گذشتہ ماہ 27 ستمبر 2018 کوعدالت عظمی نے 157 سالہ
ہندوستانی قانون (دفعہ 497) کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ خبروں کے مطابق
’’سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ’زنا‘ کو جرم کے زمرے میں رکھنے والی 157
سالہ شق کو غیر آئینی قراردے دیا ہے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم
كھانولكر، جسٹس آر ایف نریمن، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اندو ملہوترا
کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ
497 کو کالعدم قرادیا۔
واضح رہے کہ آئینی بنچ نے اٹلی میں رہ رہے کیرالہ کے رہائشی جوزف شائن کی
درخواست پر فیصلہ سنایاہے۔
جسٹس چندرچوڑ نے زناکے جرم کو گزرے زمانے کی بات قرار دیتے ہوئے کہا کہ
دفعہ 497 عورت کی خود اعتمادی اور وقار کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔ یہ دفعہ عورت
کو شوہر کے غلام کی طرح دیکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ 497 عورت کو اس کی
پسند کے مطابق جنسی تعلقات بنانے سے روکتی ہے۔ اسلئے یہ غیر آئینی ہے۔
اس قانون کے نفاذ کے بعد اب شوہر، دوسری عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم
کر سکتاہے اور اسی طرح بیوی کا دیگر مردوں کے ساتھ ناجائز تعلقات گاٹھنا
بھی جرم نہیں شمار کیا جائے گا۔ بیوی جب چاہے اپنی جنسی خواہشات کی پیاس
بجھا سکتی ہے اور شوہر بھی ۔ جس سے بھی دل لگ لگی ہوجائے۔ کوئی کسی کو منع
کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
ویسے تو عورتوں کے ساتھ ہوسناکی کا سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی رہا ہے اور
موقع بہ موقع جنسی ہراسانی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ لیکن اس قانون سے
اس کو اورشہ مل گئی ہے اور اب کھلم کھلا بے محابا مرد وعورت بغیر ازواجی
زندگی کا مزہ اٹھا سکیں گے۔
اس قانون کو نافذ کرنے کاسبب بتایا جا رہا ہے کہ موجودہ قوانین ہندوستان کی
اُن قدیم روایات پر مبنی ہیں جن کے تحت عورت مرد کے ماتحت تھی۔ اب آزادی کا
دور ہے لہذا، عورت، شادی کے بعد شوہر کی غلام نہیں رہ جاتی بلکہ اب وہ
آزاد ہے۔ وہ شادی کے بعد بھی کسی مرد کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے کا مکمل
حق رکھتی ہے۔ خواہ شوہر اور گھر والے راضی ہوں یا نہ۔ اسی طرح مرد کو بھی
شادی شدہ ہونے کے باوجود اپنی دلخواہ عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے
کا اختیار حاصل ہے۔
’اصل میں قانون کو ہٹائے جانے کا سب سے بڑا جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ زنا
کے زیادہ تر معاملات میں صرف خواتین کو ہی قصوروار قراردیا جاتا تھا اور
مرد آسانی سے بچ کر نکل جاتے کیوں کہ ہمیشہ زنا کا الزام شوہروں کی طرف
اپنی بیویوں پر لگایا جاتاتھا اور کوئی عورت اپنے شوہر پر الزام نہیں لگا
پاتی تھی کہ وہ فلاں عورت کے ساتھ زنا میں ملوث ہیں۔ اسی وجہ سے صرف خواتین
ہی اس قا نون کی زد میں پھنستی تھی جبکہ حقیقت میں دونو ں کو سزا کا
برابرامستحق قراردیا جا نا چاہئے تھا۔‘(شکیل شمسی،انقلاب روزنامہ :زنا نہیں
رہا اب لائق سزا)
نہیں معلوم کہ اب تک جو ملک مشرقی تہذیب کا گہوارہ اور مہذب معاشرے کا
علمبردار تھا اب وہ مغربی ہنس کی چال کیوں کر چل رہا ہےاور ان پر مغربی
تہذیب کا بھوت کیوں کر سوار ہوگیا ہے جبکہ کوئی بھی زندہ ضمیر شخص اس قانون
کو نہیں قبولتا۔
ہندوستان وہ ملک ہے جہاں شادی کو سات جنموں کا بندھن مانا جاتا ہے۔ یہاں
عورت اپنے شوہر کے علاوہ دوسرے کے بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھتی ہے۔ یہاں
پردہ داری کا اتنا لحاظ رکھا جاتا ہےکہ عورت اپنے دیور اور خسر سے بھی
گھونگھٹ کرتی ہے۔ ان کے باوجود ملک میں ایسے قانون کو منظوری دینا گنگا
جمنی تہذیت کے تار تار کرنا اور جمہوریت کو تتربتر کرنا ہے۔
دفعہ ۳۷۷ کو غیر قانونی قراردینا فحاشی کو دعوت دینا ہے۔ پہلے لوگ چھپ
چھپاکر زنا کرتے تھے لیکن اب تو ان کو مکمل اختیار حاصل ہوچلا ہے۔اگر یہ
قانون یوں ہی برقرار رہا تو پھر اس گھنونے عمل کے بڑے ہی خطرناک اور ناسور
نتائج برآمد ہوں گے۔
صنف نسواں کی حفاظت سخت اور شادی و بیاہ جیسی پاک دامن رسم کمزور پڑجائے گی۔
عفت اور پاکدامنی میں ضعف آجائے گا۔
جب انسان کو ایک سے بھلے دو عورتیں میسر ہوں گی تو محبتوں میں بٹوارہ
ہوجائے گا اور یوں خاندانی زندگی پھیکی پڑ جائے گی جس کا سب سے زیادہ اثر
بچوں کی تربیت پر پڑے گا۔
زنا بھیانک بیماری لاتا ہے۔ ایڈس سے ملین انسان اب تک موت کے گھاٹ فنا ہو
چکے ہیں ۔
اس قانون کی منظوری کےبعد اب ولدیت کی شناخت مشکل ہوتی جائے گی۔ کون کس کا
فرزند ہے کون بتائے گا اور جن کو محظ اپنی خواہشات کی تشنگی بجھانا ہے وہ
کیوں کر سامنے آئیں گے ؟
اگر مان لیا جائے کہ ڈی این اے یا کسی اور جدید ذرائع سے اس کی شناخت ممکن
ہے تو کب تک اور کیوں کر ؟
یہ مذہب اور مسلک کی اونچ نیچ اور ذات پات کےبھید بھاو سے پرے کی بات ہے۔
ہمارا ضمیر ا کبھی بھی فحاشی کی اجازت نہیں دیتا۔ ہماری تہذیب نے ہرگز بھی
زنا کو نہیں قبول کیا ہے۔ فیصلہ منظورہونے سےکچھ نہیں بنتا ۔ اللہ تبارک و
تعالی نے ہر انسان کو اتنی غیرت وحمیت عطا کی ہےکہ وہ اپنی عزت کی خود
حفاظت کرے اورجن کے ضمیرزندہ ہیں وہ ہرگز بھی اپنی ناموس کو بےحیائی کی
اجازت نہیں دیں گے۔ |