تما م پڑھنے والوں کی خدمت میں سلام
پہنچے!کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کو ہمیشہ یاد رہتی ہیں اور وہ ہر
روز انسان کی دماغ کی کھڑ کی پر دستک دیتی ہیں کہ تمھیں یاد ہے وہ بات
تمھیں یاد ہے وہ چیز۔ تو بالکل اسی طرح جب میری نظر ٹی وی پر پڑتی ہے تو
مجھے ایک ٹی وی یاد آتا ہے جو آج سے بہت عرصہ پہلے ہمارے گھر میں تھا یہ ٹی
وی اس دور میں اپنے ایک اسپیشل نام سے مشہور تھا اس کو لوگ روسی ٹی وی کہتے
تھے اس کا رنگ بلیک ہوتا تھا اور اس کی ایک چیز جو مجھے بہت اچھی لگتی تھی
وہ اس کے بٹن تھے اگر چینل تبدیل کرنا ہو تا تو وہ بٹن دبا دیتے ۔لیکن
انسان نے اس کے اندر جو زحمت محسوس کی کہ اس کو چینل تبدیل کرنے کے لیے اٹھ
کر جانا پڑتا اس تکلیف کے لیے انسان نے کلر ٹی وی بنایا جس میں چینل تبدیل
کرنے کے لیے ایک ریمورٹ تیار کیا اب بندہ وہیں بیٹھے چینل تبدیل کرلیتا ہے
اسی طرح یہ بات صرف ٹی وی تک محدود نہ رہی اور تقریباً بہت سی الیکٹرانک
چیزوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ریمورٹ کنٹرول بنا دیا گیا اب وہ چیز چاہے
جتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو وہ آپ کے اس ریمورٹ کنٹرول کے انڈر ہے آپ نے جو بٹن
دبابا ہے وہ اسی کے مطابق کام کرے گی۔تو بالکل اسی طرح جب انسان اس دنیا
میں پیدا ہو تا ہے تو وہ خود کوئی کام نہیں کرسکتا اب اس بچے کو نہیں پتہ
کہ وہ کیا ہے اس نے کونسی زبان بولنی ہے اس نے کیا کھانا ہے اس نے کیا پینا
ہے اس کے لیے کیا درست ہے اور کیا غلط تو اس کام کے لیے اس کا ریمورٹ
کنٹرول اس وقت اس کے ماں باپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو اس بچے کو کنٹرول کرتے
ہیں اس کو کھلاتے اس کو پلاتے اور جب وہ بولنے کے قابل ہو تا ہے تو اسے
زبان کا فنکشن سکھایا جاتا ہے کہ اس نے کونسی زبان بولنی ہے۔اسی طرح اگر آپ
کبھی بلی پر غور کریں جو اپنے نئے پیدا ہونے والے بچے کو منہ اٹھا ئے پھرتی
ہے اب دیکھیں کہ اس کے دانت کتنے نوکیلے ہوتے ہیں کہ جس کے ذریعے وہ اپنے
شکار کو چیر پھاڑ ڈالتی ہے لیکن وہ انہیں دانتوں سے اپنے بچوں کو اٹھاتی ہے
پھر آہستہ آہستہ اسے چلنا سکھاتی ہے پھر کبھی چھوٹی چھوٹی اینٹوں پر چڑھا
کر اسے دیوار پر چلنا سکھاتی ہے اور پھر اسے شکا ر کرنا سکھائے گی تو جس
طرح ایک بے جان چیز کے سارے فنکشن کو ہم ایک ریمورٹ میں بھر دیتے ہیں بالکل
اسی طرح ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے فنکشن کو کنٹرول کرنے کے لیے اس
کا ریمورٹ اس کے والدین کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔جس طرح میں نے پہلے کہا کہ
ایک بچے کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا ہے وہ کس گھر میں پیدا ہو ا ہے یہ
اس کے والدین ہی ہیں جو اس کو اس وقت سنبھالتے ہیں اس کو پال پوس کر بڑا
کرتے ہیں پھر اس کے اندر اس بات کا احساس پیدا ہو تا ہے کہ وہ کہ آیا زندگی
کیا ہے اس مذہب کیا ہے آیا اس نے ایک اللہ کی عبادت کرنی ہے یا بتوں کے آگے
سر جھکانا ہے۔
ایک بچہ جب سیکھنے کے عمل میں ہوتا ہے تو اس وقت اس کے کسی بھی چیز کو
Pickکرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے وہ جو بھی نئی چیز دیکھتا ہے اس کو
خود کرنے کی کوشش کرتا ہے چند عرصہ قبل میرے پاس بھائی کے ایک دوست آئے ان
کا کمپیوٹر میں کوئی پرابلم تھا تو میں ان کے گھر گیا تو وہاں ان کے دو
بیٹے بیٹھے تھے بڑے کی عمر تقریباً11سال ہو گی اور چھوٹا کچھ اس سے
تقریباً9سال کا ہو گا اب میں جب کمپیوٹر ٹھیک کرنے لگا تو اس کا بڑا بیٹا
میرے پاس آکر بیٹھ گیا کہ میں کیا کرتا ہوں تو وہ مجھ سے مختلف سوال پوچھنے
لگا کہ یہ کس طرح کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو پھر اس کے بعد میں دو تین مرتبہ
پھر ان کے گھر گیا ان کے کمپیوٹر کو چیک کرنے تو کچھ عرصہ ہوا وہ شخص پھر
آیا نہیں تو ایک دن مجھے بازار ملا تو میں نے پوچھا کہ کیا بات آج کل آپ کا
کمپیوٹر بالکل ٹھیک چل رہا ہے کیا ؟تو وہ کہنے لگے کہ اس میں وہی پرابلم
آئے تھے جن کو ٹھیک کرنے آپ آئے میرا بیٹا جو آپ کو دیکھ رہا ہوتا تھا آپ
کو دیکھ دیکھ کر سمجھ گیا اس مسئلے کا کیا حل ہے لہٰذا اب ہمیں کسی کی
ضرورت ہی نہیں پڑتی۔تو یہ اس بچے کے اندر کسی کام کرPick کرنے کی صلاحیت
تھی کہ اس نے دو تین مرتبہ دیکھ کر خود سیکھ لیا کہ اگر یہ مسئلہ آئے تو
کیا کرنا ہے۔
تو جو والدین بھی ہوتے ہیں ان کی یہ خواہش ہو تی ہے کہ وہ اپنے اس بچے کی
پرورش اچھی کریں اور اس اچھی پرورش میں اہم ذمہ داری والدین سمجھتے ہیں وہ
ہے صرف ان کو پڑھا لکھا کر بڑا کرنا لیکن جو چیز وہ بھول جاتے ہیں وہ ہے ان
کی تربیت ان کی راہنمائی کہ زندگی کے فلاں موڑ پر ان کو کس طرح چلنا ہے تو
جب بچہ ان کے ریمورٹ کنٹرول سے نکل کر جب خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا ہے تو
اس وقت وہ زندگی کے ایک کٹھن موڑ پر کھڑا ہوتا ہے کہ جس کے ایک ایک قدم پر
اس کو راہنمائی کی ضرورت ہو تی ہے تو اس وقت جو چیز اس کے کام آتی ہے وہ ہے
اس کی پہلی تربیت ۔
موجودہ دور میں آج ایک بہت بڑا مسئلہ جو میں نے دیکھا ہے کہ جو اکثر والدین
کو آتا ہے کہ ان کی اولاد نافرمان ہے ان کا کہا نہیں مانتی تو آپ دیکھیں تو
آپ کو بہت سے والدین اس با ت سے پریشان نظر آئیں گے تو اس کی وجہ وہ بچے
نہیں بلکہ یہ ان کی تربیت ہی ہے میرے ایک دوست ہیں ایک دن کہنے لگے کہ یا ر
تم مجھے ایک بات کا جواب دو تو میں نے کہا پوچھیں تو کہنے لگے کہ تم کہتے
ہو تم کو تاریخ میں بڑی دلچسپی ہے مجھے ایک بات کا جواب دو کہ کل وہ نوجوان
کہ جس کے اندر جذبہ جہاد ہو تا تھا وہ جس کا نعرہ ہوتا تھا کہ ہم مسلمان
عصمتوں کے محافظ ہیں عصمتوں کے لٹیرے نہیں اور وہ لڑکی کہ جس کی سر سے کبھی
دوپٹہ نہیں اترتا تھا اب وہی لڑکی اتنی بے پردہ کیوں ہوگئی ؟
تو مجھے بڑی ہنسی آئی کہنے لگے ہنس کیوں رہے ہو تو میں کہا کہ یار دیکھیں
اس وقت کے نوجوان کے اندر جذبہ ہو تا تھا اس کے پیچھے اس کی تربیت ہوتی تھی
جو اس کے والدین کرتے تھے اس کو بتا تے تھے کہ تمھارے اندر کس کا خون ہے تم
اسی مسلم قوم سے تعلق رکھتے ہو کہ جس کا ایک نوجوان لڑکا ایک بہن کی عزت کی
خاطر نہ جانے کہاں سے چل پڑا تھا اور اپنی مسلم بہن کی عزت کا انتقام کیسے
لیا تھا وہ اس کو اپنی تاریخ بتا تے تھے اور آج وہ والدین اپنے بچوں کو
اپنی تاریخ کیا بتائیں گے جب ان کو خود نہیں پتہ کیا ہم کیا تھے اور وہ
عورت جو ساٹھ سال میں بھی ایسے کپڑے پہن کر باہر جا رہی ہے کہ جس کو دیکھ
کر تمھاری آنکھیں جھک جائیں وہ اپنی بیٹی کو کیا پردے کی تلقین کرے گی
اولاد نے تو وہی کرنا ہے جو وہ اپنے ماںباپ کو کرتے دیکھیں گے۔
ہم جب میٹرک میں پڑھتے تھے تو ہمارے ٹیچر ہمیں کہتے کہ بیٹا ایک بات یا د
رکھنا تم جب بھی گھر سے قدم باہر نکالتے ہو اس وقت تمھارا ایک امتحان ہو
رہا ہوتا ہے جس میں مکمل طور پر تمھاری چیکنگ ہو رہی ہو تی ہے تم جس سے بھی
بات کرو گے وہ تمھاری باتوں سے اندازہ لگا لے گا کہ تمھاری تربیت کیسی ہوئی
ہے۔تو اس امتحان کو کبھی حقیر مت سمجھنا کیونکہ اسی امتحان کی بدولت تم
دوسروں کو اپنی طرف کھینچ سکتے ہو کہ لوگ تمھاری باتیں سننے کے لیے ترسیں
گے ۔
تو جب ان بچوں کا ریمورٹ کنٹرول ہمارے ہاتھ میں ہو تو اگر ہم ان کو اچھے
طریقے سے چلائیں تو نہ جانے ہمارے کتنے مسائل حل ہوجائیں کتنے گھروں میں
روٹھی ہوئی خوشیاں واپس لوٹ آئیں۔ہم اپنی زندگی میں بہت سے ایسے والدین کو
دیکھتے ہیں کہ جن کے بیٹے ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں کہ ان کا نام دونوں
جہانوں میں سرخرو کردیتے ہیں اور اس بات کے پیچھے اصل حقیقت ان کی بہترین
پرورش ہی ہوتی ہے جو ان کا سر فخر سے بلند کردیتی ہے۔تو اگر اس وقت جب
ہمارے بچوں کا ریمورٹ کنٹرول ہمارے ہاتھ میں ہو اور کو اس طرح چلائیں کہ ان
کے اندر ہر چینل صحیح نشریات دکھائے تو کیا وہ وقت دور ہے کہ ہماری یہ نسل
بھی اسی محمد بن قاسم (رض)کی طرح بنے تو بات تو صرف ان کے اندردیا جلانے کی
ہے جو ہمیشہ ان کے اندر جلتا رہے گا اور ترقی کا سورج ان کے ساتھ ساتھ سفر
کرتا رہے گا انشا اللہ !
اللہ آپ کو دیے سے دیا جلانے کی توفیق عطا فرمائے﴿آمین﴾ |