دسواں باب: حساب کتاب اور اہل
جہنم
اہل بدعت کی پٹائی کے واقعے کے بعد میں بہت دل گرفتہ ہو چکا تھا۔ کیونکہ
میں نے اس واقعے میں اپنے زمانے میں موجود اپنے کئی جاننے والوں کو دیکھا
تھا۔ میری طبیعت بحال کرنے کے لیے صالح مجھے واپس حوض کوثر کی طرف لے گیا
تھا۔ کچھ وقت وہاں کے پرفضا ماحول میں تنہائی اور خاموشی سے گزار کر میں
بہتر ہو گیا تو وہ دوبارہ مجھے میدان حشر میں لے آیا۔
راستے میں وہ مجھے بتانے لگا کہ جب ہم یہاں نہیں تھے تو اس عرصے میں تمام
انبیا کی شہادت کا عمل پورا ہو گیا۔ جس کے بعد عمومی حساب کتاب کا مرحلہ
شروع ہو چکا تھا۔ اس کا آغاز بھی امت محمدیہ سے ہوا جس کا بڑ ا حصہ حساب
کتاب سے گزر کر اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سن چکا ہے ۔
’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک انتہائی اہم موقع پر میں یہاں موجود نہیں تھا؟‘‘
’’ہاں ایسا ہی ہے ، لیکن جنت میں جانے کے بعد جب چا ہو، اس حساب کتاب کی
آڈیو وڈیو ریکارڈنگ دیکھ سکو گے ۔‘‘، اس نے ہنستے ہوئے میری بات کا جواب
دیا۔
’’مگر بھائی لائیو مشاہدہ تو لائیو ہی ہوا کرتا ہے ۔‘‘، میں نے بھی مسکراتے
ہوئے اس کی بات کا جواب دیا۔
’’ایک بڑ ی دلچسپ چیز جو یہاں ہوئی وہ میں تمھیں بتادیتا ہوں ۔ ہوا یہ کہ
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے مشرکین کو ان کے شرک پر پکڑ ا
گیا تو ان کی ایک بڑ ی تعداد نے صاف انکار کر دیا کہ وہ کسی شرک میں مبتلا
تھے ۔ ان انکار کرنے والوں میں بعد کے زمانے کے لوگ ہی نہیں کفار مکہ بھی
تھے جو بتوں کی پوجا کرتے تھے ۔‘‘
’’اس کا سبب؟‘‘
’’اس کا سبب یہ تھا کہ آج سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ
کے علاوہ کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے ۔ ان لوگوں نے پہلے پہل تو اپنے دیوی
دیوتاؤں اور بزرگوں کو پکارا اور ان کو تلاش کیا۔ ظاہر ہے کہ نہ کوئی تھا
اور نہ کسی نے جواب دینا تھا۔ فرشتے اور صالح بزرگ، جنھیں اللہ کو چھوڑ کر
پکارا جاتا تھا، انھوں نے تو ان لوگوں کے شرک سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اس
کے بعد ایک ہی چارہ بچا تھا کہ یہ لوگ اپنے شرک کا صاف انکار کر دیں ، مگر
ظاہر ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایسے تمام مجرموں کے لیے جہنم کا فیصلہ
ہو گیا۔‘‘
’’اس وقت کس کا حساب کتاب ہورہا ہے ؟‘‘، میں نے دریافت کیا۔
’’اس وقت تمھارے زمانے کے لوگوں کا نمبر آ چکا ہے ۔ اسی لیے میں تمھیں یہاں
لے آیا ہوں ۔ تم دیکھ سکتے ہو کہ ایک ایک کر کے لوگ حساب کتاب کے لیے بلائے
جا رہے ہیں ۔ ہر شخص دو فرشتوں کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں پیش ہوتا ہے ۔ ایک
فرشتہ پیچھے پیچھے چلتا اور اپنی نگرانی میں اسے عرش تک پہنچاتا ہے جبکہ
دوسرا فرشتہ بندے کے ساتھ اس کا نامۂ اعمال اٹھائے چلتا ہے ۔ ان میں سے
پیچھے والے فرشتے کو ’سائق‘ اور نامۂ اعمال لے کر ساتھ چلنے والے کو ’شہید‘
کہا جاتا ہے ۔ ’سائق‘ وہ فرشتہ ہے جو بندے کو حشر کے میدان سے عرش الٰہی تک
پہنچانے کا ذمے دار ہے جبکہ ’شہید‘ اس کے اعمال کی گواہی دیتا ہے ۔ یہ وہی
دو فرشتے ہیں جو زندگی بھر انسان کے دائیں اور بائیں سمت موجود رہے ۔ دائیں
والا نیک اعمال اور بائیں والا بداعمالیاں لکھتا تھا۔ ان کو قرآن مجید میں
کراماً کاتبین کہا گیا تھا۔‘‘
’’مگر یہاں آ کر ان میں سے کون سائق اور کون شہید بنتا ہے ؟‘‘، میں نے
پوچھا۔
’’اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ وہی بندے کی پیشی سے قبل کراماً کاتبین کو
مطلع کرتے ہیں کہ دونوں میں سے کس کو کیا کرنا ہے ۔‘‘
ہم وہاں پہنچے تو ایک سرکاری افسر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش تھا۔ اس
سے پوچھا گیا:
’’کیا عمل کیا؟‘‘
اس نے لرزتے ہوئے جواب دیا:
’’پروردگار مجھ سے زندگی میں کچھ غلطیاں ہوئی تھیں ، مگر بعد میں میں نے
تیرے لیے بہت عبادت و ریاضت کی۔ اپنی زندگی تیرے دین کے لیے وقف کر دی۔‘‘
اسی اثنا میں اس کے ساتھ کھڑ ے فرشتے کو اشارہ ہوا۔ اس نے کہا:
’’پروردگار! اس نے سچ کہا ہے ۔‘‘
پوچھا گیا:
’’تم ایک سرکاری ملازم تھے ۔ کیا تم نے رشوت لی؟ لوگوں کو تنگ کر کے ان سے
پیسے کھائے ۔ ناجائز طریقے سے قانون سخت کر کے لوگوں کو رشوت دینے کے لیے
مجبور کیا؟‘‘
اس نے عرض کیا:
’’یہ میں نے کیا تھا لیکن میں نے توبہ کر لی تھی۔‘‘
’’تو نے توبہ کر لی تھی؟‘‘، انتہائی غضبناک آواز میں سوال کیا گیا۔
اس کے منہ سے جواب میں ایک لفظ نہیں نکل سکا۔ فرشتہ آگے بڑ ھا اور اس نے اس
کے نامۂ اعمال کو پڑ ھنا شروع کیا۔ جس کے مطابق اس نے حرام کی کمائی سے گھر
بنایا اور ساری زندگی اسی گھر میں رہا، انویسٹمنٹ کر کے مال کو خوب بڑ
ھایا، بچوں کو اسی پیسے سے اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ بیوی کو خوب زیورات بنا کر
دیے ۔یہ اس مال سے اپنی موت تک فائدہ اٹھاتا رہا۔ البتہ زبان سے توبہ ضرور
کی تھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد داڑ ھی، ٹوپی، نماز وغیرہ سب شروع کر دی تھی۔
جیسے ہی فرشتے کا بیان ختم ہوا حکم ہوا:
’’اس کا نامۂ اعمال میزان میں رکھو۔‘‘
دائیں ہاتھ کے فرشتے نے اس کی نیکیاں الگ کر کے میزان عدل میں دائیں طرف
رکھ دیں اور بائیں ہاتھ کے فرشتے نے اس کی برائیاں بائیں طرف رکھ دیں ۔ وہ
سرکاری افسر انتہائی بے بسی اور خوف کے ساتھ یہ سب ہوتا دیکھ رہا تھا۔
فرشتوں نے اپنا کام جیسے ہی ختم کیا نتیجہ سامنے آ گیا۔ الٹے ہاتھ کا پلڑ ا
مکمل طور پر جھک گیا تھا۔ اس نے ظلم و نا انصافی اور رشوت سے جو کچھ حرام
کمایا تھا اور لوگوں کے ساتھ جو زیادتیاں کی تھیں وہ اس کے سارے نیک اعمال
پر غالب آ گئیں ۔ یہ دیکھ کر وہ شخص چیخنے چلانے لگا اور رحم کی درخواست
کرنے لگا۔ ارشاد ہوا: ’’جن لوگوں سے تو رشوت لیتا اور انھیں تنگ کرتا تھا
کبھی ان پر تجھے رحم آیا۔ دیکھ تیری کمائی آج تیرے کچھ کام نہ آئی۔ تیرا
انجام جہنم ہے ۔ پھر ایک فرشتے نے اس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں
تھمادیا۔‘‘
وہ شخص چیخ چیخ کر کہنے لگا:
’’میں نے اپنے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہ سب میں نے اپنی بیوی بچوں کے لیے کیا
تھا۔ اللہ کے واسطے مجھے چھوڑ دو۔ میرے بیوی بچوں کو پکڑ و۔‘‘
فرشتوں نے جواب دیا:
’’تیرے بیوی بچوں کا حساب بھی ہوجائے گا پہلے تو تو چل۔‘‘
پھر دونوں فرشتے اسے مارتے اور گھسیٹتے ہوئے جہنم کی سمت لے گئے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ |