تحریر: ارم فاطمہ، لاہور
اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ ’’زمانے کی قسم انسان خسارے
میں ہے مگر وہ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے‘‘۔ اور مقام پر ارشاد
فرمایا ’’آپس میں حق بات کی نصیحت اور صبر کی تاکید کرتے رہو‘‘۔ ان آیات کو
مدنظر رکھتے ہوئے معاشرے اور فرد کے باہمی تعلق کے حوالے سے بات کی جائے تو
معاشرے کے ماحول اور فضا کو خوبصورت اور باہمی محبت اور رواداری سے بہترین
بنانے میں فرد مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر معاشرے میں بسنے والے افراد کے
مابین ایک دوسرے کے لیے غزت و احترام ، دکھ سکھ بانٹنے، مصیبتوں میں خیال
رکھنے کا جذبہ پیدار رہے تو معاشرے کی اجتماعی تصویر خوبصورت ابھر کر سامنے
آتی ہے۔
قرآن بھی ایک عام فرد سے اسی اخلاقی کردار کے مظاہرے کا تقاضا کرتا ہے جس
کے مطابق سب انسان ایک دوسرے کو نیک عمل کی تلقین کرتے رہیں اور صبر سے
حالات کو بدلنے کی کوشش کریں۔ ان کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے ہر دور اور
ہر زمانے میں انبیاء بھیجے جاتے رہے۔ہمارے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد صلی
اﷲ علیہ وسلم نے حسن اخلاق کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا ’’میں عمدہ اخلاق کی
تکمیل کے لیے خدا کی جانب سے بھیجا گیا ہوں‘‘۔ قوموں کی تاریخ پر نظر رکھنے
والے عظیم مسلمان ابن خلدون اپنی شہری آفاق کتاب ’’مقدمہ‘‘ میں بتاتے ہیں
’’دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی
ہے جب کہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے‘‘۔
افسوس کے ساتھ آج مسلمان مذہب سے دوری کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت
بھول گئے ہیں۔ بے راہ روی کا شکار ہوگئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان میں اخلاقی
زوال ،بے شرمی و بے حیائی، جھوٹ ، چغل خوری، مکروفریب،غرور و تکبر سرایت
کرگئے ہیں۔ اس طرح دنیا کو تہذیب و تمدن کا درس دینے والی قوم خود غیر مہذب
ہوگئے ہے۔
اخلاقی سماجی ذہنی پسماندگی کا اندازہ لگانے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ
جس ملک کی مسجد میں بیٹھنے والے نمازیوں کو ااپنی آخرت کے بجائے اپنے جوتوں
کی فکر ہو اور فی سبیل اﷲ پانی کی ٹینک کے ساتھ رکھے گلاس کو زنجیر سے
باندھنا پڑے، وہاں لوگوں کی سوچ اور رویے میں تبدیلی لانا انتہائی مشکل کام
ہے۔ ہمارے معاشرے میں تشدد ، غیر رواداری رویے بڑھتے جارہے ہیں۔ جس کی وجہ
سے ہم خود ارد گرد کا ماحول خراب کر رہے ہیں۔ جگہوں کو گندا کر رہے ہیں۔
درختوں کو کاٹ رہے ہیں۔ ایک درسرے کی عزت نفس مجروح کر رہے ہیں۔ شائستگی
میں کمی آتی جارہی ہے۔
ہم ایک تنگ نظر روایتی معاشرے میں رہنے والے لوگ ہیں۔ ہم غلط چیزوں یا عمل
کی اصلاح کرنے کی بجائے جو جیسا ہے جینے دو کے اصول پر کاربند ہیں یا پھر
زیادہ سے زیادہ تنقید کے کٹہرے میں کھڑا کیر کے زبانی جمع خرچ کر لیتے
ہیں۔ہمارا اصلاح کا سبق گھر سے شروع نہیں ہوتا بلکہ ہم ہمیشہ اس کے لیے
دوسروں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ معاشرے
کی حالت زار پر صرف کڑھتے ہیں اور عمل میں صفر۔۔۔۔ ہم جھوٹ بولتے ہیں
کیونکہ باقی لوگ بھی جھوٹ بول رہے ہیں۔
ہم بے ایمانی کرتے ہیں کیونکہ ایماندار کی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم
نا جائز طریقوں سے پیسہ اس لیے کمارہے ہیں کیونکہ معاشرے میں صرف پیسے والے
کی عزت ہے۔ ہم رشوت اس لیے دیتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر کوئی کام ممکن
نہیں۔ہر برائی کا جواز تلاش کرنا ہمارے ایمان کا مضبوط حصہ ہے۔ ہم برائی اس
لیے نہیں چھوڑتے کہ وہ غلط ہے یا گناہ ہے۔ہم اس لیے اسے اپناتے ہیں کہ
معاشرے کے بیشتر لوگ اپنائے ہوئے ہیں۔ ہماری تعلیم نے بھی آنکھیں نہیں
کھولیں کیونکہ ہم تعلیم علم حاصل کرنیکے لیے نہیں بلکہ کمانے کے لیے حاصل
کرتے ہیں۔ ہمارا مقصد معاشرے میں بلند مقام، اونچا اسٹیٹس، ماں باپ کا اور
اپنا نام اونچا کرنا ہے۔
معاشرہ اکائی سے بنتا ہے۔ ہر شخص معاشرے کا حصہ ہے۔ ہم خود کو نہیں ،معاشرے
کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ہر برائی اور خرابی دوسرے میں ہے۔ اس
منفی سوچ کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر فرد اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں میں خرابیاں
اور برائیاں دیکھنے لگتا ہے ، ہم اپنی ذمہ داریوں سے قطع نظر کر کے ، خود
کی گئی برائیوں کا جواز پیدا کرتے ہیں۔ عام فرد نے دیکھا کہ حکمران اور
مقتدر طبقہ کرپشن میں ملوث ہیں تو انہیں بھی جہاں موقع ملا بہتی گنگا میں
ہاتھ دھو لیے۔ جنہیں کہیں انصاف نہیں ملتا ، وہ دوسروں پر ظلم کرنے سے
پیچھے نہیں رہتے۔ تیز رفتار گاڑی چلا کر لوگوں کو مارڈالنے والے ڈرائیور،
کھلے عام رشوت لینے والا ٹریفک کا سپاہی، بد عنوان سرکاری اہلکار، بد دیانت
تاجر ، ان جیسے بے شمار جیتے جاگتے معاشرے کے کردار اپنے دائری اختیار می
سب سے بڑے ظالم ہوتے ہیں۔
ہم سب ذاتی مفادات پر مبنی زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارے سامنے کوئی بڑا اجتماعی
مقصد نہیں ہے۔ دوسری اقوام قوم پرستی اور حب الوطنی کے جذبے سے ، یک جہتی
اور انفرادی و اجتماعی شناخت کے بھرپور احساس سے اپنی بقا تحفظ اور فروغ کے
لیے قربانی دیتی ہیں۔ ان کی زبان ایک ہوتی ہے۔ ان کی تاریخ ایک ہوتی ہے۔ ان
کی تہذیب و ثقافت ایک ہوتی ہے۔ ان کی نسل ایک ہوتی ہے۔ جغرافیہ ایک ہوتا
ہے۔ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم اس سے محروم ہیں۔آزادی کے وقت ہماری زبان،
نسل، تاریخ، تہذیب ، ثقافت، جغرافیہ کچھ بھی ایک نہیں تھا۔ ایسے میں ضروری
تھا قومی تعمیر کے لیے کوئی اجتماعی مقصد سامنے ہوتا، جو اسلام کی صورت
ہمیں پہلے سے حاصل تھا۔
ایسے میں ضروری تھا کہ نعروں کی بجائے ، تعلیم کے ذریعے اسلامی تصورات کو
ذہنوں میں زندہ کیا جاتا۔ معاشرے میں اسلام کے فروغ کو ہدف بنایا جاتا۔
اسلام اور اسلامی شریعت کا درست چہرہ سامنے لایا جاتا۔ آج اسلام ہماری
زندگیوں میں کوئی فعال کردار ادا نہیں کررہا۔ہم خود کو دائری اسلام کا مکیں
بتاتے ہیں ، مگر عملی طور ہمارا ہر دائرہ صوبائی سرحدوں،اور لسانی حد
بندیوں تک محدود ہے۔ ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر اصرار ہے مگر اس کے ساتھ
اپنی فرقہ وارانہ شناخت پر بھی فخر ہے۔ہمارا قومی کلچر کیا ہے؟ ہمیں نہیں
معلوم۔۔ ثقافتی چہرہ کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے۔۔ آزادی کے نصف صدی بعد بھی
ہمارا کوئی قومی شعور اورکلچر وجود میں نہیں آسکا۔
بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
اصل بات یہ ہے ہم بحیثیت مسلمان اپنے مقصد اور نصب العین کو بھلا چکے ہیں
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ توحید کی شکل میں ہمارے ایک قوم بننے کی واحد امید
باقی ہے کیونکہ یہی وہ واحد پہلو ہے جو ہمیں ایک جگہ اکٹھا کر سکتا ہے۔اگر
ہم توحید کے فروغ کو اپنا مشن بنالیں تونہ صرف ہمارے اخلاقی مسائل حل
ہوجائیں گے بلکہ ہم آخرت میں کامیابی کے لیے دین و شریعت پر مکمل کاربند
ہوجائیں گے کیونکہ دین کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ بندوں کو راضی کیے بغیر
رب کو راضی نہیں کیا جاسکتا۔ تبھی ہم اپنے اخلاق و کردار کو بہترین بنانے
کی بھرپور سعی کرتا ہے۔ وہ دوسروں تک حق بات پہنچانے میں دلچسپی لیتا ہے۔
دوسروں کو ان کے فرائض یاد دلانے کی بجائے اپنی ذمہ داریاں یاد رکھتا ہے۔
وہ دنیوی امور پر جھگڑنے کی بجائے آخرت کے لیے فکرمند رہتے ہیں۔آخرت میں
کامیابی کا یہ مقصد جب انسان میں بیدار ہوجاتا ہے تو اس کے لیے اخلاقی
زندگی گزارنا آسان ہوجاتا ہے۔
دین کا ظاہری ڈھانچا بھی فکری اورعملی سطح پر انسان کے اخلاق و کردار کم
سنوارنے میں مددگار ہوتا ہے۔ جیسے کہ خدا کو معبود اور سب سے بڑا ماننے کا
لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم یہ سوچیں گے سب انسان برابر ہیں۔ اچھے عمل کے سوا
کسی کو فضیلت نہیں۔نماز خدا کی یاد دل میں باقی رکھتی ہے اور دوسری طرف
برائیوں سے روکتی ہے۔روزہ خدا کی نعمتوں کی قدر و قیمت کا احساس دلاتا ہے
تو خدائی حدود کی پابندی کی تربیت کرتا ہے۔زکوای خدا کی محبت کے ساتھ مال
ودنیا سے بے رغبتی اور فقراء کی مدد کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔حج اورعمرہ نہ
صرف خدا کے نزدیک لاتا ہے بلکہ ایک معاشرے میں رہتے ہوئے دیگر افراد کے
ساتھ روداری اور سلوک کرنے اور خیال کرنے کا درس بھی دیتا ہے۔ایک دفعہ اسے
اختیار کرنے کے بعد یہ انسان کی فطرت میں شامل ہو جاتا ہے جس کے بعد اس پر
قائم رہنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔
ہم لوگ کثرت سے اپنے معاشرے کے اخلاقی بگاڑ پر گفتگو کرتے ہیں اپنی فکرمندی
کا اظہار کرتے ہیں لیکن ساتھ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ ہم بھی اس
قوم اور معاشرے کے فرد ہیں۔ اس صورتحال میں صرف افسوس کرکے ہم اپنی جان
نہیں چھڑاسکتے۔یہ ہماری مذہبی، قومی، اخلاقی ذمہ داری ہے کہ کم از کم اپنے
اردگرد، اپنی حد تک غلط رویوں کے خلاف جدوجہد کریں۔اپنی ذمہ داری پوری
کریں۔ جو لوگ اپنی قوم اور معاشرے کو بھول کر اپنی ذات تک محدود ہوجاتے
ہیں، صرف زبانی باتوں اور تبصروں پر گذارا کرتے ہیں، تاریخ بتاتی ہے وہ
خسارے میں رہتے ہیں۔ آج ہم بھی اسی خسارے کاشکار ہیں۔ ہمارے معاشرے ،خاندان
اور قومی اداروں میں اس خسارے کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ معاشرہ کس تیزی
سے تنزلی کی جانب جا رہا ہے۔اگر اب بھی ہم نے آنکھیں نہ کھولیں تو ہم اپنی
شناخت کھو دیں گے اور یہ بدترین خسارہ ہوگا۔
|