حضرت بھلوی ؒ کاارشاد ہے کہ ’’ اللہ والے اللہ کو دل دیتے
ہیں یا رسول اللہ ﷺ کو دل دیتے ہیں یا پھر اللہ والے اللہ اوراس کے رسول
ﷺکے فرمانبرداروں کو دل دیتے ہیں مگر ہمارا حال یہ ہے کہ سفید چمڑی والی
عورت ذرا سی مسکرا دے تووہ ہمارا ایمان لے جاتی ہے۔ گویا ہمارا ایمان سفید
چمڑی والی عورت کے قبضے میں ہے ، افسوس کانہیں ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ حضرت
بایزید بسطامی ؒ ایک روز اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے
’’ماں میرے اندر اللہ تعالیٰ نے اتنا کمال پیدا کر دیا ہے کہ امراء ، وزراء
و علماء جو بھی آتے ہیں میری عزت کرتے ہیں۔ ماں بولیں: ’’بیٹا یہ کمال تیرا
نہیں میرا ہے‘‘ بایزید بسطامی ؒ نے کہا :’’عبادت ، ریاضت و اطاعت میں کرتا
ہوں اس میں آپ کا کمال کہاں سے آگیا‘‘ماں نے کہا’’ اگر میں تجھے تہجد کے
وقت اٹھ کر نماز پڑھ کر تجھے دودھ نہ پلاتی تو یہ کمال تیرے اندر کہاں سے
پیدا ہوتا‘‘ مگر افسوس ہمارے اندر ایسے کمالات کس طرح پیدا ہو سکتے ہیں
کیونکہ آج کا معاشرہ تو یورپ کی تقلید میں پاگل ہو چکا ہے، اب ایسی عبادت
گزار ماؤں کی گود کہاں نصیب کہ جو اپنی اولادوں کو شریعتِ محمدیہ ﷺ کے
دائرے میں رہ کر زندگی کے آداب سے آشناہوں اور ان کو بھی آشنا کروائیں
کیونکہ اب تو علم کی جگہ جہالت نے لے لی ہے۔لہذا ان آدابِ زندگی سے روشناس
ہونے کے لیے قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنا ضروری ہے، اسی امر کو مدِنظر رکھتے
ہوئے روز نامہ اسلام کے ذریعے اس چھوٹی سی کوشش کی ہے اور قرآن و حدیث میں
سے چند آدابِ زندگی جن سے آج کی ماں کو استفادے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی
نسل کو تعلیمات اسلام سے منور کر سکے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
علم والے ہی خدا سے ڈرتے ہیں(القرآن)، علم حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے
سبقت کرو(الحدیث)، علم پیغمبروں کی میراث ہے اور مال کافروں کی(سیدنا
ابوبکر صدیقؓ )۔ علم حاصل کرو بڑھاپے سے پہلے(سیدنا فاروق اعظمؓ )۔ علم دین
کے ستاروں کا خزانہ ہے (سیدنا عثمان غنیؓ )۔ علم سے دل کو روشنی ملتی ہے۔
(سیدنا علی المرتضی ٰؓ )۔ علم بغیر عمل کے ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر
جسم(سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ ؒ )۔ علم حاصل کرنا نوافل ادا کرنے سے افضل
ہے (سیدنا امام شافعی ؒ )۔ علم کے حصول کے لئے تقویٰ ضروری ہے(سیدنا اما م
احمد بن حنبل ؒ )۔ علم ایک نور ہے جو اللہ تعالیٰ دل میں رکھ دیتے ہیں
(سیدنا امام مالک ؒ ) ۔ اکڑ اکٹر کر اتراتے ہوئے نہ چلو (القرآن)۔ کوئی مرد
عورتوں کے درمیان نہ چلے (ابوداؤدؓ)۔ اللہ تعالیٰ کو صفائی ستھرائی پسند
ہے۔ لہذا گھروں سے باہر جو جگہیں خالی پڑی ہیں ان کو صاف رکھا کرو (ترمذی)۔
چھپ کر کسی کی بات نہ سنو (بخاری)۔نصیحت ایسی چیز ہے جس کی عقل مند کو
ضرورت نہیں اور بے وقوف اسے قبول نہیں کرتے ۔(حضرت محمد ﷺ)۔ سب سے زیادہ
عقل مند شخص وہ ہے جو اپنی بات کو اچھی طرح ثابت کر سکتا ہے ۔(حضرت محمد
ﷺ)۔ دنیا میں جو چیز سب سے کم ہے وہ سچائی اور امانت ہے اور سب سے زیادہ جو
چیز ہے وہ جھوٹ اور خیانت ہے۔ (حضرت محمد ﷺ)۔
اپنی والدہ کے پاس جانا ہو تب بھی اجازت لے کر جاؤ (امام مالکؒ )۔ کسی کی
چیز مذاق میں لے کر نہ چل دو (ترمذی) ۔ زمانہ کو برامت کہو، اس کا الٹ پھیر
اللہ ہی کے قبضہ میں ہے(مسلم)۔ہوا کو برا مت کہو (ترمذی)۔ جب رات کو چلنا
پھرنا بند ہو جائے (یعنی گلی کوچوں میں آمدو رفت بند ہو جائے) تو ایسے وقت
باہر کم نکلو کیونکہ اللہ جل شانہ (انسانوں کے علاوہ) اپنی دوسری مخلوق میں
سے جسے چاہتے ہیں چھوڑ دیتے ہیں(یعنی شیاطین کو گھومنے کی آزادی دے دی جاتی
ہے جس کی وجہ سے وہ پھیل جاتے ہیں۔ (شرح السنہ واللہ علم ) ۔اپنا راز دوست
سے بھی نہ کہو ، خواہ وہ دوست بہت ہی مخلص ہو، کیا خبر کہ ایک دن وہ دشمن
بن جائے۔ اسی طرح ہر وہ تکلیف جو تم اپنے دشمن کو پہنچاسکتے ہو نہ پہنچا ؤ۔
کیا خبر کہ یہی دشمن ایک دن تمہارا دوست بن جائے ۔(شیخ سعدی ؒ )۔ بوجھ
اٹھانے والے بیل اور گدھے ، لوگوں کو ستانے والے انسانوں سے بہتر ہیں ( شیخ
سعدیؒ )۔ جس نے علم حاصل کیا اور عمل نہ کیا وہ اس آدمی کی مانند ہے جس نے
ہل چلایا اور بیج نہ بکھیرا ۔(شیخ سعدی ؒ )۔ جو شخص اپنی تعریف پر خوش ہوتا
ہے اور خوشامد کرتا ہے وہ پرلے درجے کا بے وقوف ہے۔ (شیخ سعدیؒ )۔ زندگی کو
غنیمت جانو ، یہ بہت جلد تم سے لے لی جائے گی۔ (مولانا روم ؒ )۔ آزادی کا
ایک لمحہ غلامی کے ہزار سال سے بہتر ہے (سلطان ٹیپوؒ )۔ عقل مند بولنے سے
پہلے سوچتا ہے اور بے وقوف بولنے کے بعد (حضرت حسن بصری ؒ )۔ دنیا عاقل کی
موت پر جاہل کی زندگی پر ہمیشہ آنسو بہاتی ہے۔ (افلاطون)۔ اللہ ہر بندے کو
رزق دیتا ہے۔ لیکن اس کے گھونسلہ میں نہیں ڈالتا ۔(ایک دانشور)۔ ان آداب کو
خوب یاد کر لو اور عمل میں لاؤ بچوں کو یاد کراؤ اور ان سے عمل کراؤ، کھاتے
پیت اور سوتے اور اٹھتے بیٹھتے وقت اور ہر موقع پر ان سے پوچھ گچھ کرو کہ
فلاں چیز پر عمل کیایا نہیں ۔ تاکہ ہم ایک نئی مثبت سوچ کو بیدا ر کر سکیں
اور اس کے ثمرات حاصل کر سکیں تاکہ اس اسلامی معاشرہ کو اسلامی بنیادوں پر
قائم کیا جا سکے۔
(و باللہ التوفیق)۔ |