بھی نہیں گیا تھا۔دونوں
میاں بیوی پریشانی کے عالم میں راتوں کو سکون سے سو بھی نہ سکے ۔
اتوار کی شام دونوں میاں بیوی گم صم، چار پائی پر بیٹھ کر، شام کی چائے پی
رہے تھے۔ جب قاسم کا موبائل بجنے لگا۔
’’آپ عظیم کے والدبات کر رہے ہیں؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عظیم کی جب آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ہسپتال کی دیواروں میں پایا۔اس کو
نرسیں آس پاس گھومتی نظر
آ ئیں اور ڈاکٹر بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کو اور وارڈ کے باقی مریضوں کو
چیک کرنے آتے رہے۔ وہ یہاں کیسے آیاتھااس کو کون لے کر آیا تھا، وہ نہیں
جانتا تھا۔
اس کو ہوش آنے کے ٹھیک ایک دن بعد ایک فوجی افسر اس کے پاس آیا۔عظیم اس کو
دیکھ کر گھبرا سا گیا۔اس کو لگا بس فوجی اس کو پکڑ لے گا اور اٹھاکر جیل
میں ڈال دے گا۔وہ ابھی اس کے پاس آیا ہی تھا کہ عظیم نے ڈر کے مارے کہنا
شروع کر دیا’’میں نے کچھ نہیں کیا تھا۔مجھے پتہ نہیں تھا کہ وہ دہشت گردوں
کے لیے کام کر رہے تھے۔ میں تو بس اپنے ماں باپ کی خواہش پو ری کرنا چاہتا
تھا۔ایک بڑا اور امیر انسان بننا چاہتا تھا۔‘‘ وہ ہچکیوں کے ساتھ روتا
ہوااپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے لگا۔
’’بیٹا !میں نے توابھی آپ سے کچھ نہیں کہا ‘‘فوجی ہلکا سا مسکرایا اوربہت
پیار سے کہا۔وہ افسر کا نرم لہجہ
دیکھ کرتھوڑا مطمئن نظر آیا۔افسر نے اپنی بات جاری رکھیــ’’آپ شاید غلط
کاموں میں لگ کر پیسہ تو کما لیتے مگر کبھی عزت اور ماں باپ کا فخر نہیں بن
سکتے۔ ‘‘
’’مجھے معاف کردیں۔‘‘ آنکھوں سے گرتے ٹپ ٹپ آنسو اور شرمند ہ نگاہوں سے وہ
ہاتھ جوڑے معافی مانگ رہا تھا۔
جب اس کی نظر دروازے پر پڑی تو اس کے ماں باپ آتے نظر آئے ۔ماں نے تڑپتی
نگاہوں سے بیٹے کو دیکھا۔فورا ًسے اس کے پاس آئی اور گلے سے لگا کر رو
دی۔اور باپ نے فوجی افسر کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا
|