شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
یہ ہے وہ جذبہ ایمانی جس کی تکمیل کے لیے پاک فوج کے جوان ہر وقت ہر لمحہ
اپنی جان اپنے مال کی قربانی کے لیے تیار رہتے ہیں اور اس عظیم مقصد کی
تکمیل کے لیے اپنا سینہ پیش کر دیتے ہیں ۔ دشمن کی مکروہ چالوں سے خوب واقف
ہیں، ملکی سالمیت اور اس کی بقا کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا ایک
مومن کی معراج ہے وطن عزیز کا دفاع کرنا وہ اپنا والین فرض سمجھتے ہوئے
اپنی پاک لہو کو قربان کر دیتے ہیں ۔
اس پر شاعر نے کیا خوب کہا:۔
خون جگر دے کے نکھاریں گے رخ ِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
خاکی وردی میں ملبوث یہ جوان وطن کے ساتھ عقیدت اور اس کی حفاظت کی قسم کھا
کر سرحدوں پر کھڑے ہوتے ہیں ۔دشمنوں کے ناپاک عزائم کو دھرتی پر براجمان
نہیں ہونے دیتے اور اس کی حفاظت کرتے جام شہادت نوش فر ما جاتے ہیں یہی ان
کا مقصد حیات ہوتا ہے ۔ گلشن کی آبیاری اپنے مقد س لہو سے کرتے ہیں۔وطن
عزیز میں امن سکون بحال کرانے میں پاک فوج کی قربانیاں کبھی فراموش نہیں کی
جاسکتیں ان عظیم قربانیوں میں ایک قربانی لفٹینٹ سید ارتضیٰ عباس گردیزی کی
بھی ہے آپ کے والد محترم سید اعجاز حسین گردیزی بنک ملازم تھے ، وہ نہیں
جانتے تھے کہ اُن کا لخت جگر ملک و قوم کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ
پیش کر کے نہ صرف خاندان کا نام روشن کرے گا بلکہ شہید کے عظیم مرتبے پر
فائض ہو گا۔
وہ اتنے بلند سوچ اور حوصلے والا جوان تھا کہ اپنے والد صاحب سے گفتگو کرتے
کہتا تھا’’ ابو جان ان دشمنوں کی جرأت نہیں کہ وہ پاکستان کو کوئی نقصان
پہنچا سکیں نہ ان کے ساتھ کوئی ڈیل ہو گی نہ ان کی کسی بات کو مانا جائے
گاان کے مقد ر میں جہنم لکھ دی گئی ہے ‘‘وہ اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا تارہ
بہن بھائیوں کا دلدار تھا بچپن سے ہی اسے پاک فوج میں شمولیت کا شوق تھا ،
قربانی کے جذبے سے سر شارتھا۔شہادت سے پہلے اپنی امی سے بات کرتے کہتا ’’
امی جان آپ نے رونا نہیں ہے بہادری اور صبر کا دامن نہ چھوڑنا ‘‘ جب آپریشن
میں جانے لگا تو والدہ سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تو کامیابی کی دعا کے لیے
کہا۔ وہ قوم کا بہادر سپوت ہر مشکل میں سب سے آگے رہتا، ہر مشکل کا ڈٹ کر
سامنا اور مقابلہ کرتا، اُس کے دل میں صرف ایک ہی بات ہوتی تھی دشمن کے
ناپاک ارادوں کو خاک میں ملاکر ہی لوٹنا ہے جان رہے یا نہ رہے ملک کی بقا
اور عزت قائم رہے گی اور کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔
وہ باپ جو بیٹے کی پل بھر کی جُدائی نہ سہہ سکتا تھا آج بیٹے کی قربانی پر
سر فخر سے بلند اور کمال حوصلے سے اس صدمے کو برداشت کیے ہوئے اﷲ کے حضور
سجدہ شکر بجا لاتا ہے کہ ہمارے بیٹے نے شہداء میں اپنا نام لکھوا کر آخرت
کے حَسین پھول چُن لیے ہیں ، جنت میں اعلیٰ مقام پا لیا ہے ، اس کے عزم اور
ارادوں کے مطابق مقام ملا۔باپ کی آنکھیں اس انتظار میں تھیں کہ بیٹا واپس
لوٹے گا ہاں وہ لوٹا ضرور مگر تابوت میں ۔ بوڑھے باپ نے کانپتے ہاتھوں
لرزتے ہونٹوں چھلکتی آنکھوں سے بیٹے کا استقبال کیا۔ باپ کو جب بیٹے کی یاد
ستاتی ہے تو تصوروں سے باتیں کر کے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتا ہے ۔ ارتضیٰ
عباس ایک ہونہار طالبعلم بھی تھا۔ مقابلے کے امتحان میں اچھے نمبروں سے
کامیابی حاصل کی،پی اے ایف لوئر ٹوپہ مری کے لیے سلیکٹ ہونے والا بچہ تھا۔
یہ اس کے پہلی کامیابی تھی فوج میں جی ڈی پائلٹ بننے کی خواہش رکھتا تھا یہ
پاک فوج میں شمولیت اختیار کر کے وطن عزیز کی خدمات سر انجام دونگا۔ایف ایس
سی کے بعد آئی ایس ایس بی کیا جو کہ بہت ضروری ہوتا ہے ، فلائنگ ٹیسٹ بھی
پاس کر لیا، میڈیکل بھی پاس کر لیا۔ جی ڈی پائلٹ کے لیے آنکھوں کا فِٹ ہو
نا بہت ضروری ہوتا ہے آنکھوں میں تھوڑا مسٔلہ تھا جس کی وجہ سے پائلٹ کی
سلیکشن نہ ہو سکی۔
باپ نے بیٹے سے کہا تم اتنے ہونہار ہو، انجینئرنگ میں چلے جاؤ لیکن بیٹے کی
خواہش تھی کہ وہ پاک فوج میں ہی جانا چاہتا ہے ۔ جذبوں کا دھنی تھا کہتا
تھا’’ اگر میں یہاں بھی نہ ہوا تو پاک بحریہ میں شامل ہو جاؤں گابس کچھ بھی
ہو جائے میں پاک آرمی میں ہی جاؤں گا۔والد نے بیٹے کے عزم اور ارادوں کو
دیکھتے ہوئے اجازت دے دی۔ کاکول سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد42 پنجاب
رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر شمولیت اختیار کی اور رحیم یار خان
تعیناتی ہوئی۔کچھ عرضہ ہی گذرا تھا کہ ایک دن فون پر گھر والوں سے بات ہو
رہی تھی تو اس کا لب لحجہ اداس تھا ، والد نے پوچھا بیٹے کیوں اداس ہو ، آپ
چھٹی لے کر گھر آ جاؤ۔ تو اُس نے جواب دیا ’’میرا روم میٹ لیفٹیننٹ حکیم اﷲ
شہید ہو گیا ہے ۔ کچھ عرصے کے بعد ارتضیٰ عباس کے پوسٹنگ کرم ایجنسی میں ہو
گئی۔ اِ ن دنوں دہشتگردی کا وہاں بہت زیادہ ذورتھا۔ اور دشمن ملک کو نقصان
پہنچانے کے پے در پے وار کر رہے تھے ان کا قلع قمع کرنا نہا یت ضروری تھا۔
وہاں پہاڑیوں پر دشمن / دہشتگردوں کا قبضہ تھا انہوں نے وہاں کی پہاڑیوں پر
مختلف جگہوں پر اپنے مورچے بنا رکھے تھے چنانچہ وہ علاقے ان دہشتگردوں سے
خالی کرانے انتہائی ضروری تھے ۔ان علاقوں کوکلئیر کر انے کا ٹارگٹ صرف چار
دنوں کا دیا گیا تھا۔اس ذمہ داری کو لیفٹیننٹ سید ارتضیٰ گردیزی شہیدنے
بہادری سے قبول کیااور اپنے کمانڈنگ آفیسر سے کہا’’سر آپ اطمینان رکھیں یہ
مٹھی بھر چند دہشتگردمیرے ملک کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے آپ بہت جلد ان پہاڑوں
پر سبز ہلالی پرچم لہراتا ہوا دیکھیں گے‘‘
لیفٹیننٹ سید ارتضیٰ گردیزی شہید اپنی ٹیم کے ہمراہ رات کے اندھیرے میں سطح
سمند ر سے تقریباََ 7000 فٹ پہاڑی پر اونچی جگہ پر اپنا اسلحہ پہنچایااور
مورچہ بنایا۔صبح کے وقت پہاڑ کی چوٹی سے نیچے دیکھنے لگے تو دشمن کے مورچے
اور حرکات واضع نظر آنے لگیں تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا اپنی ہیوی
گنیں سیدھی کر لیں ان ظالم سفاک درندوں کو بھاگنے نہیں دینا۔اس کے بعد شدید
فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ اِ ن کے کمانڈنگ آفیسر نے کہا فائرنگ شدید ہو رہی ہے
اﷲ خیر کرے ارتضیٰ کی طرف سے کو ئی پیغام بھی مو صول نہیں ہو رہا۔ کیونکہ
سی ای او جانتے تھے کہ دشمن کے مو رچے بہت مضبوط ہیں کئی گھنٹے گذر چکے
لیکن کوئی خبر نہیں آرہی ۔ پھر سی ای او کی وائرلس پر ایک پیغام موصول ہوا۔
جو ارتضیٰ کی آواز میں تھا۔’’ سر اپنے شمال کی طرف دوربین لگا کر دیکھیے
سبز ہالی پرچم لہرا رہا ہے سی ای او نے پہاڑی کی چوٹی پر سبز ہلالی پرچم
دیکھا تو نعراہ بلند کیا۔ نعرہ تکبیر۔ اﷲ اکبر۔اور ارتضیٰ کو مبارکباد دی
اور کہا میں اوپر آرہا ہوں۔وہ آپریشن میں خود کو پیش پیش رکھتا تھا کہتا
تھامیرا تعلق سید گھرانے سے ہے اور آگے سے لیڈ کرنا میرا فرض ہے ۔وہ ایک
بہادر انسان تھا ۔
12دسمبر کو گھر فون آیا کہ ایک مشکل آپریشن پر جار ہے ہیں دعا کی درخواست
کی ۔وہاں ایک پہاڑی پر ایک گاؤں تھا (کٹہ سرائے )دہشتگردوں نے اُسے یر غمال
بنا رکھا تھا اور دہشتگرد پاک فوج کے فوجی کیمپوں پر بھی فائرنگ کرتے تھے ،
تب ان کو یہ مشن ملا کہ اس علاقے کو خالی کرایا جائے یہ لوگ بچے بچیوں کو
سکول نہیں جانے دیتے تھے ،لوگوں پر ظلم و ستم اور جبر کر رہے تھے اور کھلے
عام دھمکی دیتے تھے کہ اگر کسی نے ہماری مخبری کی تو اسے زبح کر دیا جائے
گا، سر کاٹ دیا جائے گا۔لیفٹیننٹ سید ارتضیٰ گردیزی شہید اور میجر علی اپنی
ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچے دشمنوں کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ اُن کو وہاں سے
نکالا اور گاؤں آزاد بھی کرایا۔
فجر کے نما ز کے وقت قریبی ایک پہاڑی تھی وہاں ایک مورچہ تھا جہاں سے فائرآ
رہا تھا۔ میجر علی نے کہا اس پر صبح آکر دیکھیں گے ابھی اندھیرا ہے دن کی
روشنی میں صحیح معلوم ہو سکے گا اور جو کر نا ہو گا وہ بھی سوچ سمجھ کر
کریں گے ۔ یہاں فی الحال خطرہ ہے کوئی بھی گولی لگ سکتی ہے ۔صبح کا انتظار
کیا اور تقریباََ نو بجے کے قریب دوبارہ وہاں گئے ۔ میجر علی کی ٹانگ زخمی
تھی وہ تھوڑا پیچھے پیچھے تھے ۔ اور قیادت سید ارتضیٰ گردیزی کر رہے تھے
۔ان کے ساتھ ایک اورساتھی بھی تھے ایک حوالدار سجاد علی اور ایک سپاہی ۔
سید ارتضیٰ گردیزی تیزی سے سب سے آگے پہاڑی پر چڑھ رہے تھے اُن کے دل میں
وطن عزیز کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی سید ارتضیٰ گردیزی جب مورچے کے
پاس پہنچے تو اپنے انجینئر ساتھی سے کہا مورچے کا معائنہ کرو۔ مورچہ خالی
تھااب مورچے کی طرف سے کوئی فائرنگ بھی نہیں ہو رہی تھی کوئی مزاحمت بھی نہ
تھی کہ اچانک باہر دوسری طرف سے فائرنگ شروع ہو گئی ، دشمن بہت چلاک اور
مکار تھاوہ بم نصب ( IED )کر کے بھاگ گیا تھا سید ارتضیٰ اپنے ساتھیوں کے
ساتھ مورچے کا معائنہ کرنے خود گئے، جیسے ہی اندر داخل ہوئے ایک ساتھی کا
پاؤں نصب آئی ای ڈی پر آیا وہ بم پھٹ گیا سید ارتضیٰ گردیزی کوئی بیس گز
دور جا گرے ۔ وہ بہت زخمی ہو چکے تھے اُن کو ایمبولینس میں ہسپتال لے جا یا
گیا جہاں ڈاکٹرز نے کہا سید ارتضیٰ گردیزی شہید ہو چُکے ہیں ۔ انا لﷲ وانا
الیہ راجعون۔ وہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا بھائی تھا اور زیادہ وقت اپنے
والد محترم کے ساتھ گذارا تھا۔ وہ وطن عزیز پر قربان ہو گیا لیکن اپنے مشن
کو مکمل کر گیا۔ اﷲ شہید کے درجات بلند فرمائے اور والدین کو صبر جمیل۔پاک
فوج زندہ باد۔ پاکستان پائندہ باد۔ |