۔ پانچ اکتوبر کا پیغام ۔۔ معمارا ن قوم کو سلام

استاد ایک نہ غروب ہونے والا ایسا آفتاب ہے جو ہر وقت چمکتا دمکتا رہتا ہے جس کی روشنی سے دنیا جگمگاتی ہے اور جس کی غیر موجودگی میں بھی اس کی کرنیں پورے عالم کو منور رکھتی ہیں۔ جس کے دم سے حرارت بھی ہے۔زندگی بھی ہے اور روشنی بھی ہے۔اور جینے کا احساس بھی ہے۔ قومو ں کے عروج وزوال میں ان حقیقی معماران قوم کی حیثیت ایک مسلمہ ھقیقت ہے۔ جس سے کوئی بشر انکار نہیں کر سکتا۔
چشم فلک گواہ ہے کہ جن قوموں نے بھی معماران قوم کی عزت کی وہ قومیں بام عروج تک پہنچ گئیں۔دنیا کی زمام کار ان کے ہاتھوں میں آگئی ان کی شرح خواندگی میں اضافہ ہوا اور ترقی کی دوڑ میں سرفہرست ہو گئیں۔جبکہ جن اقوام نے اساتذہ کرام کی قدر نہیں کی وہ قومیں تنزلی کا شکار ہو گئیں۔زندگی کی ہر فیلڈ میں پیچھے رہ گئیں۔سچ تو یہ ہے کہ استاد ہی کسی بھی قوم کا حقیقی معمار ہوتا ہے۔رہنما ہوتا ہے،انجینئر ہوتا ہے جو ملکوں کو لیڈرشپ فراہم کرتا ہے۔ یہ معلم ہی کا کام ہے کہ جو بچوں کی کردارسازی کرتا ہے۔ان کے اخلاق میں رویوں میں انقلاب برپا کرتا ہے۔ان کو بولنے کا،لکھنے کا،سننے کااور پڑھنے کا فن سکھاتا،قوم کے شاہینوں کو آداب زندگی سکھاتا ہے۔ان بچوں کی اخلاق سازی کر کے خوب سیرت کی تکمیل کرتا ہے۔پھر یہی بچے جو کسی بھی ملت کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔جو کسی بھی قوم کی عمارت کا خشت اول ہوتے ہیں۔ان کو ایک لڑی میں پرو کر تعمیر ملت کی جاتی ہے پھر معاشرے کو ماہرین کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ ان ننھے منے بچوں کو عالم، ڈاکٹر،انجینئر،معلم،پائلٹ،وکیل،صحافی بنایا جاتا ہے۔جو ملک و قوم کی خدمت میں سرگرم رہتے ہیں۔معاشرے کو بہترین اور مفید شہری مہیا کیے جاتے ہیں۔ گویا ایک معلم بچوں کی ذہنی،جسمانی،جذباتی،لسانی اور سماجی نشونما میں مکمل طور پر حصہ لیتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ معلم ہی ہے جو خود تو چراغ کی طرح جلتا رہتا ہے لیکن اپنے ماحول کو روشن رکھتا ہے۔ اگر اسے روشنیوں کا سفیر کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔ اگر اسے امن کا پیامبر کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ ہی انسانی زندگی کی تعمیر کرتا ہے ،اسے اگر سماجی رہنماکہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔ایک معلم اپنے متعلمین کو علم کے نور سے منور کرتا ہے اور ساتھ ساتھ مہارتیں سکھاتا ہے اور بچوں کے کردار اور رویوں میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرتا ہے ۔اساتذہ ایک طالب علم کے لیے روحانی والدین کا درجہ رکھتا ہے۔اسی لیے سرور کائناتﷺ نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ حضرت محمدﷺ دنیا کے سب سے بڑے معلم تسلیم کیے جاتے ہیں۔آپﷺ نے تئییس سال کے مختصر عرصے میں ڈیڑھ لاکھ صحابہ کرام تیار کیے۔ آپ نے جنگ کو امن میں بدلہ۔شر کو خیر میں بدلہ۔وہ جو بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے انہو ں نے دختران ملت کو رحمت خداوندی قرار دیا۔گھٹا توپ اندھیرے میں ڈوبی قوم کو روشنیوں میں لے آئے۔ درحقیقت یہ معلم اعظم اور رہبر انسانیت نے انسانوں کو شرافت اور تہذیب سکھائی بس یہی مشن ایک بہترین معلم کا بھی ہے اس وجہ سے اس کو پیشہء پغمبری سے تشبیہ دی گئی ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دنیا میں تمام پیشے ہیں لیکن معلمی پیشہ نہیں بلکہ یہ ایک مشن ہے جو ایک بچے کو طرز زندگی سکھاتا ہے۔طرز فکر عطا کرتا ہے۔ اگر کسی استاد کو ثقافت کا سفیر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ وہ اپنے ملک و قوم کی ثقافت پرانی نسلوں سے نئی نسلوں تک پہنچاتا ہے۔تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھنا ہی کسی استاد کا کمال ہے۔ آپ کو تو معلوم ہی ہو گا کہ ماؤزے تنگ ایک استاد ہی تھا جس نے اپنی قوم کے لیے نجات دہندہ کا کام کیا۔ تمام پغمبران دین حقیقی معنوں میں معلم ہی تھے جنہوں نے اپنی اپنی قوموں کو ظالمانہ نظام سے نجات دلائی۔ انہیں امن،ترقی اور خوشحالی کا راستہ دکھایا۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بھی اساتذہ پائے جاتے ہیں جو بچوں کا وقت ضائع کرتے ہیں ایسے افراد کو ہر گز وہ مقام نہیں دیا جا سکتا جو مقام و مرتبہ اصلی معماران قوم کا ہے۔ ہر سال پانچ اکتوبر کو دنیا بھر میں ورلڈ ٹیچر ڈے بڑے تزک واحتشام سے منایا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے وطن عزیز میں بھی یوم تکریم اساتذہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پہلی مرتبہ ۱۹۹۴ میں ورلڈ ٹیچر ڈے منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ دراصل ۱۹۶۶ کے یونیسکو اور آئی ایل او کے اس توثیق کی یاد میں منایا جاتا ہے جس میں اساتذہ کرام کو عزت دینے،انکی حوصلہ افزائی کرنے ،ان کے حقوق کا تحفظ کرنے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ ہر سال اساتذہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے،ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے پانچ اکتوبر کو سیمینار،واک،تقسیم انعامات اور اس قسم کے دیگر پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں جن میں شاگرد اپنے اساتذہ کو تحائف دیتے ہیں، انہیں پھول پیش کیے جاتے ہیں۔ معماران قوم کو ایوارڈ دئیے جاتے ہیں۔ان جیسی تقریبات کا مقصد اساتزہ کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ نظام تعلیم کی بہتری کے لیے بھی تجاویز دی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اساتذہ کے مقام و مرتبے میں بھی اضافہ ہوا ہے،آج ہماری نئی نسل بھی اس طرف متوجہ ہو رہی ہے۔ایجوکیشن ڈیپارٹمنیٹ میں بھی گزرتے لمحات کے ساتھ بہتری آ رہی ہے۔ہمیں دین اسلام بھی یہی سکھاتا ہے،مشرقی روایات بھی ہمیں یہی سکھاتی ہیں کہ اپنے اساتذہ کرام کی عزت کریں۔ جو طالب علم بھی اپنے استاد کی قدر کرتا ہے۔اللہ تعالی انہیں عالی مقام عطا کرتا ہے۔ ہمیں صرف پانچ اکتوبر کو ہی یوم معلم نہیں منانا بلکہ ہر دن، ہر ساعت معماران قوم کی عزت کرتے رہنا ہے۔

Muhammad Saleem Afaqi
About the Author: Muhammad Saleem Afaqi Read More Articles by Muhammad Saleem Afaqi: 23 Articles with 45752 views PhD Scholar in Education
MA International Relations
MA Political Science
MA Islamiyat
.. View More