خواتین کا استحصال اور ذمہ دار کون؟

چند دن قبل لاہور کے مال روڈ روڈ پر واقع ایک ہوٹل میں ہونے والے سیمینار خواتین کا استحصال اور ذمہ دار کون میں شرکت کا موقعہ ملا یہ سیمینار نیو ہوپ ویلفیئر آرگنائزیشن اور نیوز لائن انٹرنیشنل (این ایل آئی) کی شراکت سے منعقد کیا گیا تھا جس میں گورنر پنجاب کی بیگم محترمہ پروین سرور مہمان خصوصی تھیں ہمارے معاشرے میں استحصال ہر سطح پر ایک معمول بن چکا ہے اور جہاں کسی کا اختیار چلتا ہے وہی پر وہ ایک نیا قصہ چھوڑ جاتا ہے خواتین کے استحصال سے پہلے ان معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بھی بہت افسوس اور دکھ ہوتا ہے جنہیں بھیڑے نما انسان اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے جان سے مار دیتے ہیں بہت پیچھے جانے کی ضرورت نہیں اسی سال کے شروع سے آغاز کرتے ہیں جنوری میں قصور کی رہائشی سات سالہ معصوم زینب انصاری کو ایک حیوان نما انسان زیادتی کے بعد قتل کردیتا ہے اور حسب عادت ہر طرف خاموشی چھائی رہتی ہے مگر سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے جسکے بعد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو بھی ہوش آتا ہے خادم اعلی حرکت میں آتے ہیں عدلیہ ایکشن لیتی ہے اور مجرم پکڑا جاتا ہے اسی ماہ سرگودھا کی ایک اور معصوم 16سالہ لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کردیا جاتا ہے اور پھر ایک دن بعد اسی شہر میں دو درندوں نے ایک 13سالہ معصوم کو کچل دیااسی دن فیصل آباد میں بھی 15سالہ لڑکے کو زیادتی کے بعد ابدی نیند سلا دیا گیااسکے بعد چار دن ہی گذرے تھے کہ مردان کی 4سالہ معصوم بچی کی لاش سامنے آگئی ٍٍٍٍ یہ ان دنوں کی بات تھی جب سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ ہمار ا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر جنسی زیادتیوں کے حوالہ سے ایک طوفان برپا تھا اور رہی بات خواتین کے استحصال کی تو وہ کہاں اور کس جگہ نہیں ہورہا اقتدار کے ایوانوں سے لیکر گھروں میں کام کرنے والی نوکرانیوں تک سرکاری اداروں سے لیکر ایک چھوٹے سے غیر سرکاری دفتر تک کہاں کہاں مجبور اور محصور خواتین کا استحصال نہیں کیا جارہا ویسے تو عورت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی چیخ و پکار اور مظلومیت کی داستانیں عالمی سطح پربھی سنی جارہی ہیں۔ دنیا بھر میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تدارک کے لیے عالمی برادری نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ خواتین پرتشدد کے خاتمے کو ممکن بنا کر صنف نازک کے وجود کو بکھرنے سے بچایاجاسکتا ہے۔ اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں ایک منفرد اور مقدس رشتہ عطا کیا ہے تاکہ عورت معاشرے میں تخریب کی بجائے تعمیر و اصلاح کا فریضہ سرانجام دے سکے۔ عورت کو بھی چاہیے کہ شرم و حیاء کا پیکر بن کر تعلیمی، معاشی، اقتصادی اور معاشرتی میدان میں مردوں کا ہاتھ بٹائے تاکہ معاشرے کی ترقی میں فعال کردار ادا کر سکے۔ خواتین کو انکے حقوق دلانے کے لئے قانون سازی تو ہوئی مگر قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث خواتین آج بھی معاشرے میں اپنا جائز مقام حاصل نہ کر سکیں حتیٰ کہ اپنے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں اور جن کو اپنے حقوق کے متعلق آگاہی ہے وہ نہ جانے کیوں ڈر اور سہم کر اپنے ہونٹوں کو تالا لگائے بیٹھی ہوئی ہیں کچھ خواتین ڈر ،شرمندگی اور خوف سے اپنے اوپر ہونے والے ہر ظلم کو خاموشی سے سہہ رہی ہیں مگر انہی خواتین میں ایک ایسی جرات اور حوصلہ مند خاتون بھی ابھر کرسامنے آئی ہے جس نے تمام مظلوم خواتین کو انصاف دلانے کے لیے کلمہ حق کی صدا بلند کی ہے ایک ایسی خاتون جسے پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے اپنے پاؤں کی جوتی بنانے کی کوشش کی مگر اس بہادر خاتون سیمل راجہ جو پنجاب اسمبلی کی ممبر بھی رہی نے ثابت کردیا کہ وہ ڈرنے ،دبنے اور مظلوم بننے والی نہیں بلکہ جو نکاح اور شادیوں کے نام پر عورتوں کی عزت سے کھیلتے ہیں انہیں انکے انجام تک پہنچانے والی بہادر خاتون ہے بات زرا لمبی ہوگئی واپس آتے ہیں سیمینار کی طرف جہاں گورنر پنجاب کی اہلیہ پروین سرور نے کہا کہ اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ہیں وہ قابل تحسین ہیں۔ عورت اگر چاہے تو معاشرے میں ایک قابل قدر مقام حاصل کر سکتی ہے۔ پاکستان کی عظیم خواتین کا ملک کی ترقی میں اہم کردار ہے خواتین یونیفارم میں ہوں یا گھر میں ان کا کردار قابل فخر ہے۔ پاکستان کی عظیم خواتین کا ملک کی ترقی میں اہم کردار ہے۔ خواتین پر ملکی ترقی کی اہم ذمہ داری ہے۔ ہمیں خواتین کے کردار اور خدمات پر فخر ہے ۔نیو ہوپ ویلفیئر آرگنائزیشن کی چیئرپرسن سیمل راجہ کاکہنا تھا کہ اکثر عورتوں کو کاروکاری کے نام پر اس لئے قتل کردیا جاتا ہے کہ کہیں ان کو جائیداد میں حصہ نہ دینا پڑ جائے اسی لئے یا تو ان کی شادیاں قرآن پاک سے کرادی جاتی ہیں یا غیرت کے نام پر قتل کرکے دنیا کے سامنے خود کو مظلوم ظاہر کر کے اس کا حصہ ہڑپ کرلیا جاتا ہے۔ گھروں میں ہونے والے ان تشدد کے باعث کئی خواتین ذہنی طور پر بیمار ہوجاتی ہیں لیکن ایسے واقعات کو دنیا کے سامنے نہیں آنے دیا جاتا، اس لئے ان کے بارے میں اب تک درست اعداد و شمار نہیں مل سکے ہیں اور بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی معاشرے میں نبی ﷺ کی پیاری سنت نکاح کی آڑ میں خواتین کے استحصال کے واقعات میں شرمناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے جوکسی صورت بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ رکن پنجاب اسمبلی راحیلہ خادم حسین نے کہا کہ اب عورتوں کو شعور آ رہا ہے اور وہ زندگی کے ہر شعبے میں سرگرم عمل دکھائی دیتی ہیں۔ پسماندگی، استحصال اور زیادتیوں کی شکا ر خواتین کو اپنے اصل حقوق حاصل کرنے کیلئے ابھی ایک طویل فاصلہ طے کرنا ہے۔سینئیر صحافی احسن ضیاء کاکہنا تھا کہ نکاح کی آڑ میں خواتین کی عزتوں اور زندگیوں سے کھیلنا کسی صورت بھی قابل برداشت نہیں اس سلسلے میں حکومت کے علاوہ ہم سب بلخصوص قلمکاروں پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جب قلم اٹھائیں تو انہیں اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ ان کے لکھے ہوئے الفاظ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی کے دل میں اتر کر کسی ایک خاتون کو ظلم کے شکنجے سے نجات دلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔رکن پنجاب اسمبلی سعدیہ سہیل رانا نے کہا کہ قیام پاکستان کے 65 سال بعد بھی قرآن سے شادی، کاروکاری اور مختلف شکلوں میں عورت کا استحصال اس لئے جاری ہے کہ ہم نے اپنی اصل اقدار سے منہ موڑ لیا ہے۔ فرائض سے پہلو تہی کرنے والے مخصوص ذہنوں نے عورتوں کو حقوق سے محروم کر رکھا ہے ۔استقلال پارٹی کے سربراہ سید منظور علی گیلانی نے کہا کہ اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے نکاح کے متعلق پیش کیا جانے والا فکرِ اعتدال اور نظریہ توازن نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں۔ جس طرح انسان کی بہت سی فطری ضروریات ہیں اسی طرح نکاح بھی ایک اہم فطری انسانی ضرورت ہے۔ تاہم اس اہم فطری ضرورت کو جائزاور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنے ک لئے نکاح کوانسانی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بتایا گیا۔انکا کہنا تھا کہ خواتین کے استحصال کو روکنے کے لئے عملی اقدامات اتھانا ہوں گے تاکہ آنے والی نسلوں کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ ماہر قانون خرم لطیف کھوسہ نے کہا کہ اسلامی معاشرہ کی پاکیزگی کی حفاظت کرنا،ہرمسلمان کی عزت، نفس اور روح کی طہارت باقی رکھنا اوراچھے نسب کے لوگوں کو ملاوٹ کی غلاظت سے محفوظ کرنا۔شادی مرد اور عورت کے مابین ایک ایسے رِشتے کی اُستواری کا عمل ہے جس ِسے تخلیقِ کائنات عمل میں آتی ہے مگرکچھ اشرافیہ و با اثر طبقے کی جانب سے صدیوں سے شادی کے نام پر خواتین کے استحصال کا سلسلہ جاری ہے جسکو روکنے کے لئے تحریک چلانا اشد ضروری ہے تاکہ اس حساس اور اہم مسئلے بارے عوام میں آگاہی پیدا کی جا سکے۔ سابق رکن اسمبلی ساجدہ میر نے کہا کہ شادی قُدرت کی طرف سے بندوبست ہے ۔ اسلام میں نہ تو شادی سے پہلے جِنسی اختلاط کی اجازت دی گئی ہے اور نہ شادی کے بعد خاوند بیوی کو ایک دُوسرے سے دھوکا، بددیانتی اور امانت میں خیانت کی چھُوٹ دی گئی۔ہم ہمیشہ یہ سنا کرتے تھے کہ اہلِ مغرب اور مغرب زدہ لوگوں نے شادی کو ایک کھیل تماشا بناکر رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے مغربی ممالک میں گھرگرہستی کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ خاندان اور اقارب کا نام ونشان مٹ گیا ہے۔ ماں باپ اور بچوں کے درمیان کوئی تعلق قائم نہیں رہ گیا ہے مگر افسوسناک بات تویہ ہے کہ بظاہر شرفاء اور باثر لو گوں کی جانب سے نبی ﷺ کی اس سنت جس میں اﷲ تعالی نے انسان کے لیے معاشرتی، خاندانی، اخلاقی، سماجی، نفسیاتی، دینی ودنیاوی فائدے رکھے ہیں کو ڈھال بنا کر عیاشی کا زریعہ سمجھ لیا ہے۔ نکاح کی آڑ میں عورتوں کو استعمال کر کے چھوڑ نے اور بعد ازاں نکاح سے انکاری ہوکر خواتین کی زندگیاں برباد کرنے کا گناہ خوفناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے آئے روز حوا کی بیٹی ’’منکوحہ بیوی ’’ہوتے ہوئے گالی بنا دی جاتی ہے۔ سونیا نعمان نے کہا کہ نکاح نبی ﷺ کی سنت اور طلاق حکم خداوندی ہے ۔ خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے اور حق مہر ادا نہ کرنے کی غرض سے شادی سے انکار کر کے خواتین کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ریاستی ادارے خواتین کو تحفظ دینے کے بجائے مجرموں کا آلہ کار بن کر خواتین کے لئے انصاف کا حصول ناممکن بنا دیتے ہیں ۔ آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ اب خواتین میں شعور آچکا ہے اورجو کوئی بھی اﷲ کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چل کر اس سے بغاوت کرتا ہے وہ خود تو تباہ و برباد ہوتا ہی ہے لیکن دوسروں کو بھی تباہ و برباد کردیتا ہے اوراس سے دنیا میں فتنہ و فساد پھیل جاتے ہیں یعنی لاوارث معصوم بچوں کے مسائل، اسقاطِ حمل جیسے اخلاق سوز واقعات،غیرت کے نام پر ہونے والے قتل،خو سوزی کے افسوسناک واقعات ہونے لگتے ہیں جبکہ حکومتی سطح ہونے والی قانون سازی پر عمل کیا جائے ایسے قوانین خواتین کو تحفظ دلوانے کے بجائے انکے استحصال کا باعث بن ر ہے ہیں اور ان قوانین میں ترامیم لا نا اشد ضروری ہے تاکہ خواتین کے استحصال کے اس شرمناک سلسلے کو روکا جا سکے اور خواتین کو انکے جائز قانونی و شرعی حقوق دلوائے جا سکیں۔

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 508825 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.