ٹریفک سگنل

محبت انسان کو بعض اوقات جدائی کے خوف اور ہجر کے موسم سونپ جاتی ہے . وچھوڑے کا دھڑکا کسی پل چین ہی نہیں لینے دیتا- اور جب یہ خوف حقیقت کا روپ لیے سامنے آتا ہے تو باقی عمر پھر کسی معجزاتی لمحے کا انتظار کرتے کرتے گزر جاتی ہے - اور وہ معجزاتی لمحہ رونما ہونے تک زندگی کے پلوں کے نیچے سے کتنے ہی سال پانی کی صورت گزر چکے ہوتے ہیں _جس کے انتظار میں ہم پل پل جیتے ہوں بعض اوقات وہ معجزاتی لمحہ آنے پر محبت اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتی ہے . اور اس لمحے دنیا کی کسی شے کو بھی دیکھنے کی چاہ نہیں رہتی .

آج پانچ بج کر تیس منٹ پر اسی بے دردی سے میں نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے . حالانکہ اس لمحے کے لیے نجانے کتنی دُعائیں مانگی تھیں جن کو شرف قبولیت ملا بھی تو سگنل کھلنے پر ___ وہ کار میں بیٹھی تھی جب اس پر میری نگاہ پڑی. اُسے تو یہ بھی خبر نہ تھی کہ کوئی اُسے کتنی توجہ کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور صدیوں پہ پھیلے اتنے سالوں بعد اُسے دیکھ کر کسی کے دل میں نئے سرے سے گہرے سناٹوں بھری تھکن اترنے لگی ہے _____

کچھ ظاہری تبدیلیوں کے باوجود بھی بڑی سہولت کے ساتھ میں نے اُسے پہچان لیا تھا . بلکہ میں اُسے بھولا ہی کب تھا .اُسے صدا دیتے ہوۓ دل نے ایک بیٹ مس کی تھی __ اور جدائی کے پانچ سال ہوا برد ہو گئے ___گھر واپسی کے بعد بھی کافی دیر تک نڈھال رہا . کوئی عجیب سا ملال تھا جو دل کی دیواروں سے لپٹ رہا تھا __ کوئی عجب سی تھکن تھی جو پوروں کو چھوتی ہوئی نس نس میں اتر رہی تھی . دل کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا نوں کا کوئی دُکھ بھرا خسارہ تھا جو آج پھنکار اٹھا ...

اماوس کی کالی رات میرے چاروں اور پھیلی ہوئی تھی . گہری اور لا متناہی تاریکی یہاں وہاں سر سرا رہی تھی . رات ہے ختم ہی نہیں ہو رہی تھی . جیسے قبر میں یوم _ حشر کا انتظار کرنے والے کی رات ہو . میں گزشتہ کئی گھنٹوں سے یوں گھپ اندھیرے میں جانے کیا تلاش کر رہا تھا جو مل ہی نہیں رہا . شاید کتاب _ ماضی کے چند بوسیدہ اوراق پہ لکھی اپنی کہانی __ کچھ ان دیکھے ہیولے اور ان ہیولوں کو اپنی مرضی کے عطا کیے ہوئے خد و خال م غیر واضح تصویریں اور تعبیروں کی خواہش لیے میرے روتے بلکتے ، سسکتے خواب ____ وہ خواب جنھوں نے میری نیند نچوڑ ڈالیں اور میری آنکھوں کو ہمیشہ کے لیے رات جگوں کے حوالے کر دیا ___

آج بڑے سالوں بعد میں نے اُسے دیکھا تھا جو کبھی حاصل زندگی لگا کرتی تھی . جسے دیکھ کر جینے کی طلب جاگ اُٹھی تھی - دل چاہ رہا تھا کہ بھاگ کے اس کے پاس جاؤں اور گئے دنوں کا ایک ایک پل کی اذیت ناک تھکن حرف حرف اُسے بتاؤں .. اُسے بتاؤں کہ میرے اندر تشنہ کامی کے کتنے جنگل اگ آئے ہیں __ اُسے بتاؤں کہ میں نہ جینے کی خواہش میں کب سے جیے جا رہا ہوں اور زندگی تنہائی کی بکل اوڑھے کسی بد دُعا کی طرح میرے تعاقب میں ہے تب سے جب سے تم بچھڑے ہو _________
M.KASHIF
About the Author: M.KASHIF Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.