پاکستان اوربھارت کے درمیان 1960ءمیں دریائے سندھ
اوردیگردریاؤں کا پانی منصفانہ طورتقسیم کرنے کیلئےسندھ طاس معاہدہ طے پایا
تھا جس میں عالمی بینک بطورضامن شامل تھا ۔معاہدے کے تحت آٹھ کروڑروپے کے
عوض بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا
زیادہ پانی ملے گا یعنی اس کا ان دریاؤں پر کنٹرول زیادہ ہو گاجبکہ جموں و
کشمیر سے نکلنے والے مغربی دریاؤں چناب اور جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی
پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔اگرچہ یہ معاہدہ برقرار ہے لیکن
دونوں ملکوں ہی کے اس پر تحفظات رہے ہیں اور اب تو اس معاہدے کو جاری رکھنے
کے حوالے سے شدید خدشات سامنے آگئے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ
کشیدگی کے تناظر میں نریندر مودی کی زیر صدارت ایک اجلاس میں سندھ طاس
معاہدے کو ختم کرنے سے متعلق معاملات پر غور کیا گیا لیکن فی الحال اجلاس
میں کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔
پاکستان کا الزام رہا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سندھ طاس معاہدے
کی مبینہ خلاف ورزی جاری ہے اور بعض منصوبے پاکستان کو مستقبل میں اس کے
حصے کے پانی سے محروم کر دیں گے لیکن بھارت ان الزامات کو مسترد کررہا ہے
اور بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ جن آبی منصوبوں پر وہ کام کر رہا ہے وہ
دراصل پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ بہتے پانی سے بجلی پیدا
کرنے کے منصوبے ہیں جو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں جبکہ عالمی آبی
ماہرین کے مطابق اگلے تین سالوں میں پانی کے معاملے میں مکمل طورپربھارت کے
رحم وکرم پرہوگااوربھارت پچھلی پانچ دہائیوں سے پاکستان کوخشک سالی اورقحط
میں مبتلاکرکے اس کی زراعت کوتباہ کرنے کے منصوبے پرعمل پیراہے۔ لیکن یہ
بھی حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کے سیاستدانوں نے جس مجرمانہ سستی ،غفلت
اوربھارت جیسے مکار دشمن کاساتھ دیاہے،اس کی وجہ سے آج ملک ایک ایسے ہولناک
آبی بحران کی طرف بڑھ رہاہے،ہمارے ماہرین اس کی رپورٹس کے مطابق اگلے سات
سال تک اگرکوئی متبادل بندوبست نہ ہوسکاتوپاکستان کو خاکم بدہن شدیدترین
قحط کی بربادی سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔
بین الاقوامی آبی ماہرین کی رپورٹس کے مطابق پاکستان دنیا کے ان ممالک کی
فہرست میں شامل ہو چکا ہے جہاں تیزی سے پانی کی کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ
یہاں کی زیادہ تر آبادی اور معیشت کادارومدارنہری پانی سے وابستہ زراعت
پرہے۔اس بات کویوں بھی بیان کیاجاسکتاہے کہ پاکستان میں زراعت کی مجموعی
پیداوارکا 90 فیصد حصہ یہاں کے نہری پانی کامرہون منت ہے۔ اگر ہم صرف صوبہ
پنجاب کی بات کریں تو اس صوبے کی زرعی معیشت میں دریاں کے پانی کو بنیادی
حیثیت حاصل ہے۔ پنجاب میں زرعی شعبہ کا حصہ صوبے کی کل آمدنی کا بیس فیصد
سے زائدہے جبکہ یہ شعبہ یہاں کی 45فیصدآبادی کو روزگار بھی مہیا کر رہا ہے۔
ہمارے ملک کا نہری نظام دنیا کے بڑے نظاموں میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے جسے
اس وقت بہت سارے مسائل درپیش ہیں جن میں دستیاب پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے
ڈیمز کی کمیابی، پانی کی بڑھتی ہوئی کمی، نظام آبپاشی کی زبوں حالی، دریاؤں
میں پانی کے بہا ؤمیں بہت زیادہ کمی بیشی، پانی کی ترسیل اور تقسیم کا غیر
مناسب انتظام،دن بدن بدلتی ہوئی ماحولیاتی صورتحال اور ضروت سے کم مالی
وسائل کی دستیابی شامل ہیں۔
پاکستان کی زراعت لوگوں کیلئے روزگار کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریات زندگی پوری
کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہیاور یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس شعبے
کی اہمیت مستقبل میں اور بھی زیادہ ہو جائے گی۔ ملک میں زرعی انقلاب کی
بدولت پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی،
ترقی کی رفتاراورغذائی خود کفالت کے حصول میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
پاکستان میں زرعی شعبے کی ترقی کو دو اہم مشکلات، کاشتکاری کے لئے اچھی
زمین کی کمی اور زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصلات کی بے دریغ کاشت کا
سامنا ہے۔ پانی کی کمی کا یہ مسئلہ زرعی پیداوارکی کمی کاباعث بنتاہے چاہے
فصلوں کوتھوڑی دیرکیلئے ہی خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے۔ فی الوقت تیزی سے
بڑھنے والی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہمیں پانی کے مزید
وسائل درکار ہیں اوراگر اس ضمن میں فوری اقدامات نہ کئے گئے توخاصی پریشان
کن صورتحال کاسامنا بھی کرناپڑسکتاہے۔ پانی کے وسائل میں بہتری لانے
کیلئےناگزیر ہے کہ فوری طورپردستیاب پانی کی موثرمینجمنٹ کویقینی
بنایاجائے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سارے علاقوں کو پانی کی شدید
قلت کاسامنا ہے جبکہ دوسری طرف کئی علاقوں کوسیم اورتھورنے ناقابل کاشت
بنارکھاہے۔اس کے علاوہ ہمارے شہری علاقوں اورصنعتی شعبے کوبھی پانی کی قلت
کاسامناہے جبکہ ہماری فی کس پانی کی شرح بہت تیزی سے گرتی جارہی ہے۔ اگر
حالات کا رخ نہ موڑاگیاتوخدانخواستہ پاکستان بہت جلد ان ممالک کی فہرست میں
شامل ہوجائے گاجن کی بدحالی کی ذمہ داری پانی کی کمی پر عائد ہوتی ہے۔
ملک میں مستقل بنیادوں پرترقی کاعمل شروع کرنے کیلئےضروری ہے کہ ہم نہری
پانی ذخیرہ کرنے کیلئےضرورت کے مطابق ڈیمزتعمیرکریں۔اس سلسلے میں حکومت
نےپوٹھوہاراورشمالی علاقہ جات میں کئی مقامات کی نشاندہی کررکھی ہے جہاں
پرمیگاڈیم تعمیرکرکے دریائی پانی کو ذخیرہ کیاجاسکتاہے۔اس پانی سے نا صرف
زراعت کوفروغ ملے گابلکہ عوام کوسستی بجلی بھی میسرآئے گی جس سے معیشت
کوتقویت ملے گی۔ داسوڈیم اوربھاشاڈیم کی تعمیربھی ملکی ترقی میں انتہائی
اہمیت کی حامل ہے تاہم کالاباغ ڈیم کی تعمیرملکی ترقی میں ایک سنگ میل ثابت
ہوگی۔اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ میگاڈیمزکی کمی خصوصاًکالا باغ ڈیم نہ
ہونے کے سبب سالانہ30 سے35ملین ایکٹر فٹ پانی سمند رمیں جارہاہے۔ ایک
اندازے کے مطابق پنجاب میں ایک ملین ایکڑ فٹ پانی سے ایک ارب ڈالر مالیت کی
پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ کالا باغ ڈیم نہ ہونے کے سبب ایک جانب مون سون سیزن
کے دوران انتہائی قیمتی میٹھاپانی سمندرمیں گرکر ضائع ہوجاتاہے جبکہ دوسری
جانب کسان ضرورت کے اوقات میں اپنی فصلوں کیلئے پانی کی کمی کاشکارنظرآتے
ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان مخالف جذبات کے حامل چندعاقبت نااندیش افرادکی ریشہ
دوانیوں اورغیر ذمہ دارانہ بیانات کے سبب ملک میں کالاباغ ڈیم کی تعمیرکے
حوالے سے ہم آہنگی کافقدان شدت اختیار کرچکاہے جس کی وجہ سے مذکورہ ڈیم کی
تعمیرطویل عرصے سے التوا کاشکارہوچکی ہے حالانکہ صوبائی تعصب سے
بالاترلوگوں خصوصاًانجینئرزکااس بات پراتفاق ہے کہ کالا باغ ڈیم کی
تعمیرجلدازجلدہوجانی چاہیے کیونکہ طوالت کے سبب ڈیم کی تعمیرکاتخمینہ دن
بدن بڑھتاچلاجا رہا ہے اوردریائی پانی ضائع ہونے سے زرعی معیشت کمزورہوتی
چلی جارہی ہے۔ مذکورہ بالاحالات کے تناظرمیں ہمیں قومی سوچ کواپناناہوگا
اورایک مربوط حکمت عملی کے ذریعے اپنی کوششوں کوتیزکرناہوگاتاکہ دریائی
پانی کوضیاع سے بچاکرملکی ترقی کی خاطر استعمال میں لایاجاسکے۔
بائیس کروڑپاکستانیوں کواس سنگین بحران سے بچانے کیلئے پاکستان کے چیف جسٹس
ثاقب نثار نے بابارحمتے کاکرداراداکرتے ہوئے اس کابیڑہ اٹھایاہے اوراب
عمران خان نے بھی ڈیم کی اہمیت پرزوردیتے ہوئے سیاستدانوں کی غفلت کااعتراف
کرتے ہوئے چیف جسٹس کے کردارکرسراہتے ہوئے پاکستانی عوام کوڈیم فنڈزمیں بڑھ
چڑھ کرحصہ ڈالنے کی اپیل کی ہے۔ عدلیہ کے سربراہ کا ملک کے اتنے بڑے اوراہم
مسئلے کی طرف متوجہ ہونایقیناًایک انتہائی نیک شگون ہے،بظاہریہ عدالت عظمیٰ
کے دائرہ کارسے باہرکامعاملہ ہے لیکن اگرپاکستان کے آئین میں بنیادی حقوق
کے ابواب کودیکھاجائے تویہ واقعی ان بہت سے انسانی،شہری اوربنیادی حقوق میں
سے ایک اہم معاملہ ہے جس کی جانب ماضی میں کبھی بھی انسانی حقوق کی
دعویداراین جی اوزنے اس طرف توجہ کی اورنہ ہی عدالت عظمیٰ کوادھردیکھنے کی
فرصت ملی۔۔بدقسمتی سے اعلیٰ عدالتیں بھی صرف آئینی نوعیت کے ان ایشوزتک
محدودرہیں جومقتدرطبقوں کے اقتدارومفادات سے بالواسطہ یا بلا واسطہ جڑے
ہوتے تھے لیکن اب عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے بابارحمتے کاکردارمنتخب کرکے
عام آدمی کیلئے باآسانی دستیابی اورزرعی ضرورتوں کیلئے بلاتعطل فراہمی اہم
سمجھی ہے اورڈیم کی مخالفت پر آرٹیکل 6عائدکرنے کی تنبیہ کرکے ان
مفادپرستوں کی زبان کولگام دینے کی کوشش کی ہے جنہوں نے ماضی میں کالاباغ
ڈیم کی مخالفت میں ہندو بنئے کی زبان استعمال کی تھی۔چیف جسٹس کی اس
پکارپرعوامی حلقوں میں بالعموم خوشی کااظہارکیاجس کی بعدازاں ڈیم بنانے کی
مہم کی حکومت نے بھی تائیدکااظہارکیاہے۔
اس بحث کے جوازاورعدم جوازکیلئے دونوں طرف استدلال ہوسکتاہے خصوصاًجب بہت
سی جماعتوں نے ڈیموں کی مخالفت کواپنی انتخابی کامیابیوں کاذریعہ
بنالیاہوحتیٰ کہ کالاباغ ڈیم کی مخالفت کواپنے لئے زندگی اورموت کامعاملہ
قراردے لیاہے،صرف یہی نہیں کالاباغ ڈیم کی فطری حامی جماعتوں نے بھی اپنی
سیاسی کامیابیوں کے ترازومیں تولنے کے بعداس سے صرف اس لئے دست کشی
اختیارکرلی تھی کہ یہ ایشوان ان کیلئے سیاسی خسارے کاباعث بن سکتاتھا۔واقعہ
یہ ہے کہ سیاسی ضرورتوںکیلئے ہرسطح اورہرجگہ کوچھولینے کوتیاررہنے والی
سیاسی جماعتوں نے کالاباغ ڈیم کو پاکستان میں عملاً ''ہولوکاسٹ''بنادیاہے
کہ جواس ڈیم پربات کرے گاوہ قابل گردن زنی ہوگا،یہی وجہ تھی کہ جنرل مشرف
جیسا فاسق کمانڈوبھی اپنے اقتدارکوطوالت دینے کیلئے کالاباغ ڈیم کوبھاری
پتھر سمجھ کراس میدان سے بھاگ گیا جبکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیرپرمیں نے اپنی
پوری ٹیم کی معاونت سے اس قومی پراجیکٹ کوقومی فریضہ سمجھتے ہوئے ڈیڑھ سال
شب وروزمحنت کرکے دودرجن سے زائدٹیکنیکل اعتراضات دوربھی کردیئے اورباقاعدہ
طورپرتمام معترضین آبی ماہرین کے پاس مخالفت کوکوئی جوازنہیں بچا۔
اب چیف جسٹس کی طرف سے اس ڈیم پرآوازیں اٹھنے پرنئے سرے سے مفادپرست اپنی
سیاست کو چمکانے کی کوشش کررہے ہیں۔اس پس منظر میں اگردیکھاجائے تویہ دعویٰ
شائدغلط نہ ہوکہ چیف جسٹس کی طرف سے ڈیم بنانے کے حق میں شروع کی گئی آگہی
مہم اورڈیم سازی کیلئے فنڈ ریزنگ کی اپیل تقریباً دوماہ میں سست ہوگئی
توشائدغلط نہ ہوگابلکہ حقیقت یہ ہے کہ چیف جسٹس کی اس مہم کامضحکہ خیزسیاست
اورصحافت کی سطحوں پربھی اڑانے کی کوشش کی ،ڈیم سازی مہم کی راہ میں روڑے
اٹکانے کابھی ماحول بنایاجارہاہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس امرکوبھی
مدنظررکھاجائے کہ پانی کی قلت ایک بحرانی شکل اختیارکرنے کی بات ماضی کے
مقابلے میں کہیں زیادہ سنگینی کی مظہرہے اورایک غیرمعمولی صورتحال درپیش
ہونے جارہی ہے جس کاآج سے بارہ سال پہلے ہم نے اپنی رپورٹ میں خطرات کی
نشاندہی کی تھی،اس لئے ایک غیرمعمولی چیلنج سے نمٹنے کیلئے بھی غیرمعمولی
اہم اورکٹھن حل درکارہے۔
ان دنوں یہ حقیقت توروزِروشن کی طرح ہم سب کے سامنے موجودہے کہ کراچی
،اسلام آباداور کوئٹہ سمیت دیگرشہروں میں پانی خریدکرہی نہیں پیاجارہابلکہ
ایک مستقل مہنگے داموں زندگی گزارنے کیلئے ضروری ہوچکاہے اوراب ہرخاندان اس
پرماہانہ سینکڑوں نہیں ہزاروں روپے کا بوجھ پڑچکاہے۔ دوکانوں، دفتروں،
بازاروں اوردیگراداروں میں پینے کاپانی اس کے علاوہ اخراجات کی اہم مدبن
چکاہے۔پانی کے صاف نہ ہونے کامسئلہ بھی وطن عزیزکے کسی خاص علاقے تک
محدودنہیں رہا۔بہترین انتظامی صلاحیتوں اورعوامی خدمت کاویژن رکھنے کے
دعویدارسابقہ حکومت کے زیر نگین رہنے والے صوبہ پنجاب کے دارلحکومت میں
حالیہ برسوں میں بڑھتے ہوئے پانی کے کاروبارسے صاف دیکھاجا سکتاہے کہ ایشو
بوجوہ اس صوبائی حکومت کی بھی ترجیح نہ تھا۔ اس لئے نجی شعبے کوپانی فراہم
کرنے کے سستے یونٹ اورفلٹر لگا کربھاری داموں شہریوں کوفروخت کرنے کاموقع
رہا،باقی صوبوں کاحال بھی پنجاب سے بہترنہیں ہے بلکہ پنجاب سے بدترکی
رپورٹس سامنے آچکی ہیں۔
ملکی وسائل بری طرح بربادہورہے ہیں، لیکن حکومتوں،قیادتوں اورعوامی ہمدردی
میں گھلتی چلی جانے کاتاثردینے کے باوجوداس جانب کسی نے توجہ نہیں کی
اورمجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیاہے جس سے ملک میں ہیپاٹائٹس کی بیماری میں دن
بدن اضافہ ہوتاجارہاہے۔ان تمام حکومتوں کی مایوس کن کرکردگی کے ناک کے نیچے
آج بھی ملک کاپانی کس قدر بیدردی سے ضائع ہو رہاہے۔پانی کے ذخائرمیں کمی کی
نوبت کایہ حال ہوگیاہے کہ پچاس کی دہائی میں ایک پاکستانی کوپانچ
ہزاردوسوسات کیوسک لٹرپانی دستیاب تھاجبکہ آج اس کی شرح خطرناک حدتک کم
ہوکرآٹھ سوکیوسک لٹررہ گئی ہے۔اس صورتحال میں صوبائی ومرکزی حکومتیں بجائے
اس کے پانی کی قلت کے چیلنج سے نمٹنے کااہتمام کرتیں،غیرشعوری طور پر
کاروباری کمپنیوں کوپانی سے سونابنانے کیلئے کھلاموقع دے دیا۔
زیرزمین خشک ہوتے پانی کے سوتوں کے باوجودحکومت کی ان کمپنیوں کیلئے
دریادلی سے فائدہ اٹھانے میں ایک غیرملکی کمپنی بھی خوب فائدہ اٹھاتی رہی
جبکہ پاکستان میں موقع شناس طرزکے لوگوں نے بھی پاکستانیوں کی جیبوں پرہاتھ
صاف کرنے کیلئے اس صورتحال کواپنے لیے موقع غنیمت جانا،نتیجتاً''منرل
واٹر''تیارکرکے مہنگے داموں فروخت کرنے کرنے والی کمپنیوں کی بھرمارہونے
لگی ۔یہ کام استیزی اورسرعت سے ہوتارہاکہ اس پر سوالات اٹھنافطری نظرآتاہے۔
کیا مرکزی وصوبائی حکومتوں نے خود ان کمپنیوں کیلئے سہولت کاری کی؟اگرکی
توکیوں؟کیاپانی کی قلت سے فائدہ اٹھانے والوں میں ان کمپنیوں کے علاوہ
اربابِ بست وکشادبھی شامل تھے؟تاہم یہ ماننا پڑے گاکہ ان کمپنیوں نے موجودہ
خلاء پر کیا اور بطاہرپاکستان کے''افورڈ''کرسکنے والے شہریوں کوساف پانی
پینے کاموقع بھی دیااورساتھ ہی ساتھ وہ پاکستان کے واٹرایشومیں اسٹیک
ہولڈربن گئیں جبکہ مسئلہ یہ رہاکہ مرکزی اوصوبائی حکومتوں کی توجہ اس جانب
کم ہی گئی کہ عام آدمی کمپنیوں سے مہنگاپانی کیونکرخریدکرپی سکے گا۔صوبہ
پنجاب میں صاف پانی کمپنی حکومتی سطح پربنائی گئی لیکن اس صاف پانی کمپنی
کاصاف پانی عام آدمی تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کمپنی کی اپنی عدم شفافیت
عوام کے سامنے آگئی اور ماحول گدلاگدلاساہوگیا۔
بدقسمتی سے پاکستان کے زرعی شعبہ کاپانی کی کمیابی سے دوچارہونے کامعاملہ
بھی نیانہیں بہت پراناہے۔پانی کی فی کس کمی کازراعت پربھی براہِ راست
اثرمرتب ہواہے۔ یہی وجہ ہے کہ ستر برسوں میں بڑے زرعی ملکوں میں زرعی شعبہ
جوئے مآب کی طرح گھٹ کے رہ گیاہے۔بجائے اس کے آبادی میں اضافے کی طرح زرعی
پیداوارمیں اضافے کے مواقع بڑھائے جاتے ،عالمی تجارت میں اپناپوراشیئرلینے
کیلئے اپنے زرعی پوٹینشل کوبروئے کارلانے کیلئے آبے وسائل کا بھرپوراستعمال
کیاجاتا،اس اہم مسئلے سے کبوترکی طرح آنکھیں بندکرلی گئیں ۔اسی کانتیجہ اس
صورت میں بھی سامنے آتارہاکہ گاہے بگاہے گندم کی ضرورتوں کیلئے بھی سامراج
کی طرف دیکھناپڑتارہا۔اب یہ حالت ہے کہ سبزیاں تک بھارت سے منگوائی جارہی
ہیں۔ باوجوداس کے ہم گندم ،کپاس،چاول اوردوسرے اہم غلے کے علاوہ
سبزیوں،پھلوں کے حوالے سے کئی ممالک کی ضروریات پوری کرتے ،ہم دوسروں کے
دست نگربن گئے۔دوسروں کازرمبادلہ بڑھانے کیلئے ہمارا اپناقیمتی زرمبادلہ
گھٹنے لگااوردوسروں کی برآمدات اورہماری درآمدات بڑھنے لگیں۔تجارتی خسارہ
فطری نتیجہ ہونا چاہئے تھاجوآج ہم بھگت رہے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ چندبرسوں کے بعدسیلابی تباہ کاریوں کابھی ہمارے ملک کے
لاکھوں غرباء شکارہوجاتے ہیں۔ان کے گھرجمع پونجی کے ساتھبہہ جاتے ہیں۔پوری
بستیاں،ڈھورڈنگر اور کھڑی فصلیں سب سیلاب کی نذرہوجاتی ہیں۔جانی نقصان اس
کے علاوہ ہوتاہے مگرہمارے سیاسی قائدین ہیں کہ اس کے باوجودکبھی ٹس سے مس
ہونے کوتیارنہیں ہوئے۔اس لئے اب جبکہ ملک کی اعلیٰ عدالت کی طرف سے اس اہم
قومی وعوامی ضرورت کیلئے متحرک ہونے کااقدام سامنے آیاتوپھر مخالفانہ حکومت
آوازیں ابھرنے لگیں ہیں۔ایک کامل تکنیکی قومی ضرورت اورعوامی بقاکے معاملے
کواپنی سیاستون کی نذرکرنے کاکھیل اس اکیسویں صدی میں دھڑلے سے جاری
ہے۔حدیہ ہے کہ ملک کے باشعورطبقات بھی عملاًان سیاسی دوکانداروں اور سودا
کاروں کے سامنے بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں۔عوامی پسماندگی ،غربت اورلاچاری
پرایک طرح سے سیاستدانوں کی طرح آٹھ آٹھ ؤنسوبہانے کاتاثردینا،ان کے جمہوری
حقوق کیلئے جانیں قربان کرنے کے دعوے دارہونا اور دوسری طرف انہیں
بھوکااورپیاسامرتے دیکھتے رہناحیرت انگیزہے۔
پاکستان کے ازلی دشمنوں کی طرف سے تویہ چال سمجھ میں آتی ہے ،وہ خودپاکستان
کے حصے کے دریاؤں کوبھی اپنے تصرف میں لانے کیلئے عالمی معاہدوں اورقوانین
کی پرواہ نہیں کرتے لیکن پاکستان کے اندرسے پاکستانیوں
کوپیاساماردینے،کھیتوں کواجاڑدینے کادرپردۂ مؤقف سمجھ سے بالاتر ہے۔ماضی
میں یہ سب ہوتارہاہے کہ عوامی شعورکامسئلہ تھا، پروپیگنڈہ کرکے عوام کے
ذہنوں کوقابوکیاجاتاتھالیکن اب یہ ممکن رہے کہ سوشل میڈیاکی تمامترغیرذمہ
داری کے باوجوداس کی یہ خوبی ماننے کے لائق ہے کہ اس پربہت سے لوگ اپنے
ضمیرکی آوازبلندکرتے ہیں۔پاکستان میں ڈیموں کوتعصب کی زدمیں لانااوران کی
تعمیرمیں رکاوٹ ڈالنانئی نسل کوقحط اور دشمنوں کے رحم وکرم پرچھوڑنے کے
مترادف ہوگالہندا جسٹس پاکستان نے جوبیڑااٹھایاہے اسے درمیان میں
چھوڑدیناپاکستان کے خلاف فیصلہ دے دینے کے برابرہوگا۔
ضروری ہوگاکہ چیف جسٹس آئین کے آرٹیکل کواس حوالے سے ضروردیکھیں کہ
آیاپاکستان کے کروڑوں عوام اورریاست پاکستان کوڈیم نہ بناتے ہوئے سیلابوں
اورقحط کے حوالے کرنا واقعی ملک سے غداری کرنے کے زمرے میں آتا ہے
یانہیں۔اگرواقعی آئین کی خلاف ورزی اور ملک دشمنی ہے توماضی کے گھناؤنے
کرداروں کوبھی کم ازکم عوام کے سامنے لانے کی ضرورت ہوگی اورآج کے آئین
اورعوام کے سامنے لانے کی ضرورت ہوگی اورآج کے آئین اورعوام شکنوں کوعدالت
کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہوگی،نیزاس بارے میں بھی اگرممکن ہوتوایک جے
آئی ٹی کی تشکیل دی جائے جواس امرکاجائزہ لے کہ کیاواقعی بیرونی قوتیں
خصوصاًبھارت پاکستان میں ڈیم بنانے کی مخالفت کے ایجنڈے میں کوئی کردارادا
کرتا رہاہے،نیزیہ کہ پاکستان میں ڈیم نہ بننے کاسب سے زیادہ فائدہ کس
کوہوسکتاہے اورنقصان کس کاہوگایاہوتارہے گایاہوتارہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ
اگرماضی میں کچھ عناصرکالاباغ ڈیم کی مخالفت کیلئے عملاًادھارکھائے نظرآتے
تھے اوراب کچھ عناصرکودیامیربھاشاڈیم کی تعمیرکی مخالفت کاجوازفراہم
ہوسکتاہے بلکہ کچھ عناصرمتحرک بھی ہوگئے ہیں۔شمالی علاقوں میں گلگت
اورچیلاس کے پاس دہشتگردی کے اکا دکا واقعات میں ملوث عناصر کواس پہلوسے
بھی نظراندازنہیں کیاجاناچاہئے۔اسی طرح قبائلی علاقوں میں تعصب کی
لہرکوابھارنے کی کوشش مہمندکے آڑے آسکتی ہے۔اس تناظرمیں ڈیموں کے حق میں
مہم اورفنڈریزنگ کیلئے ایسی مؤثرمہم کی ضرورت ہے جیسی شوکت خانم اسپتال
کیلئے چلتی رہی ہے،کم ازکم موجودہ حکومت کے پاس پوری صلاحیت ہے بشرطیکہ یہ
چاہے۔
یہ خوش آئندبات ہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے سابق وزیربجلی وپانی
خواجہ محمدآصف کی طرف سے ڈیموں کی تعمیرکے حق میں ایک قرار دادآنے پراسے
منظورکیاگیاہے۔مسلم لیگ ن اپنے مشکل ترین دورسے گزرہی ہے لیکن یہ اقدام اس
کی بالغ نظری کااظہارتوہے مگرکافی نہیں ہے ۔ایک قومی اوربڑی جماعت ہونے کے
ناطے اس کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے ، ماضی میں اپنے سیاسی مفادات یامجبوریوں
کی بناء پرڈیموں کی طرف مسلم لیگ ن کانہ آسکنابہرصورت اس کی اصل شناخت کے
شایان شان نہ تھا۔اب انہیں ماضی کی کوتاہی کے ازالہ کیلئے آگے بڑھ کرڈیم کی
تعمیرمیں اپنے ووٹروں کواس کارخیرمیں حصہ لینے کیلئے آمادہ
کرناہوگا۔بطوراپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کی جائزاورتعمیری مخالفت ان کاحق ہے
جس سے انہیں محروم نہیں کیاجاسکتا۔عدالت کی طرف سے شروع کی گئی ڈیم
فنڈریزنگ مہم سے خودکودوررکھناکسی بھی سیاسی جماعت کا خود سے دوررکھنے کی
صورت میں ان کے سیاسی مستقبل کوتباہ کرسکتاہے،اس لئے ڈیم کی مدمیں کوئی بھی
اعتراض اٹھاناملک کی تعمیروترقی کی دشمنی سمجھاجائے گا۔
کراچی ،اسلام آباد،کوئٹہ اوردیگرشہروں میں پانی کی کمیابی ایک بہت بڑامسئلہ
بنتاجارہاہے۔اندرون سندھ پانی کے مسائل روزافزوں مشکلات میں اضافہ کاسبب
بنتے جارہے ہیں،بلوچستان میں بارشیں نہ ہوں توپانی کی بوندبوندقیمتی ہوجاتی
ہے۔گوادرمیں پانی کی عدم دستیابی کامسئلہ آئے روزسامنے آتاہے۔لاہورمیں پانی
کی زیرزمین موجودگی آٹھ سو فٹ سے نیچے جاچکی ہے۔ دریائے راوی عملاً ایک
نالے کی شکل ختیارکرچکاہے ،باقی شہروں اور قصبوں کی حالت بھی زہادہ مختلف
نہیں ہے۔ کھیت کھلیان پانی سے محروم ہورہے ہیں اور کسان پریشان اورمزید
بدحال ہوتے جارہے ہیں۔سالانہ بنیادوں پرتقریباً بیس ملین ایکڑفٹ پانی ضائع
ہوجاتاہے۔بجلی کی کمی اپنی جگہ،تھرمل پرانحصار بڑھ جانے سے عام آدمی کیلئے
بجلی کے نرخ جان لیوا ہوتے جارہے ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں کاچیلنج ایک اژدہے
کی طرح ہماری زندگی کی تمام ؤسائشوں کودھیرے دھیرے نگل رہاہے،ایسے میں ڈیم
بناکراپنی قوم اورملک کوتباہی سے بچانے کی کوشش میں جوبھی حصہ نہ ڈالے
گا،خودتاریخ کی سیاہی ان کے اندھیروں کی گہری کھائیوں میں باعث عبرت بنادے
گی اورڈیم بنانے کی کوششوں میں سرگرم انسانیت کے محسنوں میں شمارہو کر
ہمیشہ کیلئے امرہوجائیں گے۔
موجودہ حالات میں اب انتہائی ضروری ہوگیاہے کہ ہم فی الفور ملک میں بڑے آبی
ذخائر بشمول کالاباغ ڈیم کی تعمیر، صوبوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے
کیلئےاقدامات شروع کیے جائیں تاکہ ملک میں بجلی اور آبپاشی کیلئے پانی میں
کمی کے بحران پرقابو پایاجاسکے۔ کالا باغ ڈیم اوردیگرڈیموں کی تعمیرپاکستان
کی ترقی اوربقاکیلئےناگزیر ہے جبکہ ہماراازلی دشمن ہمسایہ ملک بھارت ہمارے
دریاں پرتیزی سے ڈیم تعمیرکررہاہے جبکہ ہمارے ہاں کالاباغ ڈیم جیسے قومی
منصوبے کوسیاست کی نذرکردیاگیاہے۔ یہاں سازش کے تحت بھارت آبی جارحیت میں
اضافہ کر رہاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کالا باغ ڈیم کے حوالے سے
ملک میں موجود خدشات کو دور کرتے ہوئے قومی اہمیت کے حامل تمام منصوبوں کی
جلد تکمیل کو یقینی بنایاجا ئے۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے
سستی بجلی کے بحران پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ساٹھ لاکھ ایکڑ زمین کو قابل
کاشت بنایا جاسکتا ہے،اس سے خوشحالی کا ایک نیادورشروع ہوگا۔دنیا کے تما م
ترقی یافتہ ممالک اپنے آبی وسائل کی حفاظت کیلئےجدید ٹیکنالوجی کواختیار
کررہے ہیں اورپانی کوزیادہ سے زیادہ دنوں تک ذخیرہ کررہے ہیں مگرہمارے ہاں
ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کے ذریعے ملک کے پچیس سال ضائع کردیئے گئے اورنجانے
مزیدکتنے سال ہمیں اس عذاب کوجھیلناہوگا۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی
کیلئےسنجیدگی سے اقدامات کرنے ہوں گے- |