ہر شخص کی زندگی مقرر ہے- اس میں نہ کمی ہو سکتی ہے نہ
زیادتی- جب وقت پورا ہوجاتا ہے، تو ملک الموت (موت کا فرشتہ) یعنی عزائیل
قبضٍ رُوح کے لیے آتے اور اس کی جان نکال لیتے ہیں، اسی کا نام موت ہے-
مرنے کے بعد بھی رُوح کا تعلق بدنٍ انسان کے ساتھ باقی رہتا ہے، اسی لیے
بدن پر جو گزرے گی، رُوح اس سے ضرور آگاہ و متاثر ہوگی- جس طرح دنیاوی
زندگی میں ہوتی ہے، بلکہ اس سے زائد- اور رُوح کے لیے خاص اپنی راحت و کلفت
کے الگ اسباب ہیں ، جن سے سرور یا غم پیدا ہوتا ہے-
روحوں کے رہنے کے لیے مقامات مقرر ہیں ، نیکوں کے لیے علیحدہ ، بدوں کے لیے
علیحدہ مگر کہیں ہوں ، اپنی جسم سے ان کو تعلق بد ستور باقی رہتا ہے- قبر
پر آنے جانے والوں کو دیکھتے پہچانتے اور ان کی بات سنتے ہیں- البتہ جب
مسلمان مرتا ہے، تو اس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے- اس کی مثال
حدیث میں یہ فرمائی گئی ہے کہ ایک طائر ہے، پہلے قفس میں بند تھا، اب آزاد
کر دیا گیا اور کافروں کی ارواح کو کہیں جانے آنے کا اختیار نہیں کہ قید
ہیں-یہ خیال کہ وہ رُوح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے- خواہ وہ کسی آدمی
کا بدن ہو یا کسی جانور کا، جسے تناسخ اور اواگون کہتے ہیں- محض باطل اور
ہنود کا عقیدہ ہے اور اس کا ماننا کفر ہے-
موت کے معنی ہیں “رُوح کا جسم سے جُدا ہو جانا“- نہ کہ یہ رُوح مر جاتی ہے-
جو رُوح کو فنا مانے، وہ بد مذہب و گمراہ ہے-جب مُردہ کو قبر میں دفن کرتے
ہیں، اس وقت اس کو قبر دباتی ہے- اگر وہ مسلمان ہے تو اُس کا دبانا ایسا
ہوتا ہے جیسے ماں اپنے بچے کو پیار سے زور سے چپٹا لیتی ہے اور اگر کافر ہے
تو اس کو اس زور سے دباتی ہے کہ اٍدھر کی پسلیاں اُدھر اور اُدھر کی اٍدھر
ہو جاتی ہیں-جب دفن کرنے والے دفن کر کے واپس ہوتے ہیں، تو مُردہ ان کے
جوتوں کی آواز سنتا ہے- اس وقت اس کے پاس دو فرشتے اپنی بڑے بڑے دانتوں سے
زمین کو چیرتے ہوئے آتے ہیں- ان کی شکلیں ڈراؤنی، آنکھیں دیگ کے برابر ،
سیاہ اور نیلی ، بدن کا رنگ سیاہ اور بال سر سے پاؤں تک- غرض ہیبت ناک صورت
کا سامنا ہوتا ہے- وہ مُردے کو جھڑک کر اٹھاتے ہیں اور نہایت سختی کے ساتھ
اس سے تین سوال کرتے ہیں:
(١) تیرا رب کون ہے؟
(٢) تیرا دین کیا ہے؟
(٣) اور حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ کرکے پوچھتے ہیں
کہ ان کے بارے میں تُو کیا کہتا ہے؟
مُردہ مسلمان ہو ، تو جواب دیتا ہے:
(١) میرا رب اللہ ہے- (٢) میرا دین اسلام ہے- (٣) اور وہ میرے آقا و مولٰی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں- فرشتے کہتے ہیں کہ “ ہم جانتے تھے
کہ تُو یہی جواب دے گا-“ پھر اس کی قبر جہاں تک نگاہ پہنچے گی، کشادہ کر دی
جائے گی- جنت کی خُوشبو اس کے پاس آتی رہے گی اور جنت کا بستر ، جنت کا
لباس اسے مہیا کیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ تُو سو جیسے دولہا
سوتا ہے- اور اگر مردہ کافر یا منافق ہے تو کسی سوال کا جواب نہ دے سکے گا،
بلکہ ہر بار یہی کہے گا کہ “ مجھے تو کچھ نہیں معلوم ، میں لوگوں کو کہتے
سنتا تھا، خود بھی کہتا تھا-“ اس وقت ایک پکارنے والا آسمان سے ندا کرتا ہے
کہ “ یہ جھوٹا ہے‘ اس کے لیے آگ کا بچھونا بچھادو، آگ کا لباس پہنا دو، اور
جہنم کی طرف دروازہ کھول دو-“ دوزخ کی گرمی اور تپش اس کو پہنچے گی اور اس
پر عذاب دینے کے لیے دو فرشتے مقرر ہوں گے جو اندھے اور بہرے ہوں گے، وہ
لوہے کے بڑے بڑے گرزوں سے اسے مارتے رہیں گے، نیز سانپ اور بچھو وغیرہ اسے
عذاب پہنچاتے رہیں گے اور اس کے بُرے اعمال کتے ، بھیڑئیے وغیرہ موذی
جانوروں کی شکل بن کر اسے ایذا پہنچاتے رہیں گے، جبکہ نیکوں کے نیک اعمال،
مقبول ، پسندیدہ اور محبوب صورت و شکل میں اسے سکون واُنس دیں گے-
بعض گنہگار مسلمانوں پر بھی قبر عذاب ہوگا- ان کی معصیت اور نافرمانی کے
لائق- پھر مسلمانوں کے صداقت، خیرات، دعائے مغفرت اور ایصالٍ ثواب کے دوسرے
طریقوں سے اس عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے-یو نہی اس کے پیرانٍ عظام یا مذہب
کے امام یا اولیائے کرام کی شفاعت سے یا محض رحمتٍ خداوندی سے جب وہ چاہے
گا، نجات پائیں گے- زندوں کے نیک اعمال سے مُردہ مسلمانوں کو ثواب ملتا اور
فائدہ پہنچتا ہے- قرآن کریم کی تلاوت ، درود شریف کی قرآت ، اور کلمہ طیبہ
وغیرہ پڑھ کر اس کا ثواب مُردوں کو بخشنا چاہیے ، اسے ایصالٍ ثواب کہتے
ہیں- حدیث شریف میں اس کا جائز اور مُردوں کے حق میں نافع وفائدہ بخش ہونا
ثابت ہے- مُردہ اگر قبر میں دفن نہ کیا گیا تو جہاں پڑا رہ گیا، یا پھینک
دیا گیا، غرض کہیں ہو تو اس سے وہیں سوالات ہوں گے اور وہیں ثواب یا عذاب
اسے پہنچے گا- یہاں تک کہ جسے شیروغیرہ کوئی درندہ کھا گیا، تو اسی کے پیٹ
میں ہوں گے اور ثواب جو کچھ ہوا ، اسے پہنچے گا-
جسم اگرچہ گل سڑ جائے، خاک ہو جائے ، گوشت اور ہڈیاں راکھ ہو جائیں اور ان
کے ذرے کہیں بھی منتشر ہو جائیں ، مگر اس کے اجزاء صلیہ قیامت تک باقی رہیں
گے اور عذاب و ثواب انہیں پر وارد ہوگا اور انہیں پر روزٍ قیامت دوبارہ تر
کیبٍ جسم فرمائی جائے گی اور رُوحوں کا اعادہ اسی جسمٍ میں ہعگا نہ جسمٍ
دیگر میں- اسی کا نام حشر ہے- عذاب و تتعیمٍ قبر حق ہے اور ان کا انکار وہی
کرے گا، جو گمراہ ہوگا-
|