میں(ہاجرہ) ایک نئی زندگی میں قدم رکھ چکی تھی ۔میری
وداعی دنیا کی انوکھی وداعی تھی، میں والدین کی دعاوں کے بغیر، قرآن مجید
کے سائے کے بغیر اپنے شریک حیات کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کر چکی تھی ۔آنے
والے دن ایک خواب سے تھے،سجاول میرے پیار میں پاگل تھا، اس نے مجھے اپنی
پلکوں پر بٹھایا ہوا تھا، مجھے لگتا تھا کہ میں ایک حسین خواب دیکھ رہی
ہوں۔اتنے دن میں میں نے سجاول کو شراب،سگریٹ کسی بد شئے کو ہاتھ لگاتے نہیں
دیکھا تھا۔ میری تنبیہ پر اس نے نماز پڑھنی بھی شروع کردی تھی۔میں اس کے
دوست کی بیوی کے کپڑے استعمال کررہی تھی،مگر میں حیران تھی،تمام
کپڑے،جوتے،میک آپ کا سامان، ذاتی استعمال کی اشیاء سب نئی اور ڈبوں میں بند
اور ٹیگز کے ساتھ تھیں ۔ہر شئے ایسے لگتا تھا جیسے میرے لئے ہی خریدی گئی
ہو،میرے ہچکچاہٹ پر سجاول ہنس کر کہتا :
ہماری بھابھی دل والی ہیں، میں ان کو ان اشیاء کے پیسے دے دونگا اور وہ
اپنے لئے نئی چیزیں خرید لینگی ۔"
میں سجاول کی فرمائش پر کام والے کپڑے پہنتی، وہ اور میں لمبی لمبی ہائکنگ
جنگل میں کرتے۔سجاول ہر خوبصورت مقام پر میری اور اپنی سیلفیز بناتا۔ وہ
بیس دن میری زندگی کے خوبصورت ترین دن تھے ۔ بیس دن بعد سجاول میرے پاس کچھ
کاغذات لایا اور کہنے لگا:
"ہاجو! میں پولیس کمشنر کو بیچ میں ڈال کر چاچا جی سے ملاقات رکھنا چاہتا
ہوں۔یہ اس کے لئے درخواست اور کچھ ضروری کاغذات ہیں، ان پر دستخط کردو۔"
میں مسکرائی اور میں نے اس کی نشاندہی پر سب کاغذات پر بغیر پڑھے دستخط
کردیے ۔بھلا جس شخص کو میں نے اپنا" تن من" سونپ دیا تھا، اس پر میں شک
کیسے کرسکتی تھی۔وہ میرا "مجازی خدا" تھا،" میرا سائیں" تھا، اس پر شک کی
کوئی وجہ نہیں تھی۔
اگلی صبح سجاول تیار ہوکر شہر چلا گیا، جاتی دفعہ میرے ماتھے پر بوسہ دے کر
اس نے کہا:
"میں کل دوپہر تک واپس آجاونگا ۔تم تیار رہنا ہم گھومنے مری جائینگے ۔"
میں اس رات کاٹیج میں اکیلی تھی، دور بھیڑیوں کے بھونکنے کی آوازیں مجھے
ہولا رہی تھیں ۔اس وقت تک مجھے پتا نہیں تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ
خطرناک درندہ صرف" حضرت انسان " ہی ہے۔ اگلے دن میں نے نہا کر سرخ چیک والا
گرم پشمینہ کا سوٹ پہنا، سر پر سرِخ سکارف باندھا، سفید فر والا لانگ کوٹ
پہنا،لانگ لیدر کے بوٹ پہن کر میں نے شیشے میں اپنا جائزہ لیا ،میں بہت
اچھی لگ رہی تھی ۔مجھے اپنے اوپر خود پیار آگیا ۔باہر سے داخلی دروازہ کھلا
اور بند ہوا۔ میرے دل کی کلی کھل گئی۔میں نے سوچا سجاول لوٹ آیا ہے۔
میں خوشی خوشی لیونگ روم کی طرف بھاگی۔صوفے پر سجاول بیٹھا ہوا تھا اس کی
پشت میری طرف تھی۔ میں نے خوشی خوشی اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے ۔اس نے
بڑی بے باکی سے میرے ہاتھ پکڑ کر چوم لئے ،میں مسکراتی ہوئی صوفے کے سامنے
آئی۔میں اس کو اپنی تیاری دکھا کر حیران کرنا چاہتی تھی۔ مگر صوفے پر بیٹھے
شخص کو دیکھ کر میرا دم اٹک گیا۔ وہ کوئی اور نہیں ملک نجیب اللہ تھا۔مجھے
دیکھ کر اس نے واہیاتی سے آنکھ دبائی اور بولا:
"بھلئے لوکے اب تجھے تیرا سائیں مجھے دان کر گیا ہے۔"
میرے سر پر جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا ۔
میں ایک دم سے ہکلائی اور بولی :
"ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟ سجاول میرا شوہر ہے۔تم بکواس کررہے ہو، میں تمھیں
جان سے مار دونگی۔"
نجیب اللہ نے میری طرف ترس بھری نظروں سے دیکھا اور کہا:
" تیرا کیا خیال ہے یہ کاٹیج کس کا ہے؟ یہ تیری اتنی خریداری کدھر سے آئ
ہے؟ میں نے ہی سجاول کے کہنے پر یہ سب انتظامات کیے تھے ،وہ صرف تجھے چند
دن برتنا چاہتا تھا،وہ پرسوں تک تمھارا شوہر تھا، جانے سے پہلے وہ تمھیں
طلاق دے گیا تھا۔تیرا کیا خیال ہے اس دن میرے ڈیرے سے وہ تجھے بھگانے میں
کیسے کامیاب ہوا تھا؟
وہ "زلیل "میرا ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہے۔سیاست کے میدان کی ساری سیاستیں
اس نے مجھ سے سیکھی ہیں ۔اپنے والدین کا خون بھی اس نے کروایا تھا ،کیونکہ
وہ اس کی راہ میں روڑے اٹکا رہے تھے،اس کو سیاست کی دنیا میں "بلیک کوبرا "
کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے دشمن کو ایسا ڈستا ہے کہ اس کا ڈسا پانی نہیں
مانگتا۔۔اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ چند دن تیرے ساتھ بتا کر وہ تجھے
مجھے بخش دے گا،اسی لئے وہ تجھے آسانی سے اس دن میرے کمرے سے لے گیا تھا،یہ
سارا ڈرامہ تیرا اعتبار جیتنے کے لئے اس نے کیا تھا،تاکہ تو اس پر اعتبار
کرکے سب کچھ آسانی سے ہار جائے۔"
وہ شیطانی قہقہے لگا رہا تھا۔
میں پیچھے پیچھے ہٹتے دیوار سے جا لگی، میرا دم اٹک رہا تھا،میں ہکلائی:
"وہ۔۔۔وہ ایسے کیسے کر سکتا ہے ،وہ اپنے ماں باپ کو کیسے قتل کروا سکتا ہے،
وہ میرے ساتھ ایسے کیسے کرسکتا ہے؟ وہ میرا میاں اور میرا تایا زاد ہے؟
نجیب اللہ نے ہنس کر موبائل فون پر آڈیو کلپ آن کیا اور بولا
"لو اس کی اپنی زبانی سن لو کیسے ؟
کمرے میں سجاول کی آواز گونجی۔
"بی بی ہاجرہ تم نے یہ کیسے سوچا کہ میں تمھارے عشق میں پاگل تھا؟ میں تو
تمھارے باپ کے اونچے شملے کو سب کے سامنے زمین پر رولنا چاہتا تھا۔تم مجھ
سے خلع لے کر میرے منہ پر تھوک کر جانا چاہتی تھی،میں نے اب تمھیں" اپنا
"کر اب تمھیں چھوڑ کر تم پر تھوک دیا ہے۔ تم نے اپنی ساری جائیداد بھی میرے
نام لکھ دی ہے اور مہر معاف کرنے کے کاغذات پر بھی تم نے یاد ہے کس پیار سے
دستخط کردئے تھے۔ میں نے تمھیں نجیب اللہ خان کے ہاتھ ایک کروڑ مبلغ اور
ایک کنال لاہور ڈیفنس کے پلاٹ کے عوض بیچا ہے۔تم جاتے جاتے بھی میرے لئے
کارمند ثابت ہوئی ہو اور جو شب و روز تمھارے ساتھ گزرے وہ تو ایک بونس تھا،
اب جاتے جاتے میری طرف سے آخری تحفہ بھی لیتی جاو۔
میں سجاول علی خان تمھیں ہاجرہ بنت ولی علی خان کو باہوش و حواس طلاق دیتا
ہوں۔
میں سجاول علی خان تمھیں ہاجرہ بنت ولی علی خان کو باہوش و حواس طلاق دیتا
ہوں۔
میں سجاول علی خان تمھیں ہاجرہ بنت ولی علی خان کو باہوش و حواس طلاق دیتا
ہوں۔
ہاجرہ بی بی میں نے تو اپنے سگے ماں باپ کی روک ٹوک ختم کرنے کے لئے انھیں
دنیا سے ٹکٹ کٹوا دیا تو تو اور تیرا باپ کس کھیت کی مولیاں ہو۔"
شاید میرے اوپر سے ٹرک بھی گزر جاتا تو مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی ،جتنی
تکلیف مجھے سجاول علی خان کی حقیقت جان کر ہوئی۔ مجھے اپنے وجود سے گھن آنے
لگی، میں ہاجرہ ایک وفاشعار بیوی تھی جس کو اس کے مجازی خدا نے ایک طوائف
کے مقام سے بھی نیچے گرا دیا تھا ،میں ایک بازار میں پڑی جنس تھی ،جس کو اس
کی مرضی کے بغیر کسی بھی خریدار کو بیچ دیا جاتا ہے۔ میرے لئے اب ایک طرف
ذلت کی زندگی تھی کہ میں ایک خریدار کے ہاتھوں بکتی کسی دوسرے ہوس کے پجاری
کے ہاتھوں میں پہنچ جاو،یا عزت سے موت کو گلے لگا لوں۔ میں جانتی تھی نجیب
اللہ کا جیسے ہی مجھ سے دل بھرے گا ،وہ مجھے دوبارہ نیلام کردے گا ۔میں نے
یک دم زدقند لگائی اور دروازہ کھول کر باہر بھاگ گئی۔ نجیب اللہ میرے پیچھے
پیچھے بھاگا،وہ چیخ چیخ کر اپنے ڈرائیور اور کرائے کے غنڈوں کو آوازیں دے
رہا تھا۔میں نے پہاڑ کے کونے پر پہنچ کر آبشار میں چھلانگ لگادی۔میرا جسم
ہلکے پتے کی طرح ہوا میں ڈول رہا تھا،میرا سکارف کنارے پر لگے درختوں کی
ٹہنیوں میں اٹک گیا تھا۔ میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیل بہا بے رہا تھا۔ میں
اللہ سے دعا کر رہی تھی۔
"اے اللہ اس ہاجرہ بے اماں کو موت کی اماں دے دے۔"
میرا جسم جھٹکا کھا کر ٹھنڈے گہرے پانی میں گرا، میں ڈبکیاں لیتی پانی میں
ڈوب رہی تھی۔مجھ پر جان کنی کی تکلیف طاری تھی۔شاید موت کا فرشتہ مجھ پر
مہربان ہوگیا تھا۔ میں نے تھک کر آنکھیں موند لیں۔
کیا موت کا فرشتہ ہاجرہ پر واقعی مہربان تھا یا زندگی ابھی بھی ہاجرہ کا
کوئی نیا امتحان لینا چاہتی تھی۔پڑھتے ہیں اگلی قسط میں ۔
(باقی آئندہ )☆☆☆ |