ویلنٹائن ڈے ایک اخلاقی اور تہذیبی کینسر حصہ اول

بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: حکیم قاضی ایم اے خالد
اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے وطنِ عزیز پاکستان میں کچھ عرصے سے مغربی ذرائع ابلاغ کی تعلیمات و ہدایات کے زیراثر ہمارے ہاں تو اتر سے ایک ایسا طبقہ پروان چڑھ رہا ہے جس نے تہذیب مغرب کی نقالی کو اپنا ایمان بنا رکھا ہے۔ اپنے آپ کو’ ماڈرن سمجھنے اور دکھانے کا انہوں نے واحد اسلوب ہی یہ سمجھ رکھا ہے کہ اہل مغرب سال بھر میں جو تقریبات منائیں ان کے نقشِ قدم پر اس ہنگامہ آرائی میں دیوانہ وارشامل ہو جائیں ۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ آخر ان مغربی تہواروں کا پس منظر کیا ہے؟ ان کے لئے تو بس یہی امر کافی ہے کہ وہ مغرب زدہ ذرائع ابلاغ پر ایک جھلک دیکھ لیں یا معمولی سی خبر سن لیں کہ فلاں تاریخ کو مغرب کی جدید و جواں نسل کوئی تہوار منا رہی ہے۔ اس جدیدیت گزیدہ طبقہ کو تو تہوار منانے کا کوئی نہ کوئی بہانہ چاہئے۔جس ‘’ویلنٹائن ڈے’’ کو منا کر ہمارے ہاں بعض’’ محبت کے متوالے’’ ہلکان ہوتے رہے ہیں وہ’‘تقریب شریف’’ تو اہل مغرب کے لئے بھی بدعت جدیدہ کا درجہ رکھتی ہے۔ ماضی میں یورپ میں بھی اس کو منانے والے نہ ہونے کے برابر تھے۔ اگر یہ کوئی بہت اہم یا ہردلعریز تہوار ہوتا تو انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا میں اس کا ذکر محض چار سطور پر مبنی نہ ہوتا جہاں معمولی واقعات کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں ۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا میں سینٹ ویلنٹائن ڈے’’ کے متعلق چند سطری تعارف کے بعد’’ ویلنٹائن ڈے’’ کے متعلق تذکرہ محض ان الفاظ میں ملتا ہے’‘سینٹ ویلنٹائن ڈے’’ کو آج جس طرح عاشقوں کے تہوار(Love,s Festival) کے طور پر منایا جاتا ہے یا ویلنٹائن کارڈ بھیجنے کی جو نئی روایت چلی نکلی ہے اس کا سینٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق یا تو رومیوں کے دیوتاپر کا لیا کے حوالے سے 15 فروری کو منائے جانے والے تہوار بار آوری یا پرندوں کے’’ ایام اختلاط’‘(Meeting season) سے ہے۔گو یا اس مستند حوالے کی کتاب کے مطابق اس دن کو سینٹ سے سرے سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ بعض رومانیت پسند ادیبوں نے جدت طرازی فرماتے ہوئے اس کو خواہ مخواہ سینٹ ویلنٹائن کے سر تھوپ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ نے ماضی میں کبھی بھی اس تہوار کو قومی یا ثقافتی تہوار کے طور پر قبول نہیں کیا لبتہ آج کے یورپ کے روایت شکن جنونیوں کا معاملہ الگ ہے۔ایک اور انسائیکلوپیڈیا ‘’بک آف نالج’’ میں اس دن کے بارے میں نسبتاََ زیادہ تفصیلات ملتی ہیں مگر وہ بھی تہائی صفحہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس کی پہلی سطر ہی رومان انگیز ہے۔14" فروری محبوبوں کے لئے خاص دن ہے۔" اس کے بعد وہی پرندوں کے اختلاط کا ملتا جلتا تذکرہ ان الفاظ میں ملتا ہے۔’‘ایک وقت تھا کہ اسے سال کا وہ وقت خیال کیا جاتا تھا جب پرندے صنفی مواصلت کا آغاز کرتے ہیں اور محبت کا دیوتا نوجوان مردوں اور عورتوں کے دلوں پر تیر بر سا کر انہیں چھلنی کرتا ہے۔ بعض لوگ خیال کرتے تھے کہ ان کے مستقبل کی خوشیاں ویلنٹائن کے تہوار سے وابستہ ہیں ۔’‘اس انسائیکلوپیڈیا میں ‘’ ویلنٹائن ڈے’’ کا تاریخی پس منظر یوں بیان کیا گیا ہے:‘’ویلنٹائن ڈے’’ کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار پر کا لیا (Calia Luper) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیضوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کو سینٹ ویلنٹائن کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا ۔ اسے ہر اس فرد کے لئے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پر امید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلنٹائن والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیے کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے۔ اس کا خیا ل تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کا رڈ ز کا سلسلہ شروع کر دیا۔14 فروری کو سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں ہے البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا اس لئے ایک دن ویلنٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں یہ بتایا گیا ہے کہ14 فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہ سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے۔کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماََ ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کر دیا گیا ۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلنٹائن صاحب کو’‘شہید محبت’’ کے درجے پر فائز کرتے ہوئے ان کی یاد میں دن منانا شروع کر دیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی ادراسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال بھی عیسائی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیے۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذر آتش کر دیا جس پر’‘ویلنٹائن کارڈ’’ فروخت ہورہے تھے۔آج کل یورپ امریکہ میں ویلنٹائن ڈے کیسے منایا جاتاہے اور اس کو منانے والے دراصل کون ہیں ؟ اس کی تفصیلات جاننے کے بعد اس دن کو محض ‘’یوم محبت’’ سمجھنا درست نہیں ہے۔ یہ تہوار ہر اعتبار سے یومِ اوباشی کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ مغرب میں ‘’ محبت’’ کا تصور و مفہوم یکسر مختلف ہے جس جذبے کو وہاں’‘محبت’’ (Love) کا نام دیا جاتا ہے وہ در حقیقت بوالہوس(Lust) ہے۔ مغرب کے تہذیبی اہداف میں جنسی ہوس اور جنسی بائو لے پن کی تسکین کی خاطر مردوزن کے آزادانہ اختلاط کو بھر پور ہوا دینا ہے۔ اس معاشرے میں عشق اور فیق میں کوئی فرق روانہیں رکھا جاتا۔مردوزن کی باہمی رضامندی سے ہر طرح شہوت رانی اور زناکاری وہاں ‘’محبت’’ ہی کہلاتی ہے اسی طرح ویلنٹائن جنسی بے راہ روی کے لئے بطور استعارہ استعمال ہوتاہے۔ محترم عزیزالرحمن ثانی کے مطابق ایک فاضل دوست جونہ صرف امریکہ سے بین الاقوامی قانون میں پی ایچ ڈی کرکے آئے ہیں بلکہ وہاں ایک معروف یونیورسٹی میں پڑھانے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں انہوں نے اپنے چشم دیدواقعات کی روشنی میں اس کا پس منظر بیان کیا کہ حالیہ برسوں میں امریکہ اور یورپ میں اس دن کو جوش و خروش سے منانے والوں میں ہم جنس پرستی میں مبتلانوجوان لڑکے اور لڑکیاں پیش پیش تھیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سان فرانسسکو میں ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ہم جنس پرست خواتین و حضرات کے برہنہ جلوس دیکھے۔ جلوس کے شرکاء نے اپنے سینوں اور اعضائے مخصوصہ پر اپنے محبوبوں کے نام چپکار کھے تھے۔ وہاں یہ ایسا دن سمجھا جاتا ہے جب’‘محبت’’ کے نام پر آوارہ مرد اور عورتیں جنسی ہو سنا کی کی تسکین کے شغل میں غرق رہتی ہیں ۔ جنسی انار کا بدترین مظاہرہ اسی دن کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہ دوست آج کل لاہور میں ایک پرائیویٹ لاء کالج کے پرنسپل ہیں۔ ایک جدید روشن خیال اور وسیع المطالعہ شخص ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان میں ‘’ویلنٹائن ڈے’’ منانے والوں کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے کہا کہ’’ میراجی چاہتا ہے کہ اس دن کو منانے کے لئے جہاں جہاں اسٹال لگائے گئے ہیں انہیں آگ لگادوں ‘’۔قدیم روم میں اس تہوار کو’‘خاوند کے شکار’’ کادن سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں کسی عورت کے لئے مارکیٹ میں خاوند کی تلاش میں نکل کھڑے ہونا بے حمیتی اور بے غیرتی کی بات سمجھی جاتی ہے۔ہمارے خاندانی نظام میں عورت کو جو احترام حاصل ہے اس کے پیش نظر اس کی شادی بیاہ کا اہتمام اس کے خاندان کی ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ مغرب میں یہ کام وہاں کی عورت کو خود کرنا پڑتا ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے ۔’‘آپ سے یہود ونصار ہرگزراضی نہیں ہونگے جب تک کہ آپ انکے مذہب کے تابع نہ بن جائیں ‘’(البقرہ :120)اور اللہ کے رسول کا فرمان ہے ‘’تم اپنے سے پہلی امتوں کے طریقوں کی ضرورباضرور پیروی کروگے’بالشت دربالشت’ہاتھ درہاتھ حتی کہ اگر وہ گوہ کیبل میں داخل ہوئے ہونگے تو تم بھی ان کی پیروی میں اسمیں داخل ہوگے ‘ہم نے کہا اے اللہ کے رسول !کیا یہوداورنصار؟ آپ نے فرمایا: پھراور کون؟ ‘’ (صحیح بخاری تاب العتصام بالتاب والسن :8/151)اور آپ کا ارشاد ہے ‘’من تشبہ بِقوم فہو مِنھم’‘جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے(مسند احمد 2/50) قارئین محترم! دفتر تعاونی برائے دعوت وتوعی الجالیات ربوالریاض کے محقق شفیق الرحمن ضیاء اللہ اورمعروف عالم دین ابو عبد المعیدسے تہوارمحبت ‘’ ویلنٹائن ڈے’‘کے حوالے سے کتاب وسنت کی روشنی میںجو معلومات حاصل ہوئیں وہ درج ذیل ہیں۔ رب کریم کا ہم پر لا کھ لاکھ شکرو احسان ہے کہ ہمیں اس دنیائے آب وگل میں پیدا کرنے کے بعد ہماری رشدوہدایت کے لئے ا نبیا ورسل کا سلسلہ جاری کیا ‘جوحسب ضرورت وقتا فوقتا ہر قوم میں خدائی پیغام کو پہنچاتے رہے ‘اوراس سلسلہ نبوت کے آخری کڑی احمد مجتبیٰ’محمد مصطفی ہیں جوکسی خاص قوم کیلئے نہیں ‘بلکہ ساری انسانیت کے لئے رشدوہدایت کا چراغ بن کرآئے’جنہوں نے راہ ہدایت سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم کے روشن شاہراہ پرلا کر گامزن کیااورتیئیس سالہ دور نبوت کے اندر رب کریم نے دین کومکمل کردیا اور یہ فرما ن جاری کردیا کہ’’ الیوم ملت لم دِینم وتممت علیم نِعمتِی ورضِیت لم الِسلام دِینا ‘’آج میںنے تمہارے لئے دین کومکمل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھر پورکردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوگیا (سور المائدہ: 3 ) یہ آیت کریمہ حجة الوداع کے موقع پرجمعہ کے دن عرفہ کی تاریخ کو نازل ہوئی اور محمدۖ کے ذریعہ شریعت کی تکمیل کا اعلان کردیا گیا لہٰذا اب دین میں کسی کمی وزیادتی کی ضرورت باقی نہ رہی اور آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ’‘لوگوں میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رہوگے گمراہ نہیں ہوگے’ایک کتاب اللہ دوسری میری سنت یعنی حدیث’‘پھرآپ کا چند مہینے کے بعدوصال ہوگیااور لوگ چند صدیوں تک دین کے صحیح شاہراہ پر قائم رہے یہاں تک کہ خیرالقرون کا دور ختم ہوگیااوررفتہ رفتہ عہد رسالت سے دوری ہوتی گئی اورجہالت عام ہونے لگی’ دین سے لگا ؤکم ہوتا گیا’مختلف گمراہ اور باطل فرقے جنم لینا شروع کردئیے ‘یہودو نصار اور دشمنان اسلام کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ تیز پکڑتا گیا اوربہت سارے باطل رسم ورواج اورغیر دینی شعائر مسلمانوں نے یہودونصاری کی اندہی تقلید میں اپنا نا شروع کردیا ‘چنانچہ انہیں باطل رسم رواج اورغیردینی شعائر میں سے عید الحب ‘ویلنٹائن ڈے یا محبت اورعشق وعاشقی کا تہوار ہے ۔ جسکوموجودہ دورمیں ذرائع بلاغ (انٹرنیٹ’ٹیلی ویژن’ریڈیو’اخباروجرائد)کے ذریعہ پوری دنیا میںبڑے ہی خوشنما اورمہذب انداز میں پیش کیا جارہاہے جسمیںنوجوان لڑکوںاورلڑکیوں کاباہم سرخ لباس میں ملبوس ہوکر گلابی پھولوں’عشقیہ کارڈوں’چاکلیٹ اورمبارکبادی وغیرہ کے تبادلے کے ذریعے عشق ومحبت’کا کھلم کھلا اظہارہوتا ہے ‘اوربے حیائی وفحاشی اورزناکاری کے راستوں کو ہموارکیا جاتا ہے اوررومی وثنیت اورعیسائیت کے باطل عقیدے اورتہوارکو فروغ وتقویت دی جاتی ہے اور مسلمان کافروں کی اند ھی تقلید کرکے اللہ ورسول کی غضب وناراضگی کا مستحق ہوتا ہے۔آئیے ہم آپ کو اس تہو ار کی حقیقت وپس منظر اور اسلامی نقطہ نظر سے اسکے حکم کے بارے میں بتاتے چلیں تاکہ اس اندھی رسم ورواج کا مسلم معاشرے میں ایک ناسور کی طرح پھیلتا چلا جارہا ہے اورنوخیز عمرکے لڑکوں اور لڑکیوں کو فحاشی و زناکاری کی طرف دعوت دے رہا ہے اسکا علاج ا ورخاتمہ ہوسکے ۔ویلنٹائن ڈے(یوم محبت) کا پس منظریوم محبت رومن بت پرستوں کے تہواروں میں سے ایک تہوارہے جبکہ رومیوں کے یہاں بت پرستی سترہ صدیوں سے زیادہ مدت سے رائج تھی اوریہ تہواررومی بت پرستی کے مفہوم میں حب الہٰی سے عبار ت ہے ۔اس بت پرست تہوار کے سلسلے میں رومیوں اوران کے وارثین عیسائیوں کے یہا ں بہت ساری داستانیں اورکہانیاں مشہورہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ مشہوریہ ہے کہ رومیوں کیاعتقاد کے مطابق شہرروما کے مسِس روملیوس کو ایک دن کسی مادہ بھیڑیا نے دودھ پلایا جس کی وجہ سے اسے قوت فکری اور حلم وبردباری حاصل ہوگئی لہذارومی لوگ اس حادثہ کی وجہ سے ہرسال فروری کے وسط میں اس تہوار کو منایا کرتے ہیں,اسکا طریقہ یہ تھا کہ کتا اور بکری ذبح کرتے اور دو طاقتور مضبوط نوجوان اپنے جسم پر کتے اور بکری کے خون کا لیپ کرتے,اور پھر اس خون کو دودہ سے دہوتے,اور اسکے بعد ایک بہت بڑا قافلہ سڑکوں پرنکلتا جسکی قیادت دونوں نوجوانوں کے ہاتہ میں ہوتی, اوردونوں نوجوان اپنیساتہ ہاتہ میں چمڑے کے دو ٹکڑے لئے رہتے, جو بھی انہیں ملتا اسے اس ٹکڑے سے مارتے اور رومی عورتیں بڑی خوشی سے اس ٹکڑے کی مار اس اعتقاد سے کھاتیں کہ اس سے شفا اور بانجھ پن دور ہو جاتا ہے ۔سینٹ’‘ویلنٹائن ‘’کا اس تہوار سے تعلق :سینٹ ویلنٹائن نصرانی کنیسہ کے دو قدیم قربان ہونے والے اشخاص کا نام ہے اورایک قول کے مطابق ایک ہی شخص تھا جو شہنشاہ’’ کلاودیس ‘’کے تعذیب کی تاب نہ لا کر 296 میں ہلاک ہوگیا ۔اور جس جگہ ہلاک ہوا اسی جگہ 350میلادی میں بطور یادگار ایک کنیسہ تیار کردیا گیا ۔ جب رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی تو وہ اپنے اس سابقہ تہوار کو مناتے رہے لیکن انہوں نے اسے بت پرستی’محبت الہٰی کے مفہوم سے نکا ل کردوسرے مفہوم محبت کے شہدامیںتبدیل کر دیا اورانہوں نے اسے محبت وسلامتی کی دعوت دینے والے’‘سینٹ ویلنٹائن’‘کے نام کردیا جسے وہ اپنی گمان کے مطابق اسے اس راستے میں شہید گردانتے ہیں ۔اور اسے عاشقوں کی عید اورتہوار کا نام بھی دیتے ہیںاورسینٹ ویلنٹائن کو عاشقوں کا شفارشی اور ان کا نگراں شمار کرتے ہیں۔اس تہوار کے سلسلے میں ان کے باطل اعتقاد ات میں سے یہ تھی کہ نوجوان اور شادی کی عمر میں پہنچنے والی لڑکیوں کے نام کاغذ کے ٹکڑوں پرلکھ کر ایک برتن میں ڈالتے اوراسے ٹیبل پر رکھ دیا جاتااور شادی کی رغبت رکھنے والے نوجوان لڑکوں کو دعوت دی جاتی کہ ا ن میں سے ہرشخص ایک پرچی کو نکا لے لہذا جس کا نام اس قرعہ میں نکلتا وہ اس لڑکی کی ایک سال تک خدمت کرتا اور وہ ایک دوسرے کے اخلاق کا تجربہ کرتے پھر بعد میں شادی کرلیتے یاپھر آئندہ سال اسی تہوار یوم محبت میں دوبارہ قرعہ اندازی کرتے۔لیکن دین نصرانی کے علما اس رسم کے بہت زیادہ مخالف تھے اوراسے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے اخلاق خراب کرنے کا سبب قرار دیالہذا اٹلی جہاں پر اسے بہت شہرت حاصل تھی اسے باطل وناجائز قراردے دیا گیا پھر بعد میں اٹھارہ اورانیسویں صدی میں دوبارہ زندہ کیا گیا وہ اس طرح کہ کچھ یوروپی ممالک میں کچھ بک ڈپوں پر ایک کتاب (ویلنٹائن کے نام )کی فروخت شروع ہوئی جس میں عشق ومحبت کے اشعار تھے ,جسے عاشق قسم کے لوگ اپنی محبوبہ کو خطوط میں لکھنے کیلئے استعمال کرتے تھے اوراس میں عشق ومحبت کے خطوط لکھنے کے بارہ میں چند ایک تجاویزبھی درج تھے۔2 ا س تہوار کاایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب رومی بت پرستوںنے نصرانیت قبو ل کرلی اور عیسائیت کے ظہور کے بعد اس میں داخل ہوگئے توتیسری صدی میلادی میں رومانی بادشاہ کلاودیس دوم نے اپنی فوج کے لوگوں پر شادی کر نے کی پابندی لگادی کیونکہ فوجی بیویوں کی وجہ سے اس کیساتھ جنگوں میں نہیں جاتے تھے۔لیکن سینٹ ویلنٹائن نے اس فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے چوری چھپے فوجیوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیااور جب کلاودیس کو اس کا علم ہوا تو اس نے سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیااور اسے پھانسی کی سزادے دی کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران ہی سینٹ ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی اور سب کچھ خفیہ ہواکیونکہ پادریوں اور راہبوں پر عیسائیوںکے نزدیک شادی کرنا اورمحبت کے تعلقات قائم کرنا حرام ہیں نصاری کے یہاں اس کی شفارش کی گئی کہ نصرانیت پر قائم رہے اورشہنشاہ نے اسے عیسائیت ترک کرکے رومی بت پرستی کے دین کو قبول کرنے کو کہا کہ اگر وہ عیسائیت تر ک کردے تو اسے معاف کردیا جائیگا اور وہ اسے اپنا داماد بنا نے کے ساتھ اپنے مقربین میں شامل کرلے گا لیکن ویلنٹائن نے اس سے انکار کردیا اورعیسائیت کو ترجیح دی اوراسی پر قائم رہنے کا فیصلہ کیاتو چودہ فروری 270 کے دن اور پندرہ فروری کی رات اسے پھانسی دے دی گئی اور اسی دن سے اسے قدیس یعنی پاکباز بشب کا خطاب دے دیا گیا ۔اسی قصہ کوبعض مصادر نے چند تبدیلی کے سا تھ اس طرح ذکرکیا ہے کہ پادری ویلنٹائن تیسری صدی عیسوی کے اواخرمیں رومانی بادشاہ کلاودیس ثانی کے زیر اہتمام رہتا تھا کسی نافرمانی کی بنا پر بادشاہ نے پادری کو جیل کے حوالے کردیا جیل میں جیل کے ایک چوکیدار کی لڑکی سے اس کی شناسائی ہوگئی اور وہ اس کا عاشق ہوگیا یہاں تک کہ اس لڑکی نے نصرانیت قبول کرلیا اور اس کے ساتھ اس کے 46رشتہ دار بھی نصرانی ہوگئے وہ لڑکی ایک سرخ گلاب کا پھول لے کر اس کی زیارت کے لئے آتی تھی جب بادشاہ نے یہ معاملہ دیکھا تو اسے پھانسی دینے کا حکم صادر کردیاپادری کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے یہ ارادہ کیا کہ اس کا آخری لمحہ اس کی معشوقہ کے ساتھ ہو چنانچہ اس نے اس کے پاس ایک کارڈ ارسال کیا جس پر لکھا ہوا تھانجات دہندہ ویلنٹائن کی طرف سے پھر اسے 14فروری 270 کو پھانسی دے دی گئی اس کے بعد یورپ کی بہت ساری بستیوں میں ہر سال اس دن لڑکوں کی طرف سے لڑکیوں کوکارڈ بھیجنے کا رواج چل پڑا ایک زمانہ کے بعد پادریوں نے سابقہ عبارت کو اس طرح بدل دیا پادری ویلنٹائن کے نام سے ۔انہوں نے ایسا اسلئے کیا تاکہ پادری ویلنٹائن اور اس کی معشوقہ کی یادگارکو زندہ جاوید کردیں ۔اورکتاب قص الحضارمیں ہے کہ کنیسہ نے گرجا گھر کی ایک ایسی ڈائری تیارکی ہے جس میں ہر دن کسی نہ کسی پادری(قدیس)کا تہوارمقرر کیاجاتا ہے اورانگلینڈ میں سینٹ ویلنٹائن کا تہوار موسم سرما کے آخر میں منایا جاتا ہے اورجب یہ دن آتا ہے تو ان کے کہنے کے مطابق جنگلوں میں پرندے بڑی گرمجوشی کے ساتھ آپس میں شادیاں کرتے ہیںاورنوجوان اپنی محبوبہ لڑکیوں کے گھروں کی دہلیزپرسرخ گلاب کے پھول رکھتے ہیں(قص الحضار تالیف: ول ڈیورنٹ 15-33) ویلنٹائن ڈے کے موقع پرخوشی وسرور کا اظہارکیا جاتا ہے۔سرخ گلاب کے پھولوں کا تبا دلہ اوروہ یہ کام بت پرستوں کی حب الٰہی اورنصاری کے باب عشق کی تعبیرمیں کرتے ہیں ۔اوراسی لئے اسکا نام بھی عاشقوں کا تہوار ہے ۔ اس کی خوشی میں کارڈوں کی تقسیم اور بعض کارڈوں میں کیوپڈ کی تصویر ہوتی ہے جو ایک بچے کی خیالی تصویر بنائی گئی ہے اس کے دوپیر ہیں اور اس نے تیر کمان اٹھا رکھا ہے جسے رومی بت پرست قوم’محبت کا دیوتا مانتے ہیں ۔کارڈوں میں محبت وعشقیہ کلمات کا تبادلہ جو اشعار’یا نثریا چھوٹے چھوٹے جملوں کی شکل میں ہوتے ہیںاور بعض کارڈوں میں گندے قسم کے ا قوال اور ہنسانے والی تصویریں ہوتی ہیںاور عام طورپر اس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ’‘لنٹائینی’’ ہو جا جو کہ بت پرستی کے مفہوم سے منتقل ہو کر نصرانی مفہوم کی تمثیل بنتی ہے ۔بہت سے نصرانی علاقوں میں دن کے وقت بھی محفلیں سجائی جاتی ہیں ,اوررات کو بھی عورتوں اورمردوں کا رقص وسرور ہوتا ہے ,اور بہت سے لوگ پھول ‘چاکلیٹ کے پیکٹ وغیرہ بطورتحفہ محبت کرنے والوں’ شوہروں اور دوست واحباب کو بھیجتے ہیں ۔مذکورہ بالا کہانیوں کے تناظرمیں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تہوار اصل میں رومی بت پرستوں کا عقیدہ ہے جسے وہ محبت کے خداسے تعبیرکرتے ہیں۔رومیوں کے یہاں اس تہوارکی ابتدا قصے کہانیوں اورخرافات پرمشتمل تھی جیسے مادہ بھیڑیے کا شہرروم کے مسِس کودودھ پلانا جو حلم وبردباری اورقوت فکرمیں زیادتی کا سبب بنایہ عقل کے خلاف ہے کیونکہ حلم وبردباری اورقرت وفکر میں اضافہ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے نہ کہ بھیڑیا اوراسی طرح یہ عقیدہ کہ ان کے بت برائی اورمصیبت کو دفع کرتے ہیں اورجانوروں کو بھیڑیوں کے شر سے دوررکھتے ہیں باطل اور شرکیہ عقیدہ ہے۔اس تہوار سے بشپ ویلنٹائن کے مرتبط ہونے میں کئی ایک مصادر نے شک کا اظہارکیا ہے اوراسے وہ صحیح شمارنہیں کرتے۔کیتھولیک فرقہ کے عیسائی علما نے اس تہوارکو اٹلی میںمنانے پر پابندی لگا دی کیونکہ اس سے گندے اخلاق کی اشاعت اورلڑکوں و لڑکیوں کی بے راہ روی بڑھنے سے فحاشی وزناکاری کا دروازہ کھلتا ہے ۔ جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔مصادر و ماخذ:۔١)
SAIF ASHIR
About the Author: SAIF ASHIR Read More Articles by SAIF ASHIR: 60 Articles with 106562 views I am 22 years old. .. View More