تخیلات کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں
جھانکیں تو زندگی ایک ڈراؤنا خواب لگتی ہے۔حوادث اور اتار چڑھاؤ کے مجموعے
کا نام زندگی ہے۔ زندگی کا مقصد صرف ایک لفظ ’’میں ‘‘ میں مقیّدنہیں ۔’’ہے
زندگی کا مقصد اوروں کے کاکام آنا‘‘۔انسان اپنے قرب و جوار میں نظر دوڑائے
تو وہ تمام راز آشکارِبصارت ہوتے ہیں جس سے شاید اس ہڈیوں کے ڈھانچے میں
موجود ایک گوشت کا لوتھڑا ایک لمحے کودھڑکنا بند ہو جائے۔لیکن ایک ذات ان
تمام رازوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ہمارا دماغ بھی اس کا ادراک نہیں کر سکتا
مگر لگن اور جستجو منزل کا پتا دیتی ہے۔’’تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیے تو
معلوم پڑتا ہے جیسے تاریخ اپنا کھویا ہوا ماضی تلاش کر رہی ہو ۔چلیں اس کو
آسان کیے دیتے ہیں بات پھر چاہے کسی بھی زمانے کی ہو سقراط اور بقراط اپنی
طاقت کا دم بھرتے دکھائی دئیے ۔انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے
اوائل میں ایک خطہ ’’افغانستان ‘‘ بیک وقت ایک نہیں کئی عوامل کے زیرِ عتاب
تھا جس کا آج تک کوئی پر امن حل تلاش نہ کیا جاسکا لیکن ہر کوئی اس کا
دعویدار بنا پھرتا ہے۔ لیکن سچ کی تو مرحوم ریٹا ئرڈ آئی ایس آئی چیف جنرل
حمیدگُل نے یہ کہ کر رونمائی کروائی کہ’’ایک وقت آئے گا پاکستان امریکہ کی
مددسے سویت یونین کو افغانستان سے بے دخل کرے گا اور پھر ایک وقت آئے گا جب
پاکستان امریکہ کی مدد سے امریکہ کو یہاں سے نکال باہر کرے گا‘‘۔لیکن آج
بھی اس کی صورتحال اُس بدمست اور شتر بے مہار ہاتھی کی سی ہے جس کی لگام
کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اس خطے کے اثرات اس کے دائیں بائیں موجود ممالک
کو اپنے عتاب میں لیے ہوئے ہے۔ بدلتی دنیا اِس خطے پر اپنے اثرات ثبت کر
رہی ہے۔اور خاص کر کہ سی پیک کو داد دیں جس نے نئی راہیں نکالی ہیں۔لیکن
عرب ممالک کے آپس کے تنازعات اس کو جنگِ عظیم سوئم کا سبب بن سکتے ہیں۔ایسے
میں سی پیک بارش کی بوند کی صورت امیدِ نو کا پہلا قطرہ ثابت ہوا ہے۔ خطے
میں ایک عجیب سا بگاڑ پیدا ہو گیا ہے یا یوں کہیں تو قدرے بہتر ہو گا کہ یہ
وہ پاتال جس کا ایک سرا ملتا ہے تو دوسرا سرک جاتا ہے۔اگر اس کو وسیع تناظر
میں دیکھا جائے تو یمن پہ سعودی،ہوثی،اور القاعدہ قابض ہے۔ ترکی کا دل
سعودی نظام کا گرویدہ نہیں۔قطر سعودیہ کے ساتھ اپنا سا منہ لیے ہوئے ہے۔
ترکی اور قطر میں نے مثال بھائی چارہ ہے۔ شام میں بشارالسدامریکیوں سے بچ
کر وروس کی پناہ میں پہنچ گیا۔ خطے کے اہم ممالک چین ،روس اور سعودی عرب
اسلحے میں خود کفیل ہو رہے ہیں۔ایران کے تعاون پر مبنی حزب اﷲ کے سربراہ
سید حسن نصراﷲ ایک لاکھ میزائلوں کے ساتھ اسرائیل کو ورطہ حیرت میں مبتلا
کیے ہوئے ہیں۔روس ایک لینڈ لاک خطہ ہونے کے سبب نئے اتہادیوں کی تلاش میں
ہے اور شاید اس کی جدوجہد سی پیک پر اختتام پزیر ہو۔ ایسے میں بھارت کی
دہلی سرکار عجیب کشمکش میں مبتلا دکھائی دیتی ہے جب اسے سی پیک کشمیر سے
گزرتا دکھائی دیتا ہے۔پاکستان ان ایشیائی ممالک کو جوڑنے میں پل کی حیثیت
اختیار کر چکا ہے۔ اس امر کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے جب یہاں کی قیادت یہ
کہتی دکھائی دیتی ہے کہ ہم کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گیں یاشاید پھر وہ
سابقہ تجربوں سے کچھ سیکھ چکی ہو۔ ایسے میں پاکستان اٹامک انرجی ایجنسی کا
رکن بھی بن چکا ہے۔ چین بھی ابرتی ہوئی اقتصادی قوت بن رہی ہے۔ دیکھا جائے
تو یہ تمام کا تمام پلان اجارہ داری کے لیے ہو لیکن ایک نئی دنیا وقوع
پزیری کے عمل سے گزر رہی ہے۔ ایسے میں’’تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ اور
یہ بظاہر یہ کسی مکڑی کے جالے کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان نے
اپنا آپ ستر ہزار قربانیاں دے کر منوایاہے اور اب اس کا ثمر پانے کا وقت آن
پہنچا ہے۔’’دیر آید درست آید‘‘۔ |