دشت ظلمات اور ہاجرہ بے اماں (تیرھویں قسط)

نماز فجر کے ساتھ ہی میں اور فیضی اٹھ کھڑے ہوئے، نماز سے فارغ ہوکر فیضی نے بچیوں کو nannyکےحوالے کیا اور مجھے پیار سے کہا:
"بانو میری جان تھوڑی دیر ہم دونوں آرام کرتے ہیں ۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ ڈائری ختم کئے بغیر میں آفس نہیں جاونگا۔"
لوگ صحیح کہتے ہیں، نیند تو سولی پر بھی آہی جاتی ہے، میں کب نیند کی وادی میں کھوئی مجھے پتا ہی نہیں چلا، میری آنکھ کھلی تو دوپہر کے دو بجے تھے۔ میں نے فیضی کو اٹھایا، خود وضو کر کے نماز پڑھی اور پھر بچیوں کی خبر گیری کے لیے چلی گئی۔دوپہر کے کھانے پر بڑے ماموں جان اور ممانی جان جو میرے ساس ،سسر بھی تھے آگئے ،دن پورا مہمان نوازی میں گزرا، شام کو جب سب چلئے گئے،تو بچیوں کو لٹا کر نماز عشاء پڑھ کر ہم دونوں صوفے پر بیٹھ گئے۔ فیضان کے ماتھے پر تفکرات کا جال تھا، مجھے پتا تھا کہ وہ کس اذیت میں سے گزر رہا تھا ۔ہماری شہزادی ایک دشت ظلمات سے ننگے پیر ،ننگے سر گزری تھی اور ہم دنیا کے دوسرے کونے میں محبت کی پینگ لے رہے تھے۔ میں نے ڈائری کھولی اور اگلے اندرجات پڑھنے شروع کئے۔
میں(ہاجرہ) ایک بند سرنگ میں کھڑی تھی، مجھے اپنے آپ کو ہر قیمت پر بچانا تھا، میں نے کمرے میں نظر دوڑائیں تو مجھے تازہ پھلوں کی ایک ٹوکری نظر آئی ،اس پر ایک چھری پڑی تھی ،میں نے وہ چھری اٹھا کر اپنے دوپٹے میں چھپا لی، دروازہ کھلا اور میں آنے والے کو دیکھ کر لرز گئی وہ ہمارے علاقے کا مشہور سیاستدان نجیب اللہ تھا، اس نے مجھے پہلی بار میرے کالج کے تقریری مقابلے میں دیکھا تھا ،جس کا مہمان خصوصی وہ تھا اسی روز اس کی ننگی اور بھوکی آنکھوں سے میں بہت بے چین ہوئی تھی ۔مقابلے کے بعد اس نے میرے لیے گھر رشتہ بھی کئی دفعہ بھجوایا تھا، مگر میرے والدین کے انکار سے وہ بظاہر پیچھے ہٹ گیا تھا ۔مگر آج اس کی موجودگی بتا رہی تھی کہ وہ میری خواہش سے دستبردار نہیں ہوا تھا۔وہ مجھے دیکھ کر خباثت سے مسکرایا،اس کی آنکھوں کی سرخی اور چال کی لڑکھڑاہٹ بتا رہی تھی کہ وہ نشے میں دھت تھا۔اس نے مجھے مخاطب کیا اور بولا:
"سوہنیو! آخر آہی گئے اپنی جگہ پر، ہم نے تو کہا تھا باجوں گاجوں کی گونج میں تمھیں لائیں مگر تمھارے بے وقوف باپ کو میری بات سمجھ نہیں آئی۔اب نکاح کے بغیر آئی تو تم میری ہی خلوت می ہو۔"
میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں، میرا گلہ خشک ہورہا تھا، میں پھٹی پھٹی آواز میں بولی:
"میرے قریب مت آنا، ورنہ ۔۔۔۔۔"
اس سے پہلے میں کچھ کہتی کوئی بجلی کی پھرتی سے کمرے میں داخل ہوا اور اس نے نجیب اللہ کے سر پر گلدان مارا،نجیب اللہ ایک کٹے ہوے شہتیر کی طرح ڈھیر ہوگیا۔ میں نے اپنے چارہ گر کی طرف دیکھا، تو وہ سجاول علی خان تھا۔ مجھے زندگی میں پہلی بار ایسے لگا جیسے وہ سجاول نہیں کوئی فرشتہ تھا جو میرا سفینہ بیچ منجدھار سے نکال کر ساحل پر لے آیا تھا ۔میں بے اختیار اس سے لپٹ گئی۔ سجاول نے میرے منہ پر ہاتھ رکھا اور مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا، وہ مجھے ساتھ لے کر باہر آیا۔ نجیب اللہ کے محافظوں سے بچتے بچاتے دیوار پھلانگ کر ہم کیسے باہر آئے یہ ایک کار محال تھانجیب اللہ کی حویلی میں شکاری کتے بھی تھے جن کو زہر آلود گوشت کھلا کر سجاول نے چھٹکارا حاصل کیا تھا اس حویلی سے زندہ سلامت باہر نکلنا ایک معجزہ ہی مجھے لگ رہا تھا ،باہر آکر کچھ دیر پیدل چلے پھر کہیں جاکر سجاول کی جیپ تک پہنچے۔ جیپ میں پہنچ کر میں نے سجاول کے بازو پکڑ کر کہا:
"سجاول مجھے گھر لے جاو،اباجی اور امی جی میرے لیے پریشان ہونگے۔"
وہ افسردگی سے مسکرایا اور بولا:
ہاجو! چچا جی تو تمھیں جان سے مار دینا چاہتے ہیں۔وہ سمجھ رہے ہیں کہ تم اپنے کسی پرانے آشنا کے ساتھ بھاگ گئی ہو۔"
میں تڑپ کر بولی:
"سجاول یہ سب جھوٹ ہے۔اللہ گواہ ہے میری زندگی میں تمھارے علاوہ کوئی نہیں ہے۔میں اس نجیب اللہ کو بھی نہیں جانتی، میرا یقین کرو ۔"
سجاول نے مجھے گلے سے لگایا اور بولا:
"ہاجو! مجھے تمھاری پاک دامنی پر شک نہیں ہے ۔"
میں سمٹ کر پیچھے ہٹی اور بولی:
"مجھے گھر لے جاو ،مجھے اباجی کے ہاتھوں مرنا منظور ہے۔"
سجاول نے میرے منہ پر بکھرے بال پیچھے کئے اور بولا:
"ابھی تم میرے ساتھ چلو، کچھ دن تک میں چچا جان کو سمجھا بجھا دونگا۔ویسے بھی تمھیں اغوا ہوئے دو دن گزر چکے ہیں، ابھی تو چچا جان اپنی عزت کے داغدار ہونے کے خیال سے ہی پاگل ہورہے ہیں ۔"
میرا دل عمیق گہرائیوں میں ڈوب گیا۔ میں سہم گئی ،میں جانتی تھی ہمارے علاقے میں گھر سے بھاگی ہوئی یا اغوا شدہ لڑکیوں کے ساتھ کیا ہوتا تھا ان کو اونچے شملے والے بھائی اور باپ اپنے ہاتھوں سے مار کر دبا دیتے تھے۔ میرا دل کٹ رہا تھا، میں پاک دامن تھی، مگر میری پاک دامنی پر یقین کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔ میں نے سجاول کی طرف دیکھا، اس وقت سجاول ہی میرے لیے واحد پناہ گاہ تھا، وہ میرا سائیں تھا، وہ مجھے دنیا کے بہتانوں سے بچا سکتا تھا۔ میں نے سرد آہ بھر کر سپر ڈال دی اور اثبات میں سر ہلایا ۔میں نے سوچا سجاول صرف میرا شریک حیات ہی نہیں بلکہ چچا زاد بھی ہے۔ امی کہتی تھیں کہ اپنا مارئے گا بھی تو چھاوں میں ہی پھینکے گا۔ مگر شاید میں اصل حقیقت بھول گئی تھی کہ وہ "اپنا" ہی کیسے ہے جو آپ کو "مار کر چھاوں میں پھینکے"۔ سجاول نے جیپ آگے بڑھا دی، جیپ کے ساتھ ساتھ چاند سفر کررہا تھا اور میرے نصیب کا چاند درحقیقت غروب ہورہا تھا۔ میں اپنے یقین کی انگلی پکڑ کر ایک نادیدہ دلدل میں اترنے کی تیاری کررہی تھی۔
کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم نتھیا گلی پہنچے، سجاول نے ایک خوبصورت کاٹیج کے باہر گاڑی روکی۔اس نے مجھے کہا :
"یہ میرے دوست کی فیملی کا کاٹیج ہے ،ہم کچھ عرصہ ادھر ہی رہینگے، کیونکہ میری جان کو بھی ابھی چچا جان سے خطرہ ہے۔"
میں جیپ سے باہر آئی اور کاٹیج کی طرف دیکھا۔خوبصورت حسین مناظر میں گھرا، قدرتی آبشار کے قریب یہ کاٹیج درختوں میں چھپا ہوا، اکیلا سا تھا۔ میں سجاول کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوئی،یہ کاٹیج مکمل طور پر لکڑی کا بنا ہوا تھا، فرش بھی ہاڑڈ وڈ کا تھا،ایک چھوٹا سا سٹنگ ایریا تھا جس میں ایک آتش دان تھا،ایک چھوٹا سا کچن، باتھ روم اور ایک بیڈ روم پر مشتمل تھا۔بیڈ روم میں ایک ہی ڈبل بیڈ بچھا ہوا تھا، سجاول نے مسکرا کر کہا: "بھابھی کی ذاتی چیزیں الماری میں ہیں تم وہ استعمال کرسکتی ہوں ۔"
مجھے اس کی نظریں ڈسٹرب کررہی تھیں ۔اس کی آنکھوں میں خواہش کی دنیا آباد تھی۔اس کے ہونٹوں پر خوبصورت مسکان تھی، میرا دل دھڑک رہا تھا، انہونی میرے سر پر کھڑی میرے کانوں میں سرگوشیاں کر رہی تھی۔ میں جانتی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول کے قانون کے مطابق میں سجاول علی خان کے نکاح میں تھی۔ وہ بھاری قدموں سے چلتا میرے قریب آگیا۔ میں اس کی پیش قدمی کو روک نہیں سکی۔ گھڑی کی ٹک ٹک میرے سر پر ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھی ۔میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ سجاول مجھے پیار سے سمجھا رہا تھا:
"ہاجو ! ہم میاں بیوی ہیں، اس میں کون سی نامناسب بات ہے۔"
وہ مطمئن سا کچن میں چلا گیا، میں سن سی بیٹھی سوچ رہی تھی آنے والا وقت اب میرے لیے کیا لے کر آئے گا۔ مجھے اباجی اور امی جی کا خیال تڑپا رہا تھا کیا وہ سجاول کو بطور داماد قبول کرلینگے۔ میں الوک نگری کی بھول بھلیوں میں اکیلی بھاگ رہی تھی ۔میں آج سہاگن بن گئی تھی، مگر ایسی سہاگن جو والدین کی دعاوں کے بغیر ایک نئی زندگی شروع کرچکی تھی ۔میرا رواں رواں لرزاں تھا، کہیں سجاول بھی مجھے بے اماں تو نہیں کردے گا۔
(باقی آئندہ )☆☆☆


 

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 281226 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More