ماب لنچنگ کے بعد اب پولیس لنچنگ

علی گڑھ کا فرضی انکاؤنٹر اور یوگی جی کی حکومت کی بہادر پولیس
اگر آپ مسلمان ہیں، اترپردیش میں رہتے ہیں اورپولیس کی ریکارڈ میں اگر آپ کے نام کوئی معمولی ساجرم بھی رجسٹرڈ ہے تو پھر یوپی کی بہادر پولیس کے ہاتھوں انکاؤنٹر میں مارے جانے کے لئے تیار رہئے۔ اترپردیش پولیس آپ کو گرفتار کرے گی، چند روز تک اپنی تحویل میں رکھ کر آپ پر ظلم وتشدد کے نت نئے طریقے آزمائے گی اور پھر اس کے بعدمیڈیا کے چندنمائندوں کوبلا کر ان کے سامنے ہی آپ کوگولی مار دے گی۔ جس کے بعد پولیس اسے ’خطرناک‘ انکاؤنٹر قرار دے گی اور میڈیامیں پولیس کی اس بہادری کی تعریف کی جائے گی۔ یہ باتیں میں یوں ہی نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ گزشتہ روز علی گڑھ میں جس طرح دو کم عمر (ایک نابالغ اور ایک بلوغت کو پہونچا ہوئے)نوجوانوں کو میڈیا کے سامنے انکاؤنٹر کے نام پر گولی ماری گئی ہے، اس کے بعد ہرکوئی کہہ رہا ہے۔ اترپردیش پولیس کی اس بہادری کے مظاہرے نے یوگی حکومت کی اس ذہنیت کو پوری طرح اجاگر کردیا ہے کہ حکومت جسے مجرم تصور کرلے، پولیس اسے انکاؤنٹر میں مارڈالنے کے لئے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ چونکہ پولیس کے اس انکاؤنٹر پر سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں، اس لئے اس بار پولیس نے اپنے ’قتل عمد‘ کے عمل کو میڈیا کے سامنے انجام دیا۔

علی گڑھ میں جن دو نوجوانوں نوشاد اور مستقیم کو پولیس نے انکاؤنٹر کے نام پر مارا ہے، ان کے اہلِ خانہ کے اس الزام کو بھی درکنار نہیں کیا جاسکتا کہ پولیس نے ان نوجوانوں کوچار روز قبل ہی گرفتار کرلیا تھا، جس کے بعد انہیں عدالت میں پیش کئے بغیر پولیس لاک اپ میں بری طرح مارا گیا۔ ان نوجوانوں کی عمریں بالترتیب ۱۸؍اور ۲۲سال بتائی جارہی ہیں جبکہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان کی عمریں ۲۲؍اور ۲۵سال تھیں۔ ان پر موٹرسائیکل وموبائیل فون چرانے کا الزام تھا۔ گویا یہ کوئی ایسے مجرم نہیں تھے کہ انہیں انکاؤنٹر میں ماراجاتا۔ لیکن برا ہو اس ذہنیت کا جوگزشتہ ساڑھے چارسالوں سے پور ے ملک میں پروان چڑھ رہا ہے کہ مسلمان کچھ بھی ہوسکتے ہیں، دیش بھکت نہیں ہوسکتے اور جس کی سزا بس موت ہی ہے۔ اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ ہندوتوا وادیوں کی پیدل فوج بھیڑ کی شکل میں کسی کو بھی نشانہ بنادیتی ہے جس کے لئے ماب لنچنگ کی اصطلاح ایجاد ہوچکی ہے۔ علی گڑھ میں جس طرح دو کم عمر مسلم نوجوانوں کو میڈیا کے کیمرے کے سامنے انکاؤنٹر کے نام پر موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے، وہ اب حقیقت کی جانب اشارہ کررہاہے کہ ماب لنچنگ کے پرانے فارمولے کی جگہ پر اب ’پولیس لنچنگ کا علانیہ حکومتی پشت پناہی والا فارمولہ اپنایا جارہا ہے، جس کے قانونی جواز کے لئے بس یہی کافی ہوگا کہ جنہیں انکاؤنٹر میں مارا گیا ہے وہ ’مجرم‘ تھے۔ خواہ ان کا جرم کچھ بھی ہو اور عدالتی مراحل سے گزرنے کے بعد وہ باعزت بری ہی کیوں نہ ہوجائیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اترپردیش میں یوگی راج جسے اپنا مخالف سمجھتی ہے، اسے نہ کوئی قانونی حق حاصل ہے اور نہ ہی اس کی سماج میں کوئی جگہ ہے ۔ یوگی راج میں اترپردیش کی بہادر پولیس اب تک ۱۵؍سو سے زائد انکاؤنٹر کرچکی ہے، جن میں سے زیادہ تر مسلمان، یادو اور دلت برادری لوگوں کو مارا گیا ہے۔ ان تمام مہلوکین میں ایک مشترک بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے ان تمام کو یوگی حکومت اپنا مخالف سمجھتی ہے۔ گویا انکاؤنٹر میں مارے جانے کا جواز کوئی سنگین یا متواترجرم نہیں بلکہ حکومتی نظریات کا مخالف ہونا ہے جس کی پاداش میں پولیس انکاؤنٹر میں مار دے گی ۔

چند ماہ قبل سوشل میڈیا پر ایک آڈیوکلپ وائرل ہوئی تھی جو غالباً کانپور کی تھی۔ اس آڈیوکلپ میں ایک پولیس افسر ایک ممکنہ انکاؤنٹر کے شکار ہونے والے کو یہ مشورہ دیتا ہوا سنائی دیتا ہے کہ انکاؤنٹر سے اگر بچنا ہے تو بی جے پی کے فلاں ایم ایل اے صاحب سے صلح کرلو یا ان کا آشیرواد لے لو۔ یہ کلپ وائرل ہونے کے بعد بی جے پی کے ایم ایل اے صاحب کی جانب سے اس کی وضاحت بھی آئی تھی کہ ہمارا اس انکاؤنٹر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور پولیس نے اس وائرل آڈیوکلپ کی تفتیش کرانے کا اعلان کیا تھا۔ مذکورہ آڈیو کلپ کتنی سچ تھی اور اس میں جن بی جے پی کے ایم ایل اے صاحب کا تذکرہ تھا، ان کی خوشنودی انکاؤنٹر سے بچنے کے لئے کتنی ضروری تھی، اس سے قطع نظر وہ آڈیوکلپ ایک اعلانیہ یا اشاریہ ضرور تھی کہ پولیس کن بنیادوں پر انکاؤنٹر کرتی ہے اور اس کے پیچھے کے عوامل کیا ہیں۔ اس سے پولیس کا یہ جھوٹ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ جرم کی بنیاد پر مجرمین کا انکاؤنٹر کرتی ہے۔ اگر مذکورہ آڈیوکلپ کو سرے سے خارج بھی کردیا جائے تو بھی اب تک انکاؤنٹر کے جتنے واقعات ہوئے ہیں، ان میں کسی نہ کسی طرح پولیس کی جانبداری پر سوالیہ نشان لگتا ہی رہاہے اور اسی نشان کو مٹانے کے لئے علی گڑھ میں پولیس نے اس بار میڈیا کے لوگوں کو جمع کرکے انکاؤنٹر کی ’بہادری والا‘ کارنامہ انجام دیا ہے۔

علی گڑھ میں ہوئے انکاؤنٹر کے بعد شہر کے ایس پی اتل کمار شریواستو کا جوبیان منظرِ عام پر آیا ہے اور جائے واردات پر میڈیا نے اپنے کیمروں میں جوقید کیا ہے، وہ اس کے جھوٹے اور فرضی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ہمیں اپنے ذرائع سے خبر ملی کہ نوشاد اور مستقیم جو موٹرسائیکل اور موبائیل کی چوری میں پولیس کومطلوب تھے، وہ ایک مخصوص جگہ آنے والے تھے۔ پولیس نے جال بچھایا اورجب یہ لوگ وہاں پہونچے تو پولیس نے انہیں خود سپردگی کے لئے کہا جس پر انہوں نے پولیس پر فائرنگ کرنا شروع کردی۔جس کے جواب میں پولیس نے بھی فائرنگ کی اورنتیجے میں ان دونوں کوگولی لگی۔ انہیں اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قراردیدیا۔ جبکہ میڈیا کے کیمروں نے جوریکارڈ کیا وہ یہ تھا کہ دو ڈرے سہمے ہوئے نوجوانوں کو پولیس کی ایک ٹیم نے گھیر رکھا ہے۔ پولیس کی ٹیم میں شامل کچھ لوگ ٹی شرٹ و جنس پینٹ پہنے ہوئے نظر آرہے ہیں، ان کے ہاتھوں میں پستول بھی ہے، اس کے بعد جائے واردات پر ان ڈرے سہمے ہوئے نوجوانوں کی لاشیں نظر آنے لگتی ہیں۔ یعنی مقتولین یا مہلوکین کو نہایت قریب سے گولی ماردی گئی۔ مذکورہ انکاؤنٹر کے بعد سے ہی میں یہ معمہ حل کرنے کی کوشش میں تھا کہ جب پولیس کوان دونوں نوجوانوں کو اتنی ہی بے رحمی کے ساتھ قتل کرنا تھا توپھر میڈیا وغیرہ کے لوگوں کوبلانے اوراتنی گھٹیا فکشن سازی کی ضرورت ہی کیا آن پڑی؟ تو اس کا جواب مجھ جیسے غبی کے ذہن میں یہی آیا کہ پولیس اس کے ذریعے دومقصد حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اول تو حکومت کی نگاہ میں شاباشی اوردوسرا اس کے ذریعے وہ یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ ہم جسے چاہیں مار سکتے ہیں، کوئی ہمیں روکنے والا نہیں ہے۔ اتفاق کی بات تھی کہ مرنے والے ایک ایسی کمیونیٹی سے تعلق رکھتے ہیں جو خیر سے مسلمان تھے اور جب وہ مسلمان تھے تو لازماً وہ دیش بھکت بھی نہیں رہے ہونگے۔ اس لئے پولیس کو یقین تھا کہ ان کے اس صریح غیرقانونی عمل پر بھی کوئی ان سے نکیر نہیں کرے گا۔ لیکن وہ جو کہاوت ہے کہ لہو پکاے گا آستیں کا ، وہ یہاں صادق ہوتا ہوا نظر آنے لگا ہے۔ 

Azam Shahab
About the Author: Azam Shahab Read More Articles by Azam Shahab: 7 Articles with 3947 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.