مسلمانوں کے لئے اس تہوارکا
منانا نا جائز بلکہ کفر ہےاسلام میں عیدوں کی تعداد محدود و ثابت(زیادتی
وکمی ممکن نہیں)اور توقیفی ہیں۔ابن تیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں عیدین اور
تہوار شرع اور منا ہج ومناسک میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا
فرمان ہے کہ ہم نے ہر ایک کیلئے طریقہ اور شریعت مقرر کی ہے اور ایک دوسری
آیت میں اسطرح ہے ہم نے ہرقوم کے لئے ایک طریقہ مقرر کیا ہے جس پروہ چلتے
ہیں مثلاً قبلہ’نمازاور روزے لہٰذا ان کا عید اور باقی مناہج میں شریک ہونے
میں کوئی فرق نہیں اسلئے کہ سارے تہوار میں موافقت کفر میں موافقت ہے
اوراسکے بعض فروعات میں موافقت کفر کی بعض شاخوں میں موافقت ہے بلکہ عیدین
اورتہوار ہی ایسی چیزیں ہیں جن سے شریعتوں کی تمیزہوتی ہے اور جن کی ظاہری
شعائر ہوتی ہیںتو اس میں کفارکی موافقت کرنا گویاکہ کفرکے خاص طریقے اور
شعار کی موافقت ہے اوراس میں کوئی شک نہیں کہ پوری شروط کیساتھ اس میں
موافقت کفرتک پہنچا سکتی ہے اور اس کی ابتدا میں کم ازکم حالت یہ ہے کہ یہ
معصیت وگناہ کا سبب ہے اوراسی کی جانب ہی پیارے نبیۖ نے اپنے اس فرمان میں
اشارہ کیا ہے کہ یقیناً ہر قوم کیلئے ایک عید اور تہوار ہے اور یہ ہماری
عید ہے ۔(صحیح بخاری 529صحیح مسلم893 القتضا 11/471-472)دوسری وجہ یہ ہے کہ
اس سے کفار’بت پرست رومیوں اورعیسائیوں کے ساتھ مشابہت ہے اورکفار چاہے وہ
بت پرست ہوں یا اہل کتاب ان سے عمومی مشابہت اختیارکرنا حرام ہے’چاہے وہ
مشابہت عقیدہ میں ہو’یا ان کی عادات ورسم ورواج ‘یا عید وتہوارمیں۔ اللہ کا
فرما ن ہے’‘اورتم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں
آجانے کے بعد تفرقہ ڈالا اوراختلاف کیا انہیں لوگوں کیلئے بہت بڑا عذاب
ہوگا ۔(آل عمران :105)اورفرمان رسول ۖ ہے جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیارکی
وہ انہیں میں سے ہے ۔مسند احمد (2/50)شیخ السلام ابن تیمیہ لکھتے ہیںاس
حدیث کی کم ازکم حالت ان سے مشابہت کرنے کی تحریم کا تقاضا کرتی ہے ۔اگر چہ
حدیث کا ظاہرمشابہت کرنے والے کے کفر کا متقاضی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا
فرمان ہے ‘’ اورجو بھی تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے یقیناً وہ انہیں میں
سے ہے۔اجما ع :ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ کفار کی عیدوں
اورتہواروں میں مشابہت اختیارکرنے کی حرمت پر تما م صحابہ کرام کے وقت سے
لیکر اجما ع ہے ‘جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اسپر علما کرام کا اجما
ع نقل کیا ہے۔(القتضا/454اور حام ہل الذم لبن القیم 2/722-723)اس دورمیں
یوم محبت منانے کا مقصد لوگوں کے مابین محبت کی اشاعت ہے چاہے وہ مومن ہوں
یا کافر’حالانکہ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ کفار سے محبت ومودت اوردوستی
کرنا حرا م ہے اللہ کا ارشاد ہے ۔’‘اللہ تعالیٰ اورقیامت کے دن پر ایما ن
رکھنے والوں کو آپ ‘اللہ تعالیٰ اوراسکے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت
کرتے ہوئے ہرگز نہیں پائیں گے’اگر چہ وہ کافر ان کے باپ ‘یا بیٹے یا ان کے
بھائی یا ان کے قبیلے کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں ۔’‘(المجادل :22)شیخ السلام
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس آیت میں یہ خبر دی
ہے کہ کوئی بھی مومن ایسا نہیں پایا جاتا جو کافرسے محبت کرتا ہو’ لہٰذا جو
مومن بھی کافر سے محبت کرتا اوردوستی لگاتا ہے وہ مومن نہیں اور ظاہری
مشابہت بھی کفارسے محبت کی غماز ہے لہذا یہ بھی حرام ہوگی ۔ القتضا (1/490)
اسلئے مذکورہ بالادلائل کی روشنی میں یہ ثابت ہوا کہ اس تہوار کامنانا یا
منا نے والوں کی محفل میں شرکت ناجائز ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
جب یہودیوں کی خاص عید ہے اور عیسائیوں کی اپنی خاص عید تو پھر جس طرح ان
کی شریعت اور قبلہ میں مسلمان شخص شریک نہیں, اسی طرح ان کے تہواروں میں
بھی شریک نہیں ہوسکتا۔(مجل الحکم 3/193)اس تہوار کومنا نے یا انکی محفلوں
میں شرکت کرنے سے ان کی مشابہت’انہیں خوشی وسروراورانکی تعداد میں بڑھوتری
حاصل ہوتی ہے جوناجائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے ایمان والو!تم
یہود ونصاری کو دوست نہ بنا ؤیہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں
‘یقینااللہ تعالیٰ ظالموں کو ہرگز ہدایت نہیں دکھاتا۔(المائدہ:51) اور شیخ
السلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ
کفارسے ان کے خصوصی تہواروں میں ان کے لباس ‘کھانے’ پینے’ غسل کرنے’ آگ
جلانے اور اپنی کوئی عبادت اور کام وغیرہ یا عبادت سے چھٹی کرنے میں ان
کفار کی مشابہت کریں ۔مختصر طور پریہ کہ ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ کفار کے
کسی خاص تہوار کو ان کے کسی شعار کے ساتھ خصوصیت دیں بلکہ ان کے تہوار کا
دن’مسلمانوں کے یہاں باقی عام دنوں جیسا ہی ہونا چاہئے۔(مجموع الفتاو
:35/329)مسلمانوںمیں سے جو بھی اس تہوارکو منا تا ہے اس کی معاو نت نہ کی
جائے بلکہ اسے اس سے روکنا واجب ہے کیونکہ مسلمانوں کا کفارکے تہوار کو
منانا ایک منکر اور برائی ہے جسے روکنا واجب ہے۔ شیخ السلام ابن تیمیہ رحمہ
اللہ فرماتے ہیں کہ اور جس طرح ہم ان کے تہواروں میں کفارکی مشابہت نہیں
کرتے تو اس طرح مسلمانوں کی اس سلسلے میں مدد واعانت بھی نہیں کی جائیگی
بلکہ انہیں اس سے روکا جائیگا ۔(القتضا 2/519-520) تو شیخ السلام کے فیصلے
کی بنا پر مسلمان تاجروں کے لیے جائز نہیں کہ وہ یوم محبت کے تحفے و تحائف
کی تجارت کریں’چاہے وہ کوئی معین قسم کا لباس ہویا سرخ گلاب کے پھول وغیرہ
اور اسی طرح اگرکسی شخص کو یوم محبت میں کوئی تحفہ دیا جائے تو اس تحفہ کو
قبول کرنا بھی جائز نہیں’ کیونکہ اسے قبو ل کرنے میں اس تہوار کا اقرار اور
اسے صحیح تسلیم کرنا ہے اور باطل ومعصیت میں مدد ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان
ہے نیکی اورپرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گنا ہ اور ظلم
وزیادتی میں مدد نہ کرو (المائد:3)یوم محبت کی مبارکبادی کا تبادلہ نہیں
کرنا چاہئے اس لیے کہ نہ تو یہ مسلمانوں کا تہوار ہے اور نہ ہی عید اور اگر
کوئی مسلمان کسی کو اسکی مبارکباد بھی دے تو اسے جواباً مبارکباد نہیں دینی
چاہئے۔ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اورکفارکے خصوصی شعارجو صرف ان کے
ساتھ ہی خاص ہیں ان کی مبارکباد دینا متفقہ طور پر حرام ہے مثلاانہیں ان کے
تہواروںیاروزے کی مبارکباد دیتے ہوئے یہ کہا جائے ‘آپ کو عید مبارک یا آپ
کو یہ تہوار مبارک ہو لہذا اگر اسے کہنے والا کفرسے بچ جائے تو پھر بھی یہ
حرام کردہ اشیا میں سے ہے اوریہ اسی طرح ہے کہ صلیب کو سجدہ کرنے والے کسی
شخص کو مبارکبادی دی جائے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شراب نوشی اور بے
گناہ شخص کو قتل کرنے اور زنا کرنے سے بھی زیادہ عظیم اور اللہ کو ناراض
کرنے والی ہے اوربہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے یہاں دین کی کوئی قدر وقیمت
نہیںوہ اس کا ارتکا ب کر تے ہیں اور انہیں یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ انہوں
نے کتنا بڑا قبیح جرم کیا ہے لہذا جس نے بھی کسی کو معصیت اور نافرمانی یا
کفروبدعت پر مبارکبادی دی اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے غصہ اورناراضگی
پر پیش کردیا۔(حکام ہل الذم 1/441-442)یوم محبت کے بارے میں عصر حاضر کے
علماء کرام کے فتوے سوال :محترم فضیلة الشیخ محمد بن صالح العثیمن حفظہ
اللہ(سعودی عرب)السلام علیکم ورحم اللہ وبرکاتہ’ کچھ عرصہ سے ویلنٹائن ڈے(
یوم محبت ) کا تہوار منایا جانے لگا ہے اور خاص کر طالبات میں اس کا اہتمام
زیادہ ہوتا ہے ۔جو نصارٰی کے تہواروں میں سے ایک تہوارہے اس دن پورا لباس
ہی سرخ پہنا جاتا ہے اور جوتے تک سرخ ہوتے ہیں اور آپس میں سرخ گلاب کے
پھولوں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے ,ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس طرح کے
تہوارمنانے کا حکم بیان کریں اور اس طرح کے معاملات میں آپ مسلمانوں کو کیا
نصیحت کرتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت کرے ۔جواب: وعلیکم السلام ورحمة
اللہ وبرکاتہ وبعدیوم محبت کا تہوارکئی وجوہات کی بنا پر ناجائز اور حرام
ہے٭…یہ بدعتی تہوار ہے اور اسکی شریعت میں کوئی اصل نہیں٭…یہ تہوار عشق
ومحبت کی طرف دعوت دیتا ہے٭…یہ تہوار دل کو اس طرح کے سطحی ذیل امور میں
مشغول کردیتا ہے جو سلف صالحین کے طریقے سے ہٹ کر ہے لہٰذا اس دن اس تہوار
کی کوئی علامت اور شعار ظاہر کرنا جائزنہیں چاہے وہ کھانے پینے میں ہویا
لباس ‘یا تحفے تحائف کے تبادلہ کی شکل میں ہویا اسکے علاوہ کسی اور شکل میں
ہو اور مسلمان شخص کو چاہئے کہ اپنے دین کو عزیز سمجھے اورایسا شخص نہ بنے
کہ ہر ھانک لگانے والے کے پیچھے چلنا شروع کردے یعنی ہر ایک کے رائے وقول
کی صحیح و غلط کی تمیزکئے بغیر پیروی اوراتباع کرنے لگے۔میری اللہ سے دعا
ہے کہ مسلمانوں کو ہرطرح کے ظاہری وباطنی فتنوں سے محفوظ رکھے اورہمیں اپنی
ولایت میں لے اور توفیق سے نوازے واللہ تعالیٰ ا علم ۔ مستقل کمیٹی برائے
تحقیقات وافتاء کا فتویٰ سوال:بعض لوگ ہر سال چودہ فروری کو یوم
محبت(ویلنٹائن ڈے)کا تہوار مناتے ہیں اور اس دن آپس میں ایک دوسرے کو سرخ
گلاب کے پھول ہدیہ میں دیتے ہیں اور سرخ رنگ کا لباس پہنتے ہیں اور ایک
دوسرے کو مبارکبادی بھی دیتے ہیں, اوربعض مٹھا ئی کی د کان والے سرخ رنگ کی
مٹھائی تیارکرکے اس پر دل کا نشان بناتے ہیںاوربعض دکانداراپنے مال پراس دن
خصوصی اعلانات بھی چسپاں کرتے ہیں تو اس سلسلے میں آپ کی کیارائے ہے؟جواب :سوال
پرغورفکر کرنیکے بعد مستقل کمیٹی نے کہا کہ کتاب وسنت کی واضح دلائل
‘اورسلف صالحین کے اجماع سے یہ بات ثابت ہے کہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں
کوئی تیسری نہیں’ایک عید الفطر اور دوسری عید الضحیٰ,ان دونوں کے علاوہ
جوبھی تہواریاعید چاہے کسی عظیم شخصیت سے متعلق ہو’یا جماعت سے ‘یا کسی
واقعہ سے ‘یا اورکسی معنی سے تعلق ہو سب بدعی تہوارہیں ‘مسلمان کیلئے
انکامنانا یا اقرار کرنا یااس تہوارسے خوش ہونا یا اس تہوارکا کسی بھی
چیزکے ذریعہ تعاون کرناجائزنہیں ‘اسلئے کہ یہ اللہ کے حدود میں زیادتی ہے
اورجو شخص بھی حدوداللہ میں زیادتی پید ا کرے گا تو وہ اپنے ہی نفس پر ظلم
کرے گا۔اورجب ایجاد کردہ تہوار کے ساتھ یہ مل گیا کہ یہ کفارکے تہواروں میں
سے ہے تویہ گنا ہ اورمعصیت ہے اسلئے کہ اس میں کفار کی مشابہت اورموالات
ودوستی پائی جاتی ہے اوراللہ تعالیٰ نے مومنوں کو کفارکی مشابہت اوران سے
مودت ومحبت کرنے سے اپنی کتاب عزیز میں منع فرمایا ہے اورنبی کریم سے آپ کا
یہ فرمان ثابت ہے کہ’‘من تشبہ بقوم فہومنہم’‘جوشخص کسی قوم سے محبت کرتا ہے
تووہ انھیں میں سے ہے۔اورمحبت کا تہواربعینہ مذکورہ بالاجنس یاقبیل سے ہے
اسلئے کہ یہ بت پرست نصرانیت کے تہواروں میں سے ہے’لہٰذا کسی مسلمان کلمہ
گوشخص کیلئے جو اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہواس تہوارکو منانایا
اقرارکرنایا اسکی مبارکباد دینا جائزنہیں بلکہ اللہ ورسول کی دعوت پر لبیک
کہتے ہوئے اورانکی غضب وناراضگی سے دوررہتے ہوئے اس تہوار کا چھوڑنا اوراس
سے بچنا ضروری ہے’اسی طرح مسلمان کیلئے اس تہواریا دیگرحرام تہواروں میں
کسی بھی طرح کی اعانت کرنا حرام ہے چا ہے وہ تعاون کھانے’یاپینے’ یا خرید
وفروخت یا صنا عت یا ہدیہ وتحفہ یا خط وکتابت یا اعلانات وغیرہ کے ذریعہ
ہواسلئے کہ یہ سب گناہ وسرکشی میں تعاون اوراللہ ورسول کی نافرما نی کے
قبیل سے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ نیکی اور پرہیزگاری کے معاملے
میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اورگناہ اورظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو ,
اوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ,بے شک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے ۔(
المائدہ4)اورمسلمان کیلئے ہرحالت میںکتاب وسنت کو پکڑے رہنا خا ص طورسے
فتنہ وکثرت فساد کے اوقات میں لازم وضروری ہے ۔اسی طرح ان لوگوں کی
گمراہیوں میں واقع ہونے سے بچاؤ اورہوشیاری اختیارکرنا بھی ضروری ہے جن پر
اللہ کا غضب ہوا اورجو گمراہ ہیں(یعنی یہود ونصارٰی) اوران فاسقوں سے بھی
جو اللہ کی قدروپاس نہیں رکھتے ا ورنہ ہی اسلام کی سربلندی چاہتے ہیں اور
مسلمان کے لئے ضروری کہ وہ ہدایت اوراس پے ثابت قدمی کے لئے اللہ ہی کی طرف
رجوع کرے کیونکہ ہدایت کا مالک صرف اللہ ہے اور اسی کے ہاتھ میں توفیق ہے
اوراللہ ہمارے نبی محمد انکے آل وصحاب پر درودوسلام نازل فرمائے آمین !(دائمی
کمیٹی برائے تحقیقات وافتاء ‘الریاض ‘فتویٰ نمبر( 21203) بتاریخ
23/11/1420ھ)‘’ویلنٹائن ڈے’’ ہر اعتبار سے’‘یوم اوباشی’’ ہے۔ اس کا اصل
مقصود عورت اور مرد کے درمیان نا جائز تعلقات اور ہم جنسیت اور بے راہ روی
کو فروغ دینا ہے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں نوجوان نسل کو ان
خرافات کے مضمرات سے آگاہ نہیں کیا جارہا۔برعکس اس کے’ اخبارو جرائد اور
الیکٹرانک میڈیا میں اس’‘یوم’’ کی ترویج کے حوالے سے جس طرح ‘’کوریج’’ دی
جارہی ہے عوام الناس میں ا س سے اسکے مزید بڑھنے کا امکانات پیدا ہوگئے ہیں
۔ راقم الحروف کو دئیے گئے ایک انٹرویومیں تحریک پاکستان کی عظیم کارکن
محترمہ بیگم سلمیٰ تصدق حسین نے کہا تھا ‘’افسوس کہ جن مسلمانوں کیلئے
پاکستان بنایا تھا وہ پاکستان کے قابل نہ رہے’’ اب آپ ذرا ٹھنڈے دل سے
سوچئے کہ ان خرافات سے نجات حاصل کر کے ہمیں لاکھوں قربانیوں سے حاصل کردہ
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قابل بننا ہے |