’’آپ ثناء غوری ہیں؟‘‘
’’جی‘‘
’’میں آپ کے شو دیکھتی ہوں ٹی وی پر‘‘
’’اچھا، شکریہ‘‘
جواب دے کر میں اپنی خریداری میں پھر مصروف ہوگئی۔
’’میں سوشل میڈیا پر بھی آپ کو فالو کرتی ہوں۔ آپ کا گیٹ اپ مجھے بہت اپیل
کرتا ہے۔‘‘
وہ ایک بار پھر مجھ سے مخاطب ہوئی۔ میں نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ اس کی عمر
چھبیس ستائیس کے قریب ہوگی، میں جس شاپنگ سینٹر میں موجود تھی وہ کراچی کے
ایک پوش علاقے میں واقع ہے۔ میں کاسمٹکس خرید رہی تھی، لہٰذا غور سے ہر چیز
پر لکھی تحریر پڑھتی جارہی تھی۔ اتنے میں وہ اچانک میرے قریب آکر مخاطب
ہوگئی۔ اس کا لباس کافی ماڈرن تھا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس نے بڑی مشکل سے
خود کو لباس میں پھنسا رکھا تھا، ایسے میں اس کا کہنا کہ آپ کا گیٹ اپ مجھے
اپیل کرتا ہے، میرے لیے حیرت کی بات تھی۔
میں پھر سامان خریدنے لگی۔ وہ کافی دیر مجھے دیکھتی رہی پھر نزدیک آکر کہنے
لگی،
’’کیا آپ مجھ سے شادی کر سکتی ہیں؟‘‘
میرے لیے ایک خاتون کی طرف سے یہ سوال آنا نہایت حیرت کی بات تھی۔ میں نے
اس کی طرف غور سے دیکھا، اسے جواب دینے کے لیے لفظ نہیں مل رہے تھے۔ میں
کوئی سخت بات کرتی لیکن مجھے اس پر رحم آگیا۔ میں نے فقط اتنا کہا کہ میں
شادی شدہ ہوں۔
جواب آیا،’’اچھا ٹھیک ہے، لیکن دوستی؟‘‘
’’نہیں مجھے اس میں بھی کوئی دل چسپی نہیں‘‘
’’ہم ساتھ کافی پی سکتے ہیں؟‘‘
مجھے اس کے جذبات کو لفظوں میں ڈھالنے کی جلدی تھی، شاید اسی لیے میں نے
ہامی بھرلی۔ ہم لفٹ سے کافی شاپ میں چلے گئے۔ میں عام سیٹ لیتی لیکن اس نے
اسموکنگ ایریا کا رخ کیا، اور بیٹھتے ہی اپنی سگریٹ سلگالی۔ شام کا وقت تھا،
اور جہاں ہم تھے وہاں پورے کراچی کا منظر صاف نظر آرہا تھا۔ اس نے گفتگو کا
آغاز کیا:
’’ٓآپ کو حیرت ہوئی ہوگی؟‘‘
’’ظاہر ہے حیرت کی بات تو ہے تم ایک لڑکی ہو اور کافی پڑھی لکھی سمجھ دار
دکھائی دیتی ہو۔ پھر ایِسی گھٹیا سوچ․․․‘‘
’’پلیز گھٹیا مت کہیے اسے۔ میری عادت ہوگئی ہے اور میں عادت نہیں بدل سکتی۔‘‘
’’ایک منٹ․․․ تم نے کہا شادی․․․ یہ شادی کیسے ہوسکتی ہے؟ کیا تم لوگ آپس
میں شادی کرتے ہو۔ اور پاکستان میں تو یہ جرم بھی ہے۔‘‘
’’شادی نہیں ہوتی ایک کنٹریکٹ ہوتا ہے جس کی پاسداری دونوں فریق کرتے ہیں‘‘
’’لیکن اس کنٹریکٹ کی کوئی قانونی حیثیت بھی تو نہیں ہوسکتی۔‘‘
’’ہاں، نہیں ہوتی، لیکن دل کی تسلی کے لیے‘‘
’’تمھیں کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔‘‘
’’کوئی فائدہ نہیں‘‘
’’یہ تم کہہ رہی ہو ناں کہ کوئی فائدہ نہیں۔ تم چاہو تو میں تمھاری مدد کر
سکتی ہوں‘‘
’’نہیں اس کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’شادی کیوں نہیں کی تم نے‘‘
’’کی تھی گھر والوں نے۔ پھر انھیں اندازہ ہوگیا کہ مجھے خواتین میں دل چسپی
ہے اور کالج کے زمانے سے ہی یہ عادت لگ گئی تھی، شادی کام یاب نہ ہوسکی ۔
میں ایک پرائیویٹ فرم میں جاب کرتی ہوں۔ جاب کی مجھے ضرورت نہیں۔ بس خود کو
مصروف رکھنے کے لیے کر رہی ہوں۔‘‘
مجھے اس پر رحم بھی آرہا تھا اور معاشرے میں پھیلتی گندگی کی بو بھی محسوس
ہورہی تھی۔ میں سوچ رہی تھی ہم کسے دھوکہ دے رہے ہیں۔ سب اچھا ہے کا خول
پہنے ہم کب تک خود کو دھوکہ دیتے رہیں گے۔ میں عجیب مخمصوں کا شکار تھی۔
پوچھنا بہت کچھ چاہتی تھی لیکن لفظ حلق میں اٹک رہے تھے۔
کافی ختم ہوئی۔ اس نے مجھ سے میرا نمبر مانگا تو میں نے معذرت کرلی۔ نمبر
نہ دینے پر مجھے احساسِ ندامت تھا، کیوں کہ میں اس کی کسی بھی طرح مدد کر
سکتی تھی، لیکن میں بھی اسی معاشرے کی فرد ہوں، مجھے اپنا دامن بچانے کی
فکر زیادہ تھی۔ اس نے اپنا کارڈ مجھے تھمایا اور یہ بتایا کہ وہ سوشل میڈیا
پر کس نام سے ہے۔ پھر وہ چلی گئی۔ اس کے جانے کا ساتھ ہی میں نے کارڈ پھاڑ
کر ایک طرف رکھ دیا۔ اور گاڑی کی چابی اٹھا کر لفٹ کا رخ کیا۔ لفٹ سے
پارکنگ تک کے راستے میں اور پھر کار چلاتے ہوئے نہ جانے کتنے خیالات نے
مجھے گھیرے رکھا۔
میں اس موضوع پر پہلے بھی لکھنا چاہتی تھی لیکن مجھے علم تھا کہ ایسے
موضوعات وہ بھی ایک خاتون کے قلم سے کسی صورت قابل قبول نہیں ہوتے اور نہ
کبھی ہوپائیں گے۔ ایسے ہی کچھ تجربات مجھے کالج لائف میں بھی ہوئے اور پھر
پروفیشنل لائف میں آنے کے بعد باقاعدہ یہ راز کھلا کہ کراچی میں ایسی
خواتین کا ایک منظم گروپ ہے جو باقاعدہ طور پر سرگرم ہے۔ لیکن بس بات سنی
ان سنی ہوگئی کہ آخر ہمیں کیا پڑی ہے گندگی میں ہاتھ ڈالنے کی۔ شاید یہ سوچ
ہی ہے کہ ہم غلط باتوں کو سامنے نہیں لاتے اور اس لیے خاموش ہوجاتے ہیں کہ
ہمارے دامن پر چھینٹے آئیں گے، لیکن ایک لکھاری جواب د ہ ہے اپنے رب کے
سامنے بھی کہ جب برائی دیکھی تو کچھ کہا کیوں نہیں اپنا قلم استعمال کیوں
نہ کیا اور معاشرے کے سامنے بھی۔
ہم جنس پرست عورت اس عورت کو کہتے ہیں جو دوسری عورتوں کی طرف رومانوی،
جذباتی یا جنسی کشش محسوس کرتی ہو۔ ہم جنس پرست عورت کے لیے انگریزی میں
عام اصطلاح 'لیسبئین (lesbian)' استعمال کی جاتی ہے۔
اس موضوع پر قلم اٹھانے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ 3 ستمبر 2018 کو
ملائیشیا میں شرعی عدالت کے حکم پر دو ہم جنس پرست خواتین کو سیکڑوں افراد
کی موجودگی میں سر عام کوڑے مارے گئے اور 3 ہزار 300 رنگٹ جرمانے کی سزا
سنائی گئی۔ رواں برس اپریل میں اسلامک انفورسمنٹ فورس کے افسران نے دونوں
خواتین کو عوامی مقام پر کھڑی کار میں قابل اعتراض حالت میں پائے جانے پر
حراست میں لیا تھا اور اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کے جرم میں شرعی عدالت
میں پیش کیا تھا۔ عدالتی حکم پر دونوں خواتین کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے خواتین کو سرعام کوڑے لگانے کی سزا کی مخالفت
کرتے ہوئے اس عمل کی مذمت کی۔ تاہم حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سرعام
سزا دینے کا مقصد لوگوں کو عبرت دلانا ہے۔ یہ طریقہ جرائم کے پھیلاؤ میں
کمی کا باعث بنتا ہے۔
ملائیشیا سے آنے والی خبر، وہ لڑکی اور بہت سے سُنی ہوئی باتیں․․․میں دیر
تک اس موضع میں الجھی رہی۔ میں سوچ رہی تھی کہ دنیا کس تیزی سے سیاہ کاریوں
کو قبول کرتی جارہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے 1977ء کے ICD-9 میں ہم جنس
پرستی کو ذہنی بیماریوں میں سرفہرست رکھا۔ لیکن 17 مئی 1990 کو عالم ادارۂ
صحت کی اسمبلی کی تصدیق سے اسے ICD-10 سے ہٹا دیا گیا۔ برطانیہ میں ہم جنس
پرستوں کی شادی قانوناً جائز ہے۔ برطانیہ کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس
قانون سے ’’استفادہ‘‘ کرنے کے لیے رجسٹریشن کرانے والے جوڑوں کی تعداد پچاس
ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ قومی ادارۂ شماریات کی رپورٹ کے مطابق برطانوی
معاشرے میں جوڑے بننا اور ٹوٹنا معمول بن چکا ہے۔ ان جوڑوں میں ہم جنس پرست
مردوں کے ساتھ ساتھ ہم جنس پرست خواتین بھی شامل ہیں۔ برطانیہ نے ہم جنس
پرست مردوں اور عورتوں کو باہم ’’شادی‘‘ کرنے کا قانون ’’سول پارٹنرشپ‘‘
دسمبر 2005ء میں بنایا تھا۔ اس وقت دنیا بھر کے 113ممالک میں ہم جنس پرستی
کو قانونی تحفظ حاصل ہے، جن میں مالی، اردن، ترکی، تاجکستان، کرغزستان،
بوسنیا اور آزربائیجان جیسے مسلمان ممالک بھی شامل ہیں۔ 76ممالک میں یہ عمل
غیرقانونی ہے۔ ماہرینِ عمرانیات کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرستی کا کوئی ٹھوس
جواز نظر نہیں آتا کیوں کہ اس کا سب سے بڑا نقصان کسی مذہب یا مسلک کو نہیں
بلکہ براہ راست انسانیت کو ہے۔
ایک طرف یہ قبولیت ہے اور دوسری طرف ان مکروہ افعال سے مکمل چشم پوشی، جیسی
ہمارے یہاں ہے۔ پاکستان میں بھی اگرچہ ہم جنس پرستی قابل تعزیر جرم ہے لیکن
اب کچھ غیرملکی سفارت کار ہم جنس پرستی کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ اسلام کی رو
سے ہم جنسی پرستی ایک گناہ ہے اور اس کے لیے سزائیں موجود ہیں، اس سب کے
باوجود پاکستان میں ہم جنس پرستوں کی بڑی تعداد موجود ہے، جن میں خواتین
بھی شامل ہیں اور بڑھتی ہوئی بے راہ روی کے باعث ایچ آئی وی ایڈز کی بیماری
میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں ایچ آئی وی ایڈز کے 56 ہزار مریض موجود
ہیں۔
میں جس زمانہ میں کالج کی طالبہ علم تھی اس زمانے میں کالج کی سطح پر ایک
گروپ باقاعدہ اس حوالے سے اپنا کام کرتا تھا۔ میں اپنے کالج کی ہیڈ سی آر
تھی۔ اکثر ان لڑکیوں کو قابلِ اعتراض حالت میں پکڑا گیا اور کالج انتظامیہ
کے سپرد کیا گیا۔ لیکن چوں کہ اس وقت میں خود ان باتوں سے بہت زیادہ واقف
نہیں تھی تو میرے لیے یہ اتنا اہم موضوع نہیں تھا۔ ہوتا یوں ہے کہ ہم اپنی
گھر کی بیٹیوں پر کچھ خاص پابندیاں عائد کرتے ہیں کہ انھیں جنس مخالف سے کس
حد تک دور رہنا چاہیے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اپنی سہیلیوں سے ملنے یا ان کے
ساتھ رابطہ کس حد تک ہونا چاہیے اکثر لڑکیوں کو یہ ہی علم نہیں ہوتا کہ وہ
جو کررہی ہیں وہ غلط ہے یا گناہ ہے ان کے نزدیک کسی مرد سے تعلق تو گناہ
ہوسکتا ہے لیکن کسی عورت سے تعلق گناہ نہیں، اور یہ سب نہایت نارمل انداز
میں چل رہا ہوتا ہے، یعنی انھیں علم ہی نہیں ہوتا کہ یہ غلط عادت عمر بڑھنے
کے ساتھ ساتھ ان میں پختہ ہوتی جائے گی اور پھر باقاعدہ ایک نفسیاتی عارضہ
بن کر سامنے آئے گی۔ ماں باپ کسی بھی صورت میں یہ نہیں جان پاتے کہ ان کی
بیٹی کسی نفسیاتی عارضے کا شکار ہوچکی ہے۔ اکثر نتائج شادی کے بعد سامنے
آتے ہیں۔ اس عارضے کا شکار فرد مخالف جنس سے تعلق رکھنے والے اپنے شریکِ
حیات سے مطمئن نہیں ہوپاتا، پریشانیاں عمر بھر کا روگ بن جاتی ہیں۔
ہمارے ملک میں اکثریت دینِ اسلام کے پیروکاروں کی ہے۔ اسلام وہ مذہب ہے جو
جسمانی روحانی قلبی اور فکری طہارت کا درس دیتا ہے اور اس کا مقصد ایک
باحیا، معاشرے کی تشکیل ہے۔ قرآنِ کریم میں بے حیائی کے کاموں سے دور رہنے
کی تلقین کی گئی ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں بھی بار بار اس کا ذکر ملتا ہے۔
اسلام میں بے حیائی بے راہ روی اور فحش باتوں اور اقدامات سے نہ صرف روکا
گیا ہے بلکہ اس کی باقاعدہ سزا بھی تجویز کی گئی ہے۔ ظاہر ہے جب تک سزا کا
عنصر نہیں ہوگا تب تک برائی کا خاتمہ لفاظی کا سوا کچھ نہیں۔ ہمارا مسئلہ
تو یہ ہے کہ ہم مان ہی نہیں رہے کہ ہمارے آس پاس پرائی پھیل چکی ہے۔
ہمارے یہاں ہم جنس پرست خواتین کے منظم گروہ اپنی تقریبات منعقد کررہے ہیں،
جہاں ایسی خواتین کو خوش آمدید کہا جاتا ہے جو اس گناہ میں اپنا حصہ ڈالنا
چاہتی ہوں۔ بہت سے لوگوں کو میری تحریر بری لگے گی لیکن ایسی بہت سی
حقیقتیں ہیں جو ہمارے معاشرہ میں اپنا وجود رکھتی ہیں، جن سے ہم نظریں نہیں
چُرا سکتے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہ گھناؤنی حرکتیں انسان کی آزادی کے نام پر ہوتی
ہیں، اور اسی نام پر انھیں تحفظ دیا جاتا ہے، لیکن آزادی کے علمبردار یہ
بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ انسان جب حیوانیت کی حدود کو پار کرگیا ہو تو اس
کے لیے لفظ انسانیت ہی موزوں نہیں رہتا سو آزادی کا نعرہ کیسا؟ کھلے عام بے
حیائی کے کاموں کی حمایت کرنا عجب تماشہ ہے۔ اس برائی سے آنکھیں چُرانے یا
اسے آزادی سمجھنے والے اس بات سے بے خبر ہیں کہ اگر برائی کو نہ روکا گیا
تو یہ تماشہ ان کے گھروں میں بھی ہوسکتا ہے۔ پھر شاید انھیں خود برا لگ رہا
ہو۔ عقل ہوش اور دماغ رکھنے کے باوجود برائی کو برائی نا سمجھنا خود فریبی
کو سوا اور کیا ہے؟ |