مملکت سعودی عرب جزیرہ نمائے عرب میں سب سے بڑا ملک ہے۔
اس ریاست کا ظہور تقریباً 1750ء میں عرب کے وسط سے شروع ہوا جب ایک مقامی
رہنما محمد بن سعود معروف اسلامی شخصیت اورمحمد بن عبدالوہاب کے ساتھ مل کر
ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔اگلے ڈیڑھ سو سال میں آل سعود کی قسمت
کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا جس کے دوران جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لئے
ان کے مصر، سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے۔ بعد ازاں
سعودی ریاست کا باقاعدہ قیام شاہ عبدالعزیز السعود کے ہاتھوں عمل میں
آیا۔1902ء میں عبدالعزیز نے حریف آل رشید سے ریاض شہر چھین لیا اور اسے آل
سعود کا دارالحکومت قرار دیا۔ اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انہوں
نے 1913ء سے 1926ء کے دوران الاحساء ، قطیف، نجد کے باقی علاقوں اور حجاز (جس
میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے شہر شامل تھے) پر بھی قبضہ کرلیا۔ 8
جنوری 1926ء کو عبدالعزیز ابن سعود حجاز کے بادشاہ قرار پائے۔ 29 جنوری
1927ء کو انہوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔ 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ
کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے
تھے پر عبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ 1932ء میں برطانیہ کی
رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب
رکھ دیا گیا۔مارچ 1938ء میں تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست
استحکام بخشا اور مملکت میں خوشحالی کا دور دورہ ہوگیا۔
سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہ آل سعود کی بادشاہت ہے۔ 1992ء میں
اختیار کئے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہ عبدالعزیز
ابن سعود کی اولاد حکمرانی کرے گی اور قرآن ملک کا آئین اور شریعت حکومت کی
بنیاد ہے۔ملک میں کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ ہی انتخابات ہوتے ہیں۔
بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ اسے
سعودی شاہی خاندان، علماء اور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی
چاہئے۔ سعودی عرب دنیا بھر میں مساجد اور قرآن اسکولوں کے قیام کے ذریعے
اسلام کی ترویج کرتی ہے۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علماء کی منظوری سے شاہی
خاندان میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔قانون سازی وزراء کی
کونسل عمل میں لاتی ہے جو لازمی طور پر شریعت اسلامی سے مطابقت رکھتی ہو۔
عدالت شرعی نظام کی پابند ہیں جن کے قاضیوں کا تقرر اعلیٰ عدالتی کونسل کی
سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے۔سعودی عرب کو انتظامی لحاظ سے تیرہ علاقوں
یا صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔مملکت سعودی عرب جزیرہ نمائے عرب کے 80 فیصد
رقبے پر مشتمل ہے۔ متحدہ عرب امارات، اومان اور یمن کے ساتھ منسلک ملک کی
سرحدوں کا بڑا حصہ غیر متعین ہے۔سعودی حکومت کے اندازوں کے مطابق مملکت کا
رقبہ 22 لاکھ 17 ہزار 949 مربع کلومیٹر (8 لاکھ 56ہزار 356 مربع میل) ہے۔
دیگر اندازوں کے مطابق ملک کا رقبہ 19 لاکھ 60ہزار 582 مربع کلومیٹر (7
لاکھ 56 ہزار 934 مربع میل) اور 22 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر (8 لاکھ 64
ہزار 869 مربع میل) کے درمیان ہے تاہم دونوں صورتوں میں سعودی عرب رقبے کے
لحاظ سے دنیا کے 15 بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔
مملکت سعودی عرب کا جغرافیہ مختلف نوعیت کا ہے۔ مغربی ساحلی علاقے (التہامہ)
سے زمین سطح سمندر سے بلند ہونا شروع ہوتی ہے اور ایک طویل پہاڑی سلسلے (جبل
الحجاز) تک جاملتی ہے جس کے بعد سطع مرتفع ہیں۔ جنوب مغربی اثیر خطے میں
پہاڑوں کی بلندی 3 ہزار میٹر (9 ہزار 840 فٹ) تک ہے اور یہ ملک کے سب سے
زیادہ سرسبز اور خوشگوار موسم کا حامل علاقہ ہے۔ یہاں طائف اور ابہاء جیسے
تفریحی مقامات قائم ہیں۔ خلیج فارس کے ساتھ ساتھ قائم مشرقی علاقہ بنیادی
طور پر پتھریلا اور ریتیلا ہے۔ معروف علاقہ ’’ربع الخالی‘‘ ملک کے جنوبی
خطے میں ہے اور صحرائی علاقے کے باعث ادھر آبادی تقریباً نہ ہونے کے برابر
ہے۔مملکت کا تقریباً تمام حصہ صحرائی و نیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے اور
صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے۔ بڑی آبادیاں صرف مشرقی اور مغربی ساحلوں اور
حفوف اور بریدہ جیسے نخلستانوں میں موجود ہیں۔ سعودی عرب میں سال بھر بہنے
والا کوئی دریا یا جھیل موجود نہیں۔سعودی عرب کا موسم مجموعی طور پر شدید
گرم اور خشک ہے۔ یہ دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں گرمیوں میں
درجہ حرارت کا 50 ڈگری سینٹی گریڈ (120 ڈگری فارن ہائیٹ) سے بھی آگے جانا
معمول کی بات ہے۔ موسم سرما میں بلند پہاڑی علاقوں میں کبھی کبھار برف پڑ
جاتی ہے تاہم مستقل بنیادوں پر برف باری نہیں ہوتی۔ موسم سرما کا اوسط درجہ
حرارت 8 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ (47 سے 68 ڈگری فارن ہائیٹ) ہے۔ موسم گرما
میں اوسط درجہ حرارت 27 سے 43 ڈگری سینٹی گریڈ (81 سے 109 ڈگری فارن ہائیٹ)
ہوتا ہے۔ وسط صحرائی علاقوں میں گرمیوں میں بھی رات کے وقت موسم سرد ہوجاتا
ہے۔سعودی عرب میں بارش بہت کم ہوتی ہے تاہم کبھی کبھار موسلا دھار بارش سے
وادیوں میں زبردست سیلاب آجاتے ہیں۔ دارالحکومت ریاض میں سالانہ بارش 100
ملی میٹر (4 انچ) ہے جو جنوری سے مئی کے درمیان ہوتی ہے۔ جدہ میں نومبر اور
جنوری کے درمیان 54 ملی میٹر (2.1 انچ) بارش ہوتی ہے۔
2005ء کی رائے شماری کے مطابق سعودی عرب کی آبادی 26 اعشاریہ 4 ملین ہے جس
میں 5 اعشاریہ 6 ملین غیر ملکی آبادی بھی شامل ہے۔ 1960ء کی دہائی تک مملکت
کی آبادی کی اکثریت خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش تھی لیکن معیشت اور شہروں
میں تیزی سے ترقی کی بدولت اب ملک کی 95 فیصد آبادی مستحکم ہے۔ شرح پیدائش
29 اعشاریہ 56 فی ایک ہزار افراد ہے جبکہ شرح اموات صرف 2 اعشاریہ 62 فی
ایک ہزار افراد ہے۔چند شہروں اور نخلستانوں میں آبادی کی کثافت ایک ہزار
افراد فی مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔تقریباً 80 فیصد سعودی باشندے نسلی
طور پر عرب ہیں۔ مزید برآں چند جنوبی اور مشرق افریقی نسل سے بھی تعلق
رکھتے ہیں جو چند سو سال قبل اولاً غلام بنا کر یہاں لائے گئے تھے۔ سعودی
عرب میں دنیا بھر کے 70 لاکھ تارکین وطن بھی مقیم ہیں جن میں بھارت کے 14
لاکھ، بنگلہ دیش کے 10 لاکھ، پاکستان کے 9 لاکھ، فلپائن کے 8 لاکھ اور مصر
کے 7 لاکھ 50 ہزار باشندے شامل ہیں۔ قریبی ممالک کے عرب باشندوں کی بڑی
تعداد میں مملکت میں برسرروزگار ہے۔ سعودی عرب میں مغربی ممالک سے تعلق
رکھنے والے ایک لاکھ باشندے بھی قیام پذیر ہیں۔1932ء میں مملکت سعودی عرب
کے قیام کے وقت ہر باشندے کی تعلیم تک رسائی نہیں تھی اور شہری علاقوں میں
مساجد سے ملحق مدارس میں تعلیم کی محدود اور انفرادی کوششیں ہورہی تھیں۔ ان
مدارس میں شریعت اسلامی اور بنیادی تعلیم سکھائی جاتی تھی تاہم گذشتہ صدی
کے اختتام تک سعودی عرب ایک قومی تعلیمی نظام کا حامل ہے جس میں تمام
شہریوں کو اسکول سے قبل سے لے کر جامعہ کی سطح تک مفت تربیت فراہم کی جاتی
ہے۔ جدید سعودی تعلیمی نظام جدید اور روایتی فنی و سائنسی شعبہ جات میں
معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم سعودی نظام تعلیم کا بنیادی
خاصہ ہے۔ سعودی عرب کا مذہبی تعلیمی نصاب دنیا بھر کے مدارس میں بھی پڑھایا
جاتا ہے۔سعودی عرب میں باقاعدہ بنیادی تعلیم کا آغاز 1930ء کی دہائی میں
ہوا۔ 1945ء میں شاہ عبدالعزیز السعود نے مملکت میں اسکولوں کے قیام کے لئے
ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا۔ 6 سال بعد 1951ء میں مملکت کے 226 اسکولوں
میں 29 ہزار 887 طالب علم زیر تعلیم تھے۔ 1954ء میں وزارت تعلیم کا قیام
عمل میں آیا جس کے پہلے وزیر شہزادہ فہد بن عبدالعزیز بنے۔ سعودی عرب کی
پہلی جامعہ شاہ سعود یونیورسٹی 1957ء میں ریاض میں قائم ہوئی۔آج سعودی عرب
کا قومی سرکاری تعلیمی نظام 8 جامعات، 24 ہزار سے زائد اسکولوں اور ہزاروں
کالجوں اور دیگر تعلیمی و تربیتی اداروں پر مشتمل ہے۔ اس نظام کے تحت ہر
طالب علم کو مفت تعلیم، کتب اور صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ مملکت
کے سرکاری میزانیہ کا 25 فیصد سے زائد تعلیم کے لئے مختص ہے۔ سعودی عرب میں
طالب علموں کو اسکالرشپ پروگرام کے تحت بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے جن میں
امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان، ملائشیا اور دیگر ممالک شامل
ہیں۔
سعودی ثقافت کی بنیاد مذہب اسلام ہے ۔ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ
مکرمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب میں موجود ہیں۔ ہر روز دنیا بھر کے مسلمان
5 مرتبہ مکہ مکرمہ میں قائم خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔
سعودی عرب میں ہفتہ وار تعطیل جمعہ کو ہوتی ہے۔ قرآن مجید سعودی عرب کا
آئین اور شریعت اسلامی عدالتی نظام کی بنیاد ہے۔
سعودی عرب کے معروف ترین لوک رسم قومی رقص ارضیٰ ہے۔ تلواروں کے ساتھ کیا
جانے والا یہ رقص قدیم بدوی روایات کا حصہ ہے۔ حجاز کی السہبا لوک موسیقی
کی جڑیں قرون وسطیٰ کے عرب اندلس سے جاملتی ہیں۔سعودی عرب کا لباس باشندوں
کے زمین، ماضی اور اسلام سے تعلق کا عکاس ہے۔ روایتی طور پر مرد ٹخنے تک کی
لمبائی کی اونی یا سوتی قمیض پہنتے ہیں جو ثوب کہلاتی ہے جس کے ساتھ سر پر
شماغ یا غطرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ عورتوں کا لباس قبائلی موتیوں، سکوں،
دھاتی دھاگوں اور دیگر اشیاء سے مزین ہوتا ہے۔ سعودی خواتین گھر سے باہر
عبایہ اور نقاب کا استعمال کرتی ہیں۔اسلام میں شراب نوشی اور سور کے گوشت
کے استعمال کی سختی سے ممانعت ہے اور اس پر سعودی عرب میں سختی سے عملدرآمد
کیا جاتا ہے۔ سعودی روٹی خبز کا تقریباً تمام کھانوں میں استعمال کیا جاتا
ہے۔ بھنی ہوئی بھیڑ، مرغی، فلافل، شورمہ اور فول بھی دیگر مشہور کھانوں میں
شامل ہیں۔ روایتی قہوہ خانے ہر جگہ موجود ہیں تاہم اب ان کی جگہ بڑے کیفے
لے رہے ہیں۔ بغیر دودھ کی سیاہ عربی چائے کا استعمال ہر جگہ کیا جاتا ہے۔
|