20ویں صدی کی ابتدا میں باتصویر پوسٹ کارڈ آج کے دور کے
انسٹا گرام کی طرح تھے۔ یہ پوسٹ کارڈ یورپ کے لوگوں کو برطانوی دور حکومت
میں ہندوستانیوں کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں۔
|
|
حال ہی میں لندن کی سوئس یونیورسٹی میں سنہ 1900 سے 1930 کے دوران ہندوستان
سے یورپ روانہ کیے جانے والے پوسٹ کارڈز کی ایک خصوصی نمائش لگائی گئی ہے
جس میں تقریباً ایک ہزار پوسٹ کارڈز ہیں۔
نمائش کے شریک کیوریٹر ڈاکٹر سٹیون پاٹنم ہیو کا کہنا ہے کہ 'ہم یہ نہیں
چاہتے کہ یہ پوسٹ کارڈ نوآبادیاتی دور کی یادیں تازہ کریں۔ ہم یہ چاہتے ہیں
نوآبادیاتی دور کی تاریخ کے سلسلے میں ہم سب حقیقت سامنے لائیں۔ ہم یہ بھی
چاہتے ہیں کہ لوگ ان تصاویر کو اپنے اپنے تناظر میں دیکھیں۔‘
اس نمائش میں شامل پوسٹ کارڈ ڈاکٹر سٹیون پاٹنم اور ایملی روز سٹیونسن کے
ذاتی ذخیرے سے لیے گئے ہیں۔ انھوں نے ان پوسٹ کارڈز کو ای کامرس کی ویب
سائٹس ای بے اور ایفمیرا سے خریدا ہے۔ یہ ویب سائٹس پرانی اشیا، کتابیں اور
مخطوطات فروخت کرتی ہیں۔
|
|
فن تعمیر کی معلومات کا ذریعہ
اس دور میں پوسٹ کارڈ دوسروں کے ساتھ رابطے میں رہنے کا ایک اہم ذریعہ تھے۔
نمائش کے منتظمین نے بتایا کہ سنہ 1902 اور 1910 کے درمیان برطانوی پوسٹل
سروس نے بڑی تعداد میں پوسٹ کارڈز کی ترسیل کی۔
ڈاکٹر ہیو کہتے ہیں کہ 'خواندگی کے لیے جو کام پرنٹنگ پریس نے کیا، فوٹو
گرافی کی دنیا کے لیے وہی کام پوسٹ کارڈز نے سرانجام دیا۔
'اس دور میں تصاویر خریدنا مہنگا سودا تھا لیکن فوٹو گرافی کے پوسٹ کارڈز
سستے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں شائع کیے جاتے تھے۔'
اس نمائش میں جنوبی ہند کے دو شہر مدراس (اب چنئی) اور بنگلور (اب بنگلورو)
سے منسلک پوسٹ کارڈ شامل کیے ہیں۔
ایک دوسرے سے 215 میل (346 کلومیٹر) کے فاصلے پر واقع دونوں شہروں سے متعلق
تصویروں کی نمائش میں ہندوستانیوں کے طور طریقوں، قدامت پسندی اور روزمرہ
کی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔
ڈاکٹر ہیو کہتے ہیں کہ 'شہر کی عمارتوں کی تصویر والے پوسٹ کارڈز میں مدراس
پوسٹ اور ٹیلی گراف آفس کا دفتر نظر آتا ہے۔ یہ 'تاریخ سے منسلک کہانیوں'
کا حصہ ہے جس میں آپ کی 'ذاتی زندگی سے منسلک تاریخ' بھی ہے۔
|
|
اس تصویر میں نظر آنے والی عمارت آج بھی شہر میں ڈاک خانے کا کام کر رہی ہے۔
ڈاکٹر ہیو کہتے ہیں کہ انھوں نے کئی پوسٹ کارڈ اکٹھے کیے اور اس کی بنیاد
پر نوآبادیاتی دور میں ہندوستانی کی معلومات کو یکجا کیا ہے۔
اس نمائش میں پیش کردہ پوسٹ کارڈز کئی موضوعات کے تحت سجائے گئے ہیں جن میں
فن تعمیر، روز مرہ کی زندگی، یورپی اور مقامی لوگوں کے درمیان اختلاط وغیرہ
جیسے زمرے شامل ہیں۔
|
|
مالک اور ملازم کے تعلقات
اس دور میں سڑکوں اور گلیوں کے علاوہ، عوامی عمارات کے پوسٹ کارڈ بہت مقبول
تھے۔
یہ تصاویر انڈیا کے شہروں کے بارے میں برطانوی حکمرانوں کی سمجھ اور منصوبہ
بندی کے بارے میں بہت کچھ کہتی ہیں۔ یہ تصاویر عام اور نجی زندگی کے ساتھ
ہندوستانیوں اور گوروں کے درمیان کے فرق کو بھی واضح کرتی ہیں۔
سنہ 1900 میں مدراس کے ایک پبلشر نے 'ماسٹرز' نام کے پوسٹ کارڈز کی ایک
مقبول سیریز شائع کی تھی۔
|
|
ان پوسٹ کارڈز پر شائع معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ برطانوی دور حکومت میں
مالک اور نوکر کے درمیان کے تعلقات کو 'مضحکہ خیز' انداز میں پیش کیا گيا
تھا۔
اس سیریز کے تحت شائع ہونے والے پوسٹ کارڈز سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ
ہندوستانی باشندے اپنے مالکوں کے طور طریقوں کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔
ان پوسٹ کارڈز میں انھیں بیئر، سگریٹ پیتے ہوئے، اپنے پاؤں کرسیوں پر رکھے
اخبار پڑھتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس دور میں انھیں ان باتوں کی اجازت نہیں
تھی کیونکہ انھیں 'مساوی حقوق' حاصل نہیں تھے۔
تفریق اور عدم مساوات سے پر مبنی پوسٹ کارڈ
ہیگن باٹمز اینڈ کمپنی نام کے چند ناشروں نے 'مدراس ہنٹ' جیسے بعض متنازع
پوسٹ کارڈ بھی بنائے۔
اس سیریز کے تحت شائع ہونے والے پوسٹ کارڈز میں یہ لکھا گیا ہے کہ یہ
تصاویر کیوں چھاپی گئی تھیں۔ اس سلسلے کی تمام تصاویر میں چند خواتین کو
ایک دوسرے کے سر سے جوں تلاش کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ان تصاویر کے ذریعے شکار کے برطانوی طریقوں کا مذاق اڑایا گيا تھا۔
|
|
ان پوسٹ کارڈز کے کلیکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ سیریز 'اشتعال دلانے والی اور
ساتھ ہی ساتھ میں ہتک آمیز بھی تھی۔' انھیں دیکھ کر لوگ نسل پرستانہ لطیفے
بھی سناتے تھے۔
کاروبار کے لحاظ سے یہ سب سے کامیاب سیریز تھی۔ اس کی اشاعت جرمنی، اٹلی
اور انگلینڈ میں ہوئی تھی۔
|
|
پوسٹ کارڈز یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح نسل، جنس، مذہب یا ذات پات کی
بنیاد پر ہندوستانیوں کو عام طور پر قدامت پسند سمجھا جاتا تھا۔
کلیکٹرز کے مطابق ان میں سے کچھ تصاویر (مندرجہ بالا تصویر) خاص طور پر
سٹوڈیو میں لی گئی تھی اور یہ سادہ فوٹو گرافی کا حصہ تھی۔
ان پوسٹ کارڈز میں ہندوستانی مردوں کو عام طور پر یورپ کے لوگوں کی نوکریاں
کرتے دکھایا گيا ہے۔
|
|
اس پوسٹ کارڈ کا نام 'مارنگ ٹب' ہے جسے 20 ویں صدی کے آغاز میں شائع کیا
گیا تھا۔ اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ گورے غسل کے دوران خادموں کی مدد لیتے
تھے اور ان کے خادم ان کے حکم کے انتظار میں ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔
کلیکٹرز کا کہنا ہے کہ 'ان پوسٹ کارڈز میں مدراس اور بنگلور میں رہنے والے
گوروں کی تصاویر شاید ہی نظر آتی ہیں اور اگر آتی بھی ہیں تو ان میں یا تو
وہ کھانا کھاتے ہوئے یا پھر آرام کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں جبکہ
ہندوستانیوں کو زیادہ تر کام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔'
|
|
بعض یورپی لوگوں کے لیے جو یورپ میں ملازم نہیں رکھ سکتے تھے، ان تصاویر سے
ان کی اعلیٰ حیثیت کا پتہ چلتا تھا۔
اس لیے بعض پوسٹ کارڈز میں ایک خاص قسم کے کام کاج سے منسلک افراد کو
دکھایا گيا ہے۔ جیسے کہ 'دھوبی' جو مختلف گھروں سے کپڑے اکٹھا کر کے پھر
انھیں دھوتے ہیں۔
ڈاکٹر ہیو کہتے ہیں کہ 'ان پوسٹروں نے یقینی طور پر ہندوستانیوں کے بارے
میں واضح رائے قائم کرنے میں مدد کی ہو گی۔‘
|
|
مندروں اور تہواروں کے پوسٹ کارڈ
بنگلور کے ایک مندر کی تصویر والے اس پوسٹ کارڈ میں ہندو بھکتوں کو لکڑی سے
بنے رتھ پر اپنے بھگوان کی مورتی کو رکھ کر گھماتے دکھایا گیا ہے۔ یہ یہاں
منعقد ہونے والی سالانہ تقریب کی تصویر ہے۔
یہ تصویر اصل کیمرے سے لی گئی تھی اور اسے ایک خالی پوسٹ کارڈ کی پشت پر
شائع کیا گیا تھا۔ پوسٹ کارڈ پر لکھے پیغام پر تاریخ نومبر 1916 درج ہے۔
اور اس پر لکھا ہے کہ یہ 'بھگوان جگن ناتھ کے رتھ کی تصویر ہے، مقامی لوگ
اس رتھ کے سامنے لیٹ کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
|
|
لیکن ان پوسٹ کارڈز کے جمع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے پیغامات
ہندوؤں کے تہوار کے بارے میں عام خیال کو دھوکہ دینے کی طرح تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ عقیدت مند کبھی رتھ کے سامنے کبھی نہیں لیٹتے۔ اس کے ساتھ
ہی نوٹ میں یہ بھی مذکور ہے کہ یہ ہندوؤں کے بارے میں غلط خیالات کو
پھیلانے کی طرح ہے کیونکہ 'یہ توہم پرستی اور قدامت پسندی پر مبنی مذہب ہے۔'
ڈاکٹر ہیو کا کہنا ہے کہ 'نوآبادیاتی نظام کو ایک دن میں ختم نہیں کیا جا
سکتا۔'
وہ کہتے ہیں کہ 'یہ ایک جہد مسلسل ہے اور ہر فرد کو خود ہی اس سے باہر آنا
ہوتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس نمائش سے لوگوں کو ایسا کرنے میں مدد ملے گی۔' |
|