دشت ظلمات اور ہاجرہ بے اماں(گیارھویں قسط)

میں گھر پہنچی تو امی،ابو ،بڑے ماموں اور ممانی جان، چھوٹے ماموں سب پلکیں بچھائے بیٹھے تھے ۔چھوٹے ماموں مجھے گلے لگا کر بہت روئے اور بولے:
بانو ! میں اپنی ایک بیٹی کھو بیٹھا ہوں، اب تمھیں نہیں کھونا چاہتا۔"
مجھے بھی سب کے گلے لگ کر سکون کا احساس ہوا، اچانک میری توجہ دائمہ اور راعمہ کی طرف گئی، میں نے بے اختیار پوچھا:
امی ! ہماری بیٹیاں کہاں ہیں؟
امی مجھے اور فیضی کو نرسری میں لے گئیں ۔وہاں گلابی بے بی سوٹ میں ملبوس دو گل گوتھنی بچیاں کھیل رہی تھیں ۔مجھے لگا کہ ہاجرہ چھوٹی ہو کر ان بچیوں کہ قالب میں ڈھل گئی ہے۔ بچیاں سال کے لگ بھگ تھیں ۔میں نے تڑپ کر ان کو گلے سے لگا لیا ،مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں ان کو کس طرح سے پیار کروں۔ فیضان کی آنکھیں بھی بار بار بھر رہی تھیں ۔
فیضان نے خاندان میں ہونے والے ان المیوں کے بعد مستقل بنیادوں پر پاکستان سیٹل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ہم نے ایک پوش علاقے میں اپنا گھر خرید لیا، فیضان اپنے بزنس کی سیٹلمینٹ میں مصروف ہوگئے۔میں چھوٹے ماموں جان کو اصرار کر کے اپنے گھر لے آئی۔ میری جان میرے گلاب کے ان ننھے پھولوں، میری بیٹیوں میں تھی۔ میں ہاجرہ کی ڈائریوں کو فراموش کر بیٹھی تھی۔ آج بچیاں اپنی نینی کے ساتھ پارک گئی ہوئی تھیں ۔میں نے فیضان کی الماری میں کپڑے صحیح کرنے کے لئے ہاتھ مارا تو دونوں ڈائریاں میرے ہاتھ میں آگئیں ۔ میں بے اختیار انھیں پڑھنے لگی ،مجھے اندازہ ہوا کہ ہاجرہ نے جب سے ہوش سنبھالا تھا، وہ اس وقت سے ڈائری لکھ رہی ہے۔ اس میں بچپن کی شرارتیں، ہاجرہ کی معصومیت، اس کی شوخی سب کچھ بند تھا۔ ہاجرہ نے دس سالہ ہاجرہ کے سجاول سے نکاح کا ذکر بھی کچھ یوں تھا۔
"آج مجھے اور سجاول کو بہت اچھے اچھے کپڑے پہنا کر برابر میں بٹھایا گیا۔ مولوی صاحب نے چند آیات پڑھیں اور انھوں نے امی ،ابا اور منجھلے چاچاجی،چاچی کو مبارکباد دی کہ اب ہم ہمیشہ کے لئے "ایک" ہوگئے ہیں ۔"
وہ ڈائری نہیں اس کی سوانح حیات تھی۔اس کے صفحے، ہاجرہ کی بے تابیوں کی داستان بیان کرتے تھے۔کیسے وہ لمحہ بہ لمحہ، پور پور سجاول کے عشق میں ڈوب گئی۔کیسے سجاول اس کی زمین کا سورج بن گیا۔ میری آنکھوں میں سیل بے بہا آگیا۔ ہائے میری بے مراد شہزادی ہاجرہ، اس کو عشق تھا ایک ہرجائئ اور کٹھور سے، مگر کٹھور کے دل پر بے حسی کا قفل لٹک رہا تھا۔فیضان کس وقت کمرے میں داخل ہوا، میں بے خبر تھی۔اس نے آہستہ سے میرے ہاتھ سے ڈائری لے لی اور مجھے گلے لگا لیا۔ میں اس کے تحفظ کی فصیل میں آکر ڈھے گئی، میں روتی رہی،وہ آہستہ میرے بال سہلاتا رہا۔ فیضان نے مجھے کہا :
"آج رات بچیوں کے سونے کے بعد ہم قرطاس ماضی کو اکٹھے پڑھینگے ۔"
رات ڈنر کے بعد بچیوں کو لٹا کر میں اور فیضان بیڈ روم میں بچھے صوفے پر بیٹھ گئے۔ فیضان نے اپنی فسوں خیز آواز میں ڈائری پڑھنی شروع کی،ڈائری میں میری یورپ سے آمد، فیضان کی اس کے دیوانگی سب باتوں کا تفصیلی ذکر تھا۔ ہاجرہ فیضان کی محبت سے آگاہ تھی، مگر سجاول سے وفا نے اس کے پاوں باندھے ہوئے تھے ۔ایک جگہ ہاجرہ نے لکھا :
"پیاری ڈائری کچھ ایسا معجزہ ہوجائے کہ فیضان کی زندگی میں بانو نامی بہار آکر رک جائے،اس پر چھا جائے۔فیضان کا پور پور اس کی محبت سے رنگ جائے" ۔
میری اور فیضی کی آنکھیں نم ہوتی رہیں، وہ محبت کا سمندر تھی ،اس کا دل سمندر کے دامن کی طرح وسیع تھا، ڈائری میں واقعات بیان ہوتے رہے یہاں تک کہ ہماری شادی اور سوئزر لینڈ روانگی کا ذکر بھی تھا۔ میرے اور فیضی کے لئے ایک اچھی اور کامیاب شادی شدہ زندگی کے لئے کی گئی دعاوں کی تفصیل تھی۔ ہم شہزادی ہاجرہ کی دعاوں میں ہمیشہ تھے، میری اور فیضی کی آنکھیں بھر آئیں ۔
فیضان ایک لمحے کے لئے رک سا گیا، اس نے میرے ہاتھ پکڑ کر چومے اور بولا:
"بانو ہم کسی کی دعاوں کے سائے میں تھے،اسی لئے ہمارا پیار بڑھتا گیا۔"
میں نے اثبات میں سر ہلایا ،اس کے ہاتھ سے ڈائری لی اور یادداشتوں کو پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا اس لمحےمجھے ایسا لگا جیسے ہاجرہ سفید لباس میں ملبوس، چاند کی کرنوں پر سفر کرتی میرے اور فیضان کے بیچ آ بیٹھی ہو ،اپنی داستان خود سنا رہی ہو:
آج اباجی شہر سے بہت غیض و غضب میں واپس آئے،آج پوری حویلی ان کے عتاب سے معافی مانگتی نظر آرہی تھی ۔وہ چلائے :
ہاجرہ کی ماں! ہاجرہ سے کہو ، بیٹھک میں آکر دستخط کرئے۔
میں سر پر دوپٹہ لئے تو بیٹھک میں وکیل انکل بیٹھے ہوئے تھے،ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں ۔میں نے بےاختیار پوچھا کہ یہ کاغذ کس چیز کے ہیں؟
اباجی بولے:
"خلع کے تم سجاول علی خان سے خلع لے رہی ہو۔"
میرے اوپر اذیتوں کے در وا ہوگئے، میں تڑپ کر بولی:
اباجی! ایسا مت کیجیے ۔
مگر آج اباجی کی جگہ ایک ظالم جاگیردار کھڑا تھا۔ میں واپس بھاگی مگر حویلی کی خادماوں نے مجھے پکڑ کر میرا انگوٹھا زبردستی ہر کاغذ پر لگا دیا۔ وکیل انکل کاغذات لے کر چلے گئے اور میں دلدل میں دھنستی گئی۔
میری اور فیضان کی آنکھیں ورطہ حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔
ہاجرہ کی داستان کن رازوں سے پردہ اٹھائے گی،پڑھتے ہیں اگلی اقساط میں ۔
( باقی آئندہ ¤¤)۔
 

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 281215 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More