میں اور فیضی کانپ گئے تھے۔مجھے لگا جیسے ہاجرہ میرے قریب
بیٹھی اپنے خوبصورت ہاتھوں سے میرے اشک صاف کررہی ہوں ۔میں ڈائری بند کرکے
چھپ جانا چاہتی تھی، مگر مجھے ہاجرہ حوصلہ دے رہی تھی۔ میں نے اپنے آپ کو
سنبھالا اور پڑھنا شروع کیا:( ہاجرہ کی ڈائری کے اگلے اندرجات ):
مجھے(ہاجرہ ) جب ہوش آیا تو اباجی جا چکے تھے۔میری امی مجھے تسلی و تشفی دے
رہی تھیں مگر میرا دل خالی تھا، میرے ہاتھ خالی تھے، میرا دامن خالی تھا،
میں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور بولی:
یا رب ! جو بیٹی تو نے جنت کی ضمانت بنائی ہے ،وہ تیری بنائی ہوئی دنیا میں
بے اماں کیوں ہے؟
میرا انصاف کون کرئے گا؟
میرا سائیں کون ہے ؟
میں اتنی تہی دامن کیوں ہوں؟
مگر مجھے کوئی جواب نہیں ملا، بس باہر گرج چمک سے بارش شروع ہوگئی، شاید
آسمان کا دامن بھی میرے دکھ سے بھر گیا تھا۔
میں نے اس روز سے سیاہ رنگ کے کپڑے پہن لئے ،امی مجھے دیکھ کر ہولتی رہتیں
اور کہتیں:
"ہاجو تو نے اپنا کیا حال بنا لیا ہے۔"
میں یہ سن کر ہنس پڑتی اور کہتی :
"ماں ! میرا حال تو آپ سب نے مل کر ایسا کردیا ہے، آپ کا قصور یہ ہے کہ آپ
اپنی بیٹی کے لیے لڑی نہیں، ماں کاش آپ نے مجھے اس شکن دھوپ میں جلنے سے
بچایا ہوتا ،تو آج میں یوں بے اماں نہ ہوتی۔ آپ کہاں تھیں جب دس سالہ بچی
کو نکاح کے بندھن میں باندھا گیا تھا؟
آپ نے اباجی آور چاچا جی کو کیوں نہیں کہا کہ جس بچی کو نکاح کا مطلب نہیں
پتا اس کو بھیڑ بکریوں کی طرح جائیداد کو بٹوارے سے بچنے کے لئے کیوں قربان
کیا جارہا ہے؟"
ماں میرے آگے ہاتھ جوڑ کر رو پڑی،میں ان کے آنسو دیکھ کر جان گئی کہ وہ بھی
"بے اماں" تھی،اس کو زبان بندی کا حکم تھا،اگر وہ بولتی تو اباجی اس کے سر
سے اپنے نام کی چادر کھینچ لیتے۔ میری بے اختیار ہنسی نکل گئی، میں زور زور
سے قہقہے لگا رہی تھی ۔ میں اٹھی اور گول گول دائروں میں گھومنے لگی ،امی
بھاگ کر آئیں اور مجھے جھنجھوڑ کر بولیں:
"ہاجرہ تو یہ کیا کررہی ہے؟"
میں ہنستے ہنستے بولی :
"ماں! میں وہ کررہی ہوں جو آپ نے ساری عمر کیا اور اب میں نے ساری عمر کرنا
ہے۔ یہ گول دائرہ ہمارےاردگرد ہمارے گھر کے مردوں نے کھینچا ہے ،ہم نے ساری
عمر اس کے اندر ہی گھومنا ہے۔"
امی مجھے پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھتی ،اکیلا چھوڑ گئیں، میں کب گول گول
گھومتے تھک کر گر پڑی کچھ یاد نہیں ۔
میرے لئے وقت رک گیا تھا اچانک ایک دن اباجی نے حکم صادر کیا کہ ہم کل
لاہور جارہے ہیں کیونکہ پرسوں میرا عدالت میں بیان تھا۔ اباجی نے لینڈ
کروزر میں بیٹھتے ہوئے مجھے کہا:۔
"ہاجرہ یہ سب تمھارے بھلے کے لیےہی میں کر رہا ہوں،وہ خبیث بھائی صاحب کی
جائیداد کے بعد اب میری جائیداد ہڑپنے کے چکر میں ہے۔ لہذا اس بات کا خیال
رکھنا کہ عدالت میں جج صاحب کے سامنے تم نے یہی کہنا ہے کہ تم اس سے خوش
نہیں ہو ، تمھارا نکاح بچپن میں تمھاری مرضی کے خلاف کیا گیا تھا۔اپنے آپ
کو ذہنی طور پر تیاری کرلو۔"
میں خالی خالی نگاہوں سے اباجی کو تکتی رہی۔ہمارے ساتھ اس دفعہ دو سیکیورٹی
گارڈز کے علاوہ دو ملازمایئں بھی سفر کررہی تھیں شاید میری نگرانی کے حوالے
سے اباجی نے انھیں ساتھ لیا تھا،میں نے دل گرفتگی سے سوچا :
"ہاجرہ آج تیرا اپنا باپ تجھ پر شک کررہا ہے کیونکہ اس کو دھڑکا ہے کہ تو
کہیں اس کا ہاتھ چھڑوا کر میاں سے جا نہ مل بیٹھے۔ "۔
ہم عورتیں ساری عمر بے اعتباری کے سائے میں رہتی ہیں ۔گاڑی لاہور کی طرف
عازم سفر تھی، مجھے نہیں پتا تھا کہ ابھی میرے نصیب کی سیاہی مزید بڑھنے
والی ہے ابھی میرے سر پر پھر آسمان گرنے والا ہے ،لاہور پہنچنے سے پہلے
ڈرائیور نے اباجی سے پوچھا:
ملک صاحب نماز کے لئے گاڑی روکوں؟
اباجی نے ماتھے پر ہاتھ مارا اور کہا
فورا جگہ دیکھ کر نماز کے لئے گاڑی روکو، وقت تنگ ہورہا ہے
۔میں نے بھی قریب واقع ریسٹورانٹ دیکھ کر سوچا کہ وضو کر کے گاڑی میں ہی
نماز ادا کردوں ۔اسی ارادے سے میں ملازماوں کے ساتھ میں اس ریسٹورانٹ میں
داخل ہوئی۔ دوپہر کے کھانے کا وقت تھا مگر ریسٹورانٹ خالی تھا، مجھے تھوڑا
تعجب ہوا مگر پھر سوچا سفر کے دوران کتنے لوگ یہاں رکنا پسند کرتے ہونگے
۔کاش میں نے اپنی چھٹی حس پر یقین کیا ہوتا ۔ہوٹل کا مینجر مجھے دیکھ کر
معنی خیز انداز میں مسکرایا اور بڑے شائستہ انداز میں بولا:
جی میڈم ، ٹیبل لینگی؟
میں نے نفی میں سر ہلایا اور اس سے لیڈیز واش روم کا پوچھا، اس نے مسکرا کر
ایک راہداری کی طرف اشارہ کیا ، میرے پیچھے پیچھے ملازمایئں آنے لگیں، تو
مینجر فورا بولا:
"ارے بیبیو! آپ کی بیگم صاحبہ باتھ روم تک تو جا ہی سکتی ہیں ۔"
اس نے یہ جملہ کچھ اس تمسخر سے ادا کیا کہ مجھے بڑی اہانت محسوس ہوئی۔ میں
زیر لب بڑبڑائی:
"بدتمیز "
توہین کے احساس سے میرا منہ سرخ ہوگیا ، میں نے خادماوں کو ڈپٹ کر کہا:
"میں وضو کر کے آ رہی ہوں ۔باتھ روم سے نکل کر ادھر ہی آونگی تم لوگ ادھر
میز پر بیٹھ جاو"۔
مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ ہدایات دے کر درحقیقت میں اپنے تابوت پر خود کیل
ٹھوک رہی ہوں۔ بد بختی میرے ساتھ ساتھ سائے کی طرح سفر کر رہی تھی ۔کاش اس
دن میں اس ہوٹل میں داخل نہ ہوتی یا اپنی ملازماوں کو اپنے ساتھ رکتی۔ مگر
افسوس میرا نصیب مجھے ایک دفعہ پھر دغا دے رہا تھا۔ شہزادی کہانی میں دشت
ظلمات کے ظالم جادوگر کی نظر ہونے والی تھی۔
میں جیسے ہی راہداری سے باتھ روم میں داخل ہوئی تو کسی نے میرے ناک پر کپڑا
رکھ دیا۔ ایک ناگوار سی بدبو نے میری حس شامہ کا استقبال کیا، میں نے ہاتھ
پاوں مارے ،مگر میں ہوش و حواس سے ماورا ہوگئی۔
میری آنکھ کھولی تو میں ایک جہازی سائز بیڈ پر پڑی ہوئی تھی۔مجھے فوری طور
پر سمجھ نہیں آیا کہ میں کہاں تھی؟ میں نے جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی تو
میرا سر چکرا گیا، میں نے قرب و جوار کا جائزہ لیا تو مجھے پتا چلا کہ وہ
بیڈ ایک سیج کی طرح سجا ہوا تھا، کمرے کی آرائش دیدہ زیب تھی، میں نے اپنا
عکس ڈریسنگ ٹیبل میں دیکھا تو میں ٹھٹھک گئی ،میں نے گولڈن رنگ کا غرارہ
سوٹ پہنا ہوا تھا، میں سر سے پیر تک دلہن کی طرح آراستہ تھی۔ میرا دل اس
زور زور سے دھڑک رہا تھا کہ میں اس کی دھڑکن اپنے کانوں میں سن سکتی تھی
۔میں نے اس طرح سجنے کے خواب سجاول کے لئے دیکھے تھے۔میرا بے مثال روپ آج
کسی دشمن کی طرح مجھے للکار کر کہہ رہا تھا ، ہاجرہ آج تو میرے باعث ہی ذلت
کے گڑھے میں گرئے گی۔ میری چھٹی حس چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی میں کسی بہت بری
جگہ پھنس چکی تھی۔اچانک دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔میں ایک ہرنی کی طرح وحشت
زدہ کھڑی تھی، میری ناموس داو پر لگنے والی تھی۔
فیضی اور میں دائمہ کے رونے کی آواز سے حقیقت کی دنیا میں واپس آئے۔ دور
فجر کی اازانیں ہورہی تھیں، ہاجرہ کی ڈائری پڑھتے رات گزر چکی تھی ۔
ہاجرہ کس عفریت کاشکار ہونے جارہی تھی، اس کا پردہ تو اگلی اقساط میں اٹھے
گا۔
(باقی آئندہ )☆☆☆☆
|