زراعت ریڑھ کی ہڈی
پاکستان میں آج بھی70فیصدلوگ زراعت سے مردعورت،بچے بڑھے مشتمل ہیں ملکی
معشیت میں اس طبقے کا بلواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ضرورہوتا ہے ہماراملک آج
بھی معاشی بدحالی اور کئی قرضوں میں مبتلا ہے کئی دہائیوں سے ہماری حکومتیں
کسانوں کی بہتری کیلئے اصلاحات کے زبانی دعوے کرتے آئے ہیں مگرآج تک ان
باتوں کو تکمیل تک نہیں پہنچایاالیکشن قریب آتے ہیں کبھی کسانوں کوسبسڈی دے
دی جاتی ہے توکبھی انہیں قرضے دیئے جاتے ہیں تاکہ ان کے ووٹ حاصل کرالیکشن
جیت سکیں مگراپنی جیت کے بعد اس شعبہ کو بالکل ہی نظراندازکردیتے ہیں زرعی
پیداواربڑھانے کیلئے ہمیں نئی پالیسیوں کی ضرورت ہے اورپرانی پالیسیوں میں
تبدیلی کی ضرورت ہے اگرہم پیدوارترقی کے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں
نچلی سطح پرچھوٹے کسانوں کومالکانہ حقوق دینے کی ضرورت ہے۔ایک سوال ہے جو
میرے ذہن میں آتا ہے اوریقیناًہرباشعورانسان کے دماغ میں یہ سوال آتا
ہوگاکہ پاکستان ایشیاء کے دیگرممالک سے زراعت کے شعبہ میں اتنا پیچھے کیوں
ہے؟؟ میرے ذہن میں توآتا ہے کہ اس کے ذمہ دار ہمارے حکمران ہیں جنہوں نے
زراعت کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا ہوا ہے ،بغیرٹیسٹ کے کاشتکاری
کرنا،ساراسال نہری پانی نہ ملناجس کی وجہ سے فصل نہ توطاقت ورہوتی ہے اور
نہ ہی پیداواراچھی ہوتی ہے اسکے علاوہ زرعی ماہرین کا مکمل طورپرتوجہ نہ
دینااس کے علاوہ ہمارے کاشتکار ناخواندہ ہیں اور جو تھوڑے بہت پڑھے لکھے
ہیں انہیں قرضوں نے برباد کیا ہواہے ان پڑھ ہونے کی وجہ سے اسے زمین مٹی کے
ٹیسٹ کرانے کے فوائد کا نہیں پتہ اسی وجہ سے لاکھوں روپے بنک سے قرض لے
کراپنے بیٹے بیٹی کی شادی کرتا ہے مگر20روپے خرچ کرکے مٹی کاٹیسٹ کروانا
گوارانہیں کرتااگرہمارے کسان کو نقصان اورفوائد کا پتہ چل جائے تو کسان
خوشحال ہوجائے مگربات توصرف لاعلمی کی ہے اب ہمارے کسان کونامیاتی مادہ کا
نہیں پتا اور یہ بھی نہیں پتا نامیاتی مادہ کتنا ہونا چاہیے زیادہ کس وجہ
سے ہوپوداخوراک کس وجہ سے لیتا ہے ہماراکسان جانتا تک نہیں کہہ DAPکس زمین
کی ضرورت ہے اورنہ ہی وہ جانتا ہے کہ میرے علاقے کے فیلڈاسسٹینٹ کے کیا
فرائض ہیں یہ صرف اسی وجہ سے نہیں ہوتا کیونکہ میرے ملک کازمیندارپڑھا لکھا
نہیں اسی وجہ سے اکثرکسانوں کے بیٹے بھی پڑھے لکھے نہیں ہوتے کیونکہ ان کی
سوچ ہوتی ہے ویسے بھی اس نے اپنی زمینیں سنبھالنی ہیں مگرانکو کون سمجھائے
پڑھائی سے انسان اور جانور میں فرق محسوس ہوتا ہے اور کسان کو اپنے مسائل
اور وسائل کا درست پتاچلتا ہے جس کا حل پڑھالکھا زمیندارآسانی سے نکال سکتا
ہے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارے کسانوں کو یہ تک نہیں پتا کہ کوئی فصل
کاٹنے کے بعدمثلاً گندم ،کماد وغیرہ کاٹنے کے بعدآگ لگادیتے ہیں جس کی وجہ
سے زمین کی جلد مسام جل جاتے ہیں جن کیساتھ دوست کیڑے بھی مرجاتے ہیں اور
اس کا ازالہ اگلی فصل کوبھگتنا پڑتا ہے اسی وجہ سے چاہیے ہمارے پڑھے لکھے
کسان ان پڑھ کسانوں کو زراعت کے متعلق بتائیں تاکہ زراعت کے شعبے میں ترقی
ہوکیونکہ حکومت نے اس شعبہ کی طرف دیکھنا تک نہیں زراعت کونئے تقاضوں کے
متعلق لے کے جانا چاہیے کیونکہ زراعت کا شعبہ ترقی کرے گا توملک ترقی کرے
گاحکومت کوبھی چاہیے کسانوں کی عارضی امداد کے بجائے انہیں جدیدتقاضوں سے
روشناس کرایا جائے اﷲ پاک نے ہمارے پیارے ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں رکھی
جس میں ٹھاٹھیں مارتا سمندر،معدنیات سے مالا مال فلک بوس پہاڑ،بہترین نہری
نظام،جفاکش کاشتکاراورچاروں موسم عطیہ خداوندی ہے زراعت کے شعبہ کو مضبوط
کرنے کیلئے چھوٹے کسانوں کو مالکانہ حقوق دینے ہوں گے اورملک کومعاشی
طورپرمضبوط بنانے کیلئے کمزورطبقہ کو حقوق دے کرزمین سمیت قدرتی وسائل
پرحصہ داربنانا ہوگایہ توحقیقت ہے کہ نچلے حصہ کی غربت کرنے کازرعی
اشیاء،اجناس اور مصنوعات سے براہ راست تعلق ہے مگرایک لمحہ فکریہ ہے کہ
چھوٹے کسانوں سے انکی زمینیں ہتھیانے کی تعدادمیں مسلس اضافہ ہورہا ہے فارم
ہاؤسز کے شوقین دولت مندحضرات ان کسانوں سے ان کی زمینیں اونے پونے داموں
میں خریدکرانہیں ان کی زمینوں سے محروم کررہے ہیں چھوٹے طبقے کے کسانوں کی
زمینیں یہ رہائشی سکیمیں بھی لے کرزراعت کو نقصان پہنچا رہے ہیں اس سے قبل
بہت دیرہوجائے اس کوسمجھنے اورپالیسیوں کوتبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ
زراعت کو بربادہونے سے بچایا جاسکے غریب لوگ زراعت اور زرعی صنعت سے وابستہ
ہونے کی وجہ سے سرسبز فصلوں سے محتاج ہورہے ہیں جن کی وجہ سے صنعتی شعبہ
میں ٹیکسٹائل ملزاوردیگرپیداورای ملیں چلتی ہیں اوران میں کام کرنے والے
مزدوروں کی زندگی کا پہیہ رواں دواں ہے ہمارے ہاں کپڑے کی صنعت کے فروغ اور
ہماری برآمدات کا انحصاربھی اسی زراعت کے مرہون منت ہے کس قدرتکلیف کی بات
ہے کہ 70سال سے کوششوں کے باوجود ہم ملک کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے
قابل نہیں ہوئے حالانکہ ہمارے پاس محنت کش افرادی قوت اوروسیع زراعی رقبہ
موجود ہے ہم وزیراعظم عمران خان سے امیدکرتے ہیں کہ زراعت کی ترقی کیلئے
اقدامات کریں گے اورکسانوں کے مسائل حل کریں گے ۔
|