ہندوستانی میڈیا کے رویے کو کیا
کہا جائے ؟ کسی طور پر بھی اسے غیر جانبدار صحافت کا علمبراد نہیں کہہ سکتے
۔ کیونکہ یہ مفروضات پر اپنے تجزیے اور تبصرے میں زمین و آسمان کو ایک کر
دینے والا میڈیا کبھی کبھی اپنی لیک سے نہیں ہٹتا ۔ اس کی کئی مثالیں ہیں ۔
لیکن ابھی حال کی بات کریں تو آپ کو حیرت ہوگی کہ کسی بھی طرح کے جرم میں
اگر کوئی مسلم محض نامزد ہوتا ہے تو اسی دن سے اسے دہشت گرد اور آتنکی کے
نام سے یاد کیا جانے لگتا ہے۔ لیکن اگر کسی اور مذہب کے افراد سنگین سے
سنگین الزامات میں گرفتار ہوتے ہیں تب بھی ان کا ذکر ایک مجرم کے طور پر
نہیں ہوتا۔ حد تو یہ ہے کہ اعتراف جرم اور تمام ثبوتوں کے باوجود ہندو
مجرموں کو دہشت گرد کہنا ان کے لیے مشکل کام ہے ۔ ہندوستانی میڈیا کے اس
رویے سے ملک کے کروڑوں لوگوں کو تکلیف پہنچتی رہی ہے۔ سینکڑوں مسلم
نوجوانوں کو بلا وجہ دہشت گرد کہنے والا یہ میڈیا آج بھی اسیمانند کو دہشت
گرد نہیں کہہ پا رہا ہے ۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ اردو صحافت بھی ابھی تک
اسیمانند کو ملزم ہی لکھ رہی ہے۔معاملہ یہ ہےکہ آج میڈیا کی رسائی اور اس
کے اثرات اتنے ہیں کہ وہ جس کو چاہے ملزم بنا دے اور جس کو چاہے بے قصور
بنا دے۔آر ایس ایس ، ہندوں کی بڑی تنظیم ہے جس کی بنیاد ہیی شدت پر ہے ۔
اور ابھی جتنے ہندو آتنک وادی ( دہشت گرد ) پکڑے گئے ہیں ، اُن سب کا تعلق
بھی اسی گروہ سے ہے۔ اس کی شدت پسندی کے حوالے سے ایک نہیں پورے ملک کی
عدالتوں میں کئی مقدمات درج ہیں اور ہزاروں ثبوت موجود ہیں ، لیکن کوئی اس
پر انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کرتا ۔ لیکن اس کے مقابلے بے غیرت میڈیا چند
ثبوت کی بنیاد پر سیمی کو اور اس متعلق اور غیر متعلق لوگوں کو دہشت گرد
اور وطن دشمن کہتے نہیں تھکتا۔ ہم سیمی کی حمایت نہیں کرتے لیکن اس کا
مطالبہ ضرور کرتے ہیں کہ آرایس ایس جیسی تنظیم کو بھی تو شدت پسند اور وطن
دشمن کہنے کی جرات تو کی جانی چاہیے۔
حد تو یہ ہے کہ کئی ایسے معاملات ہیں جن میں محض شک کی بنیاد پر بے شمار
مسلم نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا ہے اور انھیں طرح طرح کی اذیتیں
دی جارہی ہیں ۔ مثلا سمجھوتہ ایکسپریس معاملے کو ہی لے لیں ۔ جیسے ہی
سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکے ہوئے ویسے ہی بلا تامل اس معاملے میں چند
دہشت گرد تنظیموں کے نام سامنے آئے اور ا س معاملے میں کئی مسلم نوجوانوں
کو گرفتار کر لیا گیا ، جو آج بھی قید میں ہیں ۔ اسی طرح اجمیر درگاہ کے
دھماکے ، مکہ مسجد دھماکہ وغیرہ میں مسلم تنظیموں یا دہشت گردوں کے نام
سامنے آئے اور کئی گرفتار بھی ہوئے ۔ لیکن اب تو تمام حقائق سامنے آچکے ہیں
۔ پھر حکومت اور ہندوستانی میڈیا کی گلا پھاڑ دینے والی آواز اور چیخ پکار
اس حقیقت کے سامنے آجانے کے بعد بھی کیوں خاموش ہے ؟ یہ بات سمجھ سے باہر
ہے ۔ کیوں کہ ہماری نظر میں دہشت گرد ہندو ہو یا مسلمان دونوں برابر ہیں ۔
ان کو اسی حقیر نظر سے دیکھا جانا چاہیے لیکن یہاں رویے کے فرق فہم و فراست
سے باہر ہے۔
اس معاملے میں سیاست کرنے والے بھی کم نہیں ہیں وہ بھی موقع کی نزاکتوں کو
دیکھ کر سیاست کرتے ہیں ۔ ہندوستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں دہشت
گردی پر بولتے نہیں تھکتیں، آج ان کی زبانیں بھی گنگ ہیں ، اور پولیس کی
بات کریں تو کسی خبر کی بنیاد پر جب کچھ ممکنہ ملزموں کا اسکیچ بنایا جاتا
ہے تو پورے شہر میں اور میڈیا میں ان کی تصویریں چھائی رہتی ہیں ۔ لیکن
سمجھوتہ ایکسپریس کے ملزموں کی اصل تصویر سامنے آنے کے بعد بھی ان کی
تصویریں شہر کی دیواروںٕ پر نظر نہیں آرہی ہیں۔ اسی طرح آر ایس ایس کی
سیاسی پارٹی بی جے پی کی بے شرمی کیا حال ہے کہ اس کی چیخ پکار بھی غائب ہے
وہ اب بھی اعتراف کرنے کے بجائے دفاعی موڈ میں ہے ۔ جبکہ یہ اب عام حقیقت
ہے کہ ان کا تعلق آر ایس ایس سے ہے ۔ان کے ایک صحافتی ترجمان ’’ آرگنائزر
’’ میں ایک اداریے ‘‘ ہندووں پر دہشت گردی کا الزام کیوں ‘‘ کے عنوان سے یہ
لکھا گیا ہے کہ یہ ہندووں کو بدنام کرنے کی سازش ہے ۔ یہ اور اس طرح کی
کوششیں ان کی جانب سے جاری ہیںٕ ۔ لیکن واویلا مچانے والے تماشہ دیکھ رہے
ہیں۔جبکہ سوامی آسیما نند نے انکشاف کیا ہے کہ مکہ مسجد، سمجھوتہ ایکسپریس،
مالیگاؤں، اور اجمیر کی درگاہ پر حملے میں ہندو انتہا پسند تنظمیں ملوث
ہیں۔اس نے اعتراف کرتے ہوئے ہندوستان کی صدر جموہریہ پرتبھا پاٹل اور
پاکستان کے صدر آصف زرادری کو خط لکھ کر اس کا اعتراف کرتے ہوئے پشیمانی کا
اظہار کیاہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں سوامی کے جو اقبالیہ
بیانات شائع ہوئے ہیں اس میں انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سخت گیر
ہندو تنظیم آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کے بعض ارکان نے مل کر مکہ مسجد،
سمجھوتہ ایکسپریس، مالیگاؤں، اور اجمیر کی درگاہ پر دھماکے کرنے کی سازش کی
تھی اور انہیں انجام دیا گيا تھا۔ این آئی آے نے سمجھوتہ ایکسپریس بم
دھماکوں کے سلسلے میں سوامی آسمیا نند کے دو فرار ساتھی سندیپ ڈانگے اور
رام چندر کل سانگر کا پتہ بتانے والے کو دس دس لاکھ روپے کے انعام کا اعلان
کیا ہے۔ اے ٹی ایس کا کہنا ہے کہ انہیں ایک ہندو تنظیم کے سینیئر کارکن
سنیل جوشی کی ڈائری ملی ہے جس میں اجمیر میں دھماکوں کے سلسلے میں گرفتار
ہونے والے اندریش کمار کے ساتھ ان کے نزدیکی رشتوں کے بارے میں ثبوت ملتے
ہیں۔راجستھان اے ٹی ایس نے سمجھوتہ ایکسپریس کے دھماکوں کے بارے میں عدالت
میں ایک چارج شیٹ داخل کی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ ’پانی پت کے دیوانہ
ریلوے سٹیشن کے پاس اس ٹرین میں ہونے والے دھماکوں میں انہیں افراد کا ہاتھ
ہے جو اجمیر دھماکوں کے لیے ذمہ دار ہیں۔‘اے ٹی ایس نے اجمیر کے دھماکوں
اور سمجھوتہ ایکسپریس میں ہونے والے دھماکوں میں استعمال ہونے والا دھماکہ
خیز مواد، دھماکوں کی قسم کا مطالعہ کیا اور پایا کہ دھماکوں میں استعمال
ہونے والا مادہ اندور شہر سے خریدا گیا تھا۔اس کے علاوہ اس کا کہنا ہے کہ
شدت پسند تنظیم کے بیشتر ممبران کا تعلق بھی اندور سے ہے۔انہیں اطلاعات کے
پس منظر میں آر ایس ایس تنظیم کے دہشتگردی میں ملوث ہونے کی بحث بھی تیز
ہوگئی ہے۔ آر ایس ایس کی حامی بھارتیہ جنتا پارٹی اس کی حمایت میں اتر آئی
ہے جبکہ کانگریس اور دیگر تنظیمیں اس پر نکتہ چینی کر رہی ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کا حال یہ ہےکہ وہ اپنے دامن کو دیکھنے کے بجائے نئی
نئی فتنہ پردازی پر یقین رکھتی ہے ۔ ابھی اس نے کولکتہ سے ترنگا یاترا
نکالا ہے جو 26 جنوری کو سری نگر پہنچے گا وہاں لال چوک پر ترنگا لہرائے
گا۔ بی جے پی کا یہ اقدام سوائے فتنہ پھیلانے کے اور کچھ نہیں اگر اسے
ترنگا سے اتنی ہی محبت ہے تو وہ ایسے علاقوں میں بھی ترنگا یاترا لے کر
کیوں نہیں جاتی جہاں نکسلیوں کا راج ہے ۔ وہإ ں امن و سکون بحال کرنے اور
لوگوں کو ہندستانی آئین اور قانون میں یقین رکھنے کی تلقین کیوں نہیں دیتی
؟ یہ صرف اس لیے ہے تاکہ لوگوں کے ذہنوں کو اصل معاملے سے دور کر سکے ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اشتعال پھیلانے میں ماہر ہے وہ ہمیشہ اصل معاملے کو پس
پشت ڈالنے کے لیے اس طرح کے حربے استعمال کرتا رہا ہے۔
ان پس منظر میں ضرورت اس بات کی ہے ہندوستانی میڈیا کو حقیقت کی ترجمانی کی
غیرت دلائی جائے اور بی جے پی کو اس کا اصلی چہرہ دیکھا جائے اور مجرموں
اور دہشت گردوں کو سزا دلائی جائے تاکہ انصاف ہوسکے اور بے قصور مسلم
نوجوانوں کو جو شک کی بنیاد پر جیل میں ہیں انھیں رہاکیا جائے۔ |