ہم اور آپ روز لوگوں سے ملتے ہیں ۔طر ح طرح کے لوگوں سے
۔ مختلف قسم کے شخصیت و کردار ہماری نگاہ کو تقویت دیتے ہیں ۔ میں آج آپ
کو جو کہانی سنانے جا رہی ہوں اسے غور سے پڑھیے گا۔ یہ انجان لوگوں کی
کہانی نہیں ۔ جیسے انسان کے اندر دو باطن ہوتے ہیں ظاہر کا اور اندر کا اسی
طرح اس کہانی کے بھی دو باطن ہیں ۔ ہر وہ فرد جو اس سے اتفاق نہیں کرتا نہ
کرئے، کہ مجھے کسی کی تائید کی ضرورت نہیں اور ہر تنقید کے لیے میں تیار
ہوں۔ یہ کہانی صرف سننے اور سمجھنے کے لیے ہے تا کہ آپ کے وجود کی سچائی
کہیں گھر سے بھاگ نہ جائے۔ کہیں آپ یہ نہ کہتے پھریں کہ یہ بیٹیاں ہی گھر
سے کیوں بھاگتی ہیں۔
یہ کہانی ہے اس گھر کی جس کے اوپر بڑا بڑا وجودلکھا تھا۔ وجود میں سچائی
اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر رہتی تھی ۔سچائی کے بھائیوں جھوٹ ، تکبر
،فریب اور حسد نے سچائی کا گھر میں جینا دوبھر کر دیا تھا ۔ جیسے جیسے
سچائی بڑی ہو رہی تھی ،ویسے ویسے کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ یہی حال دانائی کا
تھا۔ جھوٹ اور فریب نہیں چاہتے تھے کہ وہ دنوں نظر بھی آئیں۔گزرتے وقت کے
ساتھ ساتھ شخصیت و کردار جھوٹ و تکبرکو اس قدر اہمیت دینے لگے تھے کہ سچائی
اور دانائی منہ دیکھتی رہ جاتیں۔
شخصیت و کردار اپنے عمل کی زمہ داری لینے کو تیار نہ تھے بلکہ ان کا کہنا
تھا ہر کسی کا معاشرے میں یہی حال ہے۔ جھوٹ و فریب ہی فائدہ دیتے ہیں جبکہ
سچائی و دانائی تو پرائی ہوتی ہیں ۔جب ایک دن انہیں گھر سے رخصت ہی کرنا ہے
تو ۔۔۔۔۔۔۔سچائی اپنے ماں باپ شخصیت و کردار سے سخت نالا ں رہنے لگی
تھی۔پھر ایک دن وہ گھر سے بھاگ گئی۔جھوٹ نے کہا، ضرور اس کا کسی کے ساتھ
پہلے سے چکر تھا۔ تکبر نے کہا اب جو واپس آئے تو اسے کاری کر کے مار دیں
گئے۔ شخصیت و کردار ،اداسی سے اپنے بیٹوں کی باتیں سن رہے تھے۔ فریب نے کہا
دانائی سے پوچھو۔ اسے یہ سب نہیں بتانا۔وہ سچائی کی ہم نوا ہے۔ اسے اپنے
ساتھ کر لوتو معاملہ تمہارے ہاتھ میں ۔ حسد نے کہا دانائی اور سچائی کی اب
اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ۔ یہ عزت و غیرت کے لیے خطرہ ہیں۔شخصیت نے
افسردگی سے کہا۔ دیکھو جان سے نہ مارو۔ گھر کے سب سے نیچے کے تہہ خانے میں
چھپا دو ، جو وجود کا سب سے چھپا ہوا حصہ ہے ۔تکبر نے کچھ دیر کے تامل کے
بعد حامی بھرتے ہوئے کہا۔ چلو بھائیوں دانائی کو لا کر وجود کے سب سے
پوشیدہ حصے میں قید کر دیں ۔ سچائی تو ویسے بھی بھاگ چکی ہے۔
دانائی گھر کے تہہ خانہ میں بند تھی اور بند کرنے والے کوئی اور نہیں اس کے
اپنے بھائی تھے۔دانائی کی شادی اس کے کزن غصہ سے طے کر دی گئی تھی۔ وہ رو
رو کے مر جانے کی دُعا مانگ رہی تھی۔ اس کی ماں شخصیت مجبور تھی ۔ وہ چاہ
کر بھی اپنی بیٹی کی مدد نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے بیٹوں نے اسے بے بس اور
مجبور کر دیا تھا۔ اسے تعجب تھا کہ سچائی اسے چھوڑ کر کیوں بھاگ گئی۔ سچائی
آخر گھر سے کیوں بھاگی ۔ یہ بیٹیاں ہی گھر سے کیوں بھاگتی ہیں ۔ شخصیت جب
دانائی سے تسلی لینے آئی تو اس کی بے تکی باتوں پر دانا ئی نے اپنے لاغر
پن کے باوجود اپنی ماں کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ دانائی بولی ۔ امی یہ بات
آپ اچھے سے جانتی ہیں ، سچائی کیوں بھاگی۔شخصیت منہ بناتے ہوئے دانائی سے
دور بھاگی۔وہ اس کی مذید باتیں سن کر پریشان نہیں ہونا چاہتی تھی ۔ فوراً
جا کر جھوٹ کے پاس بیٹھ گئی۔ جو گانے سن رہا تھا۔ شخصیت نے اداسی سے کہا
سچائی اور دانائی۔ جھوٹ نے مسکرا کر شخصیت کے دونوں ہاتھ پکڑ کر کہا، غم نہ
کرو ۔ میں ہوں نا صدا کا تمہارا۔میرے ساتھ خوش ہوجاو ۔یہ خوشی ابدی ہے ،
کچھ بھی نہیں بدلے گا ۔کبھی نہیں بدلے گا۔ بس میرے ساتھ رہو ۔ دیکھتے ہی
دیکھتے فریب ،حسد اور تکبر بھی آ موجود ہوئے۔ شخصیت دانائی اور سچائی کا
غم بھول گئی۔ اس کے جوان بیٹے اس کی انکھوں کے لیے پردے کا باعث تھے۔
دانائی ،جس سے تہہ خانہ کے اندھیرے میں بھی کرنیں پھوٹ رہی تھیں ۔وہ اپنی
بہن سچائی کو یاد کر رہی تھی۔ جو گھر سے چلی گئی تھی ۔ دانائی نے انکھیں
بند کی تو سارے مناظر اس کی انکھوں میں گھوم گئے۔ روح پر جب جھوٹ و تکبر کا
قبضہ نہیں تھا تو اس نے دانائی کو بتایا تھا کہ کیسے وہ جسم کی غلام بنی۔
یہ کہانی شروع تب ہوتی ہے جب روح نے جسم سے نکاح کرنے پر رصامندی ظاہر کر
دی۔ اگرچہ روح آزاد تھی مگر اس نے جب مٹی کی خوبصورت مورت کو دیکھا تو
حیرت میں پڑھ گئی ۔ جسم سے خوبصورت کوئی شے اب تک اس نے نہ دیکھی تھی۔ اس
کے ظاہر سے متاثر ہو گئی۔ عورت ذات یہیں سے مار کھاتی ہے۔ چاہنے اور چاہے
جانے کی خواہش اس سے اس کا سب کچھ چھین لیتی ہے۔ جن چیزوں کو اسے چھوڑنا
ہوتا ہےان کی فہرست بہت لمبی ہے ، مگر ایک جملے میں اگر بیان کر دیا جائے
تو اپنی آزادی چھوڑ غلامی کو خوشی سے قبول کر لینا ہے۔
جسم بھی روح کی لطافت کو دیکھ کر حیران تھا ۔ وہ اسے پانے کے لیے بے تاب
تھا۔ اس کی مردانگی اسے مجبور کر رہی تھی کہ وہ روح کو اپنی ذات میں قید کر
لے ۔ دونوں اپنے اپنے طور پر ایک دوسرے کو دیکھ کر سحر میں آ گئے۔جس کو
انہوں نے محبت کا نام دیا۔
روح کو لگا کہ وہ جسم کے بغیر نامکمل ہے اور جسم کو لگا ،روح اسے ابدی خوشی
دے گی۔ یوں دنوں ایک دوسرے کی محبت میں ایک دوسرے کو قبول کر بیٹھے ۔ جب
روح جسم کی تاریکی میں داخل ہو چکی تو اسے معلوم ہوا کہ جو جیسا نظر آتا
تھا ،ویسا تھا کچھ نہیں ۔ جسم تاریک غار کا سا تھامگر اب کیا ہو سکتا تھا۔
اب طے شدہ قول و قرار نبھانے تھے۔ روح تکلیف سے سٹپاٹی ۔ قدرت نے روح اور
جسم کو ساتھ رہنے کے طریقے سمجھا دیے ۔ بھلائی کیسے حاصل ہو گی بتا دیا۔
جسم جو سکوت کی حالت میں تھا ،روح نے اس میں ہلچل کر دی۔ وہ خود اس غار میں
بے چین تھی تو اسے بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتی تھی۔ شروع شروع میں تو جسم
خوش تھا اسے دنیا کو نئے طریقے سے سمجھنے دیکھنے کا موقع مل رہا تھامگر
جیسے ہی چھ سات ماہ گزرے یا یوں کہیں کہ چیوگم سے مٹھاس ختم ہوئی تو ۔جسم
،روح پر ہر دم غصے رہنے لگا۔ وہ خود جس قدر لطیف تھی ،جسم کو ایسی لطافت
نصیب نہ کروا سکی۔ جسم نے اس سے اس کی آزادی سلب کر لی۔ اسے چھپانے کی
کوشش کرنے لگا۔ وہ اب نہیں چاہتا تھا کہ اس کی روح کو کوئی بھی دیکھے ۔ اس
نے اس کا نام بھی بدل دیا۔ روح نے جسم کو خوش کرنے کے لیے اس کی ہر جائز و
نا جائز خواہش پر سر تسلیم خم کیا۔ وہ اس غلط فہمی میں تھی کہ اسے جسم سے
محبت ہے اور جسم کو اس سے۔ اصل معاملہ یہ تھا کہ وہ گھپ اندھیرے میں رہنے
کی عادی ہو چکی تھی۔ وہ جسم کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھی۔ جسم روح کی اس
کمزوری کو جلد ہی جان گیا۔ وہ خوش تھا کیونکہ باظاہر حاکم وہی تھا۔
یوں جسم اور روح نے معاشرہ میں نئے نام اختیار کر لیے۔ شخصیت اور کردار۔
شخصیت و کردار نے جب معاشرے میں اپنے وجود کی تسکین کے لیے صاحب اولاد ہونے
کی سوچی تو گھر بنا ۔جسے وجود کہتے تھے۔ معاشرے میں جگہ جگہ وجود ہیں اورہر
وجود صاحب اولاد ہے ۔یہاں بات مگر دانائی اور سچائی کے ماں باپ کی ہو رہی
ہے۔جسم اپنی روح پر قبصہ کرنے کی کوشش میں ہر بات اس سے منواتا ۔وہ روز اسے
بتاتا کہ میرے بغیر تم کچھ بھی نہیں ہو۔میری ہی وجہ سے تمہاری پہچان ہے
جبکہ روح اسے روز یاد دلاتی کہ مجھے اتنا تنگ نہ کرو۔ ایک دن تمہیں چھوڑ
دوں گی۔ پھر کسی قابل نہیں رہو گئے۔ جسم اسے کھوکھلی دھمکی ہی سمجھتاتھا۔
وہ جانتا تھا کہ اندھرے میں رہ رہ کر روح اپنے اصل سے انجان ہو چکی تھی۔
ایسے میں وہ خود کو کمزور اور جسم کو اپنا حفاظت کرنے والا سمجھنے لگی تھی۔
حقیقت تو یہ تھی کہ جسم خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتا تھا ،روح کی حفاظت کیا
کرتا۔ ایک برہم دونوں کو جوڑ کر رکھے تھا۔
ان کے ہاں سب سے پہلے جھوٹ نے جنم لیا۔ یہ ان کا بڑا بیٹا تھا۔ اس کا رعب
بھی ہونا واجب تھاپھر دوسرا بیٹا تکبر پیدا ہوا تو شخصیت وکردارکو اپنا
وجود بھرا بھرا محسوس ہونے لگا۔ ہمارے ہاں بیٹے جیسے بھی ہوں ،ماں باپ کی
آنکھ کا تاراہوتے ہیں ۔ کردار اتراتا پھرتا مگر شخصیت کو اندر سے کمی
محسوس ہوتی۔ اس کا نام روح سے بدل دیا گیا تھا مگر اپنی اصل میں وہ روح ہی
تھی۔ کبھی نہ فنا ہونے والی ۔خوشبو کی طرح اپنا اثر چھوڑنے والی مگر اب وہ
جسم کی غلام تھی۔ اسے جھوٹ اور تکبر کو دوسروں سے ملوانے کے بعد دلی طور پر
اندر ہی اندر رنج محسوس ہوتا۔
وہ باطن سے ابھی بھی روشنی چاہتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس کو رب نے سچائی سے
نوازا۔ سچائی کی پیدائش پر پورے وجود میں ہلچل مچ گئی۔ جھوٹ اور تکبر اسے
جھک جھک کر دیکھتے۔ سچائی کی طرف جو بھی دیکھتا وہ اپنے چمکتے چہرے کی وجہ
سے ہر ایک کو متوجہ کرتی۔ جھوٹ اور تکبر دھیرے دھیرے اس سے نفرت کرنے لگے ۔
وہ شخصیت و کردار کو ہر دل عزیز تھی۔ شخصیت جب اسے دوسروں سے ملواتی تو بہت
خوش ہوتی۔ سچائی کے ہوتے ۔ جھوٹ اور تکبر دُکھی اور رنجیدہ تھے۔ وہ طرح طرح
کی چالیں چلتے۔ سچائی سے محبت اور اس کی دیکھ بھال ابھی جاری تھی کہ رب نے
شخصیت کو دانائی عطا کی ۔ دانائی کی پیدائش کے بعد جھوٹ اور تکبر شخصیت کی
توجہ کا مرکز نہیں رہے تھے۔
دانائی کی آنکھوں سے اشک ٹپک گئے۔وہ ماضی کی حسین یادوں میں کھوئی تھی۔
اسے اپنی ماں کی محبت یاد آ رہی تھی ۔ کیسے وہ سچائی اور دانائی سے دلار
کرتی ۔ دھیرے دھیرے پھر تکبر نے چالیں چلنا شروع کی ، جھوٹ نے بھی دل
لبھانے والی کہانیوں سے شخصیت کو اپنی طرف کر لیا۔ ارد گرد کے ماحول نے
شخصیت کی توجہ سچائی سے ہٹا کر جھوٹ اور تکبر کی طرف کر دی۔ ظاہر ی فائدے
میں الجھ کر شخصیت جھوٹ اور تکبر کی بات سننے لگی ۔ کردار و شخصیت نے جھوٹ
اور تکبر کو ہی اصل وارث جانا۔ ان کے گھر سچائی اور دانائی عدم توجہ کا
شکار تھیں ۔ ایسے حالات میں فریب اور حسد نے جنم لیا۔ فریب کے پیدا ہونے کے
بعد شخصیت سچائی اور دانائی سے بلکل دور ہو چکی تھی۔یوں حسد کی پیدائش نے
آخری کیل کا کام کیا۔ چاروں مل کر شخصیت و کردار پر حاوی تھے۔ جھوٹ
اکثرکہتا۔ اگر اپنے آپ کو اپنے وجود کو بچانا ہے تو ہم جیسوں کی ہی ضرورت
ہے۔ بے وقوف ہیں جو سچائی اور دانائی کو چاہتے ہیں ۔ شخصیت و کردار ان
چاروں کی باتوں میں آ جاتے ۔ انہوں نے سچائی اور دانائی کا جینا دوبھر کر
دیا۔ انہیں ہر بات پر ٹوکا جاتا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کا گلا گھونٹنے
کی نوبت آ جاتی۔
چونکہ شخصیت اپنے چاروں بیٹوں کے دام فریب میں آ گئی ،جسم کی غلام تو وہ
پہلے ہی تھی ۔ اب اس کے بیٹے بھی حکومت کرنے کے لیے جوان ہو چکے تھے۔ سچائی
اور دانائی اکثر ایک دوسرے سے رو کر فریاد کرتی نظر آتی۔ پہلے پہلے جب
شخصیت و کردار کہیں جاتے تو سچائی اور دانائی ان کے ساتھ ساتھ ہوتیں مگر
پھر جھوٹ و تکبر کے بڑا ہونے کے بعد سچائی اور دانائی کو بڑی بڑی چادوں میں
چھپا کر ساتھ لے کر جایا جاتا۔ انہیں عزت سے تعبیر کیا جانے لگا۔جسم نے روح
سے کہا کہ جھوٹ بلکل ٹھیک کہتا ہے ،سچائی کو پردہ کرنا چاہیے۔ تم دیکھتی
نہیں ہر کوئی اسے دیکھنے لگتا ہے۔ یہ ہماری بدنامی کا باعث بنے گی۔
یوں دانائی اور سچائی کو ٹوپی والا برقع لے کر دے دیا گیا۔ وقت گزرنے کے
ساتھ انہیں گاڑی کی پچھلی سیٹ سے بھی ہٹا دیا گیا۔ اب کہیں جانا ہوتا تو
شخصیت و کردار انہیں گاڑی کی ڈگی میں ٹھونس دیتے ۔ گاڑی میں جھوٹ ،تکبر
،فریب اور حسد شور مچاتے ،جاتے۔ اب آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوا
ہو گا کہ سچائی اور دانائی کو ڈگی میں ڈال کر ساتھ لے جانے کی ضرورت کیا
تھی ۔ گھر میں چھوڑ دیتے ۔ تو جواب یہ ہے کہ شخصیت و کردار کو ڈر تھا کہ ان
کی سچائی کو کوئی نہ دیکھے۔ دانائی سچائی کے بغیر کسی جگہ آنے جانے یا
رہنے کو تیار نہ تھی۔ اس لیے وہ ایسا مجبوری سے کرتے تھے۔بہت کم وجود تھے
جو اپنی سچائی کو اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ اپنی دانشمندی کو گولی
لگنے کے باوجود اس کا علاج کرواتے ۔ سچائی جانتی تھی کہ دانشمندی کا گولی
کھانے کے بعد چہرہ بھی ٹیڑھا ہو چکا ہے ، اگر چہ دنیا نے اسے سراہا ہے مگر
اس کا چہرہ ابھی بھی ٹیڑھا ہی ہے۔ جھوٹ کہتا ہے کہ وہ دشمنوں کی ہے ۔ جھوٹ
کہتا ہے کہ فساد اور جھگڑا بلکل حق بجانب تھے۔دانشمندی مر جاتی تو ہی بھلا
ہوتا۔سچائی ان حالات سے پریشان تھی۔ دانشمندی کی طرح اسے بھی سر عام گولی
تو نہیں مار دی جائے گی۔ سچائی جانتی تھی کہ روح اس کی وجہ سے پریشان تھی۔
ایک طرف وہ جسم کو خوش کرنا چاہتی تھی تو دوسری طرف اس کے بیٹے تھے ۔
اسےساتھ رکھنے سے بیزار ہوں ،اسے چھوڑنا بھی محال ہے۔
کوئی تو بتا وں میں چھپاوں کہاں ،میری سچائی کا سوال ہے۔
میرے جھوٹ نے اسے نگل لیا ،فریب نے کہا چھوڑ اسے۔
لاچار ہے وجود میں کہیں گمشدہ ،یہ میری دانائی کا حال ہے۔
میرا جسم مجھ سے چاہیے یہ کہ میں اپنا آپ اسے سونپ دوں۔
میں اس سے بھی ہوں انجان کنولؔ جو اصل روح کا کمال ہے۔
سچائی ایک دن اپنی کزن ایمانداری کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی تو
انتہائی افسوس سے بولی۔ بابا اور امی کو دیکھائی ہی نہیں دیتا۔ وہ کیسے
جھوٹ اور تکبر کو اپنا سب کچھ دے بیٹھے ہیں اور دانائی بھی بیمار رہتی ہے۔
وہ بھی کچھ نہیں کرتی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی میں کیا کروں۔ امی کو لگتا ہے
کہ میں ان کی رسوائی کا باعث بنوں گی ۔ اس لیے مجھے سامنے ہی نہیں لانا
چاہتی۔ دوسری طرف جھوٹ کو ہر دم مجھ پر سوار رکھتی ہیں ۔
کیا بڑا المیہ ہے کہ سچائی کی حفاظت جھوٹ سے کروائی جاتی ہےاور دانائی کا
کیا کرنا ہے تکبر طے کرتا ہے۔ وہ دور اچھا تھا جب ہمیں پیدائش کے ساتھ ہی
زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ اس طرح تل تل مرنا نہیں پڑھتا ۔ ایمانداری نے
افسردگی سے کہا۔ یار معاشرے میں ہر وجود کا یہی حال ہو رہا ہے۔ دانشمندی
ذرا سا سر اُٹھائے تو اس کے سر میں گولیاں داغ دی جاتی ہیں ۔ تم دیکھتی ،
سنتی تو ہو گی۔ کیا کچھ ہو رہا ہے۔ عزت کی عزت محفوظ نہیں رہی ۔ ایسے میں
تمہاری امی کا تمہیں چھپانا تو بنتا ہے۔ سچائی نے اداسی سے کہا ۔ تو کیا ہم
اس لیے ہیں کہ ہمیں تہہ خانوں میں چھپا دیا جائے۔ ہر اچھی شئے سے محروم کر
دیے جائیں جبکہ خوشحالی ہم سے ہے نہ کہ جھوٹ و تکبر سےیا فریب اور حسد سے۔
دانائی کہتی ہے ،یہ سب اس لیے ہے کہ روح نے خود کو جسم کو سونپ دیا۔ اپنا
آپ چھوڑ دیا۔بڑے پیمانے پر یہ جھوٹ عام ہے کہ روح جسم کے بغیر کچھ نہیں ۔
حقیقت تو مختلف ہے۔روح اپنی لطافت کھوتی جا رہی ہے، جسم اسے بے معنی لذت
میں الجھا کر رکھتا ہے۔ کسی کو غلام بنا کر رکھنے کے لیے اچھا نسخہ یہ ہے
کہ اسے پتہ ہی نہ چلنے دیا جائے کہ وہ غلام ہے۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے
کی بانسری ۔
ایمانداری نے اداسی سے کہا میرے وجود میں بھی غصہ آگے آگے چلتا ہے اور
میں پیچھے پیچھے۔ ہم کچھ کر بھی تو نہیں سکتے۔ سچائی نے دانتوں کو پیستے
ہوئے کہا ،میں کروں گی۔ ایمانداری نے ہنستے ہوئے کہا۔ پاگل ہو گئی ہو کیا۔
اپنے ماں باپ کا سوچو۔ سارے تم پر جانے کیا کیا الزام لگا دیں گئے۔ سچائی
کی انکھوں میں نور چمکا اس نے کہا۔ جو بھی ہو میں سامنے آوں گی ۔ خواہ پھر
کوئی سر میں گولی مارے یا کارو کاری کا الزام لگائے ۔ مجھے پروا نہیں ۔
ایمانداری نے تعجب سے کہا تم جھوٹ و تکبر کے خلاف جاو گی۔ سچائی نے مسکرا
کر کہا۔ کوئی فریب کوئی جھوٹ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ۔ افسوس تو اس
بات ہے کہ میری ماں نے مجھے بے یارو مدد گار چھوڑ دیا۔ اگر وہ جسم کی خوشی
کے لیے مجھ سے دور نہ ہوتی تو آج اسے جھوٹ اور تکبر نہیں بلکہ صبر اور
استقامت جیسے بیٹے ملتے مگر افسوس کہ وہ جسم کی خوشامد میں جھوٹ کو چاہنے
لگی۔ ایمانداری نے کہا کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو مگر جو بھی کرو، دانائی کو
ساتھ لے کر کرنا۔ سچائی نے افسردگی سے کہا ، دانائی وجود چھوڑنے کے لیے
تیار نہیں ، وہ گھر سے بھاگنا نہیں چاہتی ۔ کمزور اور لاغر ہوتی جا رہی ہے۔
مر جائے گی مگروجود کو نہیں چھوڑے گی۔
سچائی نے گھر آتے ہی دانائی سے کہا۔ دیکھو، ہمارے وجود کو ہماری ضرورت
نہیں ہے ۔ چلو میرے ساتھ چلو۔ چلو ہم کوئی ایسا وجود ڈھونڈیں جہاں شخصیت و
کردار سچائی اور دانائی کے طلبگار ہوں ۔ جہاں فریب اور جھوٹ کی نہ چلتی ہو۔
جہاں صبر اور استقامت ہوں ۔دانائی نے سچائی کا ہاتھ پکڑ کر کہا ممکن ہے کہ
ہم جھوٹ کو صداقت بنا سکیں ۔ وہ سدھر جائے۔ سچائی نے دانائی کے ہاتھ سے
ہاتھ کھینچ لیا اور چلائی جھوٹ اور صداقت ، تم کس گمان میں جی رہی ہو بہن۔
بارش بنجر زمین کے لیے ہریالی ہوتی ہے ،گٹر کے لیے تو وہ ابلنے کا باعث ہی
بنتی ہے۔ دانائی نے کمزوری سے انکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔ ابھی کچھ اور دن
رُک جاو۔ سچائی نے اداسی سے کہا۔ میرا یہاں دم گھٹ جائے گا۔ میں مر جاوں
گی۔ اگر مرنا ہی ہے تو لوگوں کو اپنا آپ دیکھا کر مرنا چاہتی ہوں۔ سچائی
دانائی کو چھوڑ کر گھر سے بھاگ گئی۔ شخصیت و کردار کو اداس دیکھ کر جھوٹ و
فریب نے انہیں کہا، اسی لیے تو لوگ بیٹوں کی تمنا کرتے ہیں ،یہی نسل در نسل
عزت کے امین ہوتے ہیں ۔ بیٹیاں تو ناک کٹوانے کے لیے ہی جنم لیتی ہیں ۔ تم
فکر نہ کرو ۔ ہم سچائی کو ڈھوند کر جہاں ملے گی ، قتل کر دیں گئے۔گھر واپس
آئی تو کارو کاری کر کے مار ڈالیں گئے۔ تکبر نے کہا ، ہاں ہاں میں تو کہتا
ہوں وجود کے اندر ہی ایک گہرا کھڈا کھودو۔ جیسے ہی سچائی آئے ، دانائی اور
سچائی دونوں کو گاڑ دو۔
سچائی در در ایسے وجود کی تلاش میں تھی جہاں وہ بے دھڑک رہ پائے لیکن ہر
جگہ اسے ایسے ہی وجود مل رہے تھے کہاں کہیں تو غصہ تھا کہیں مکر ۔ کہیں
جھوٹ اور کہیں فریب الگ الگ ناموں سے سچائی کو دبوچنا چاہتے تھے۔ وہ اپنے
وجود کے دروازے پر کھڑی اپنے بھائیوں کو دیکھ رہی تھی جو ایک گہرا گھڈا
کھود رہے تھے تا کہ سچائی کو دفن کر سکیں ۔ حسد کی آواز باہر تک آ رہی
تھی۔ گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو۔ سچائی کی انکھوں میں آنسو تھے۔
سچائی افسردگی سے دل ہی دل میں سوچ رہی تھی ، دانشمندی اپنے وجود کے ساتھ
ملک بدر ہو گئی مگر اپنے ہی ملک میں مجھے وجود میں اندر ہی اندر کیوں گاڑ
دیا جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ بیٹیوں کو تحفظ کی ضرورت ہے۔ ایسے وجود کہاں ہیں ۔
اس کے گال آنسووں سے تر تھے۔ ایسے وجود تھے تو مگر وہ ان تک پہنچ پاتی اس
سے پہلے ہی جھوٹ نے اسے دیکھ لیا، چاروں بھائیوں نے لاچار سچائی کو پکڑ کر
زندہ ہی دفن کر دیا۔ اُدھر تہہ خانے میں دانائی بھی دم توڑ گئی۔سچائی پر
مٹی ڈال کر انہوں نے ایک دوسرے کو شاباش دی۔ روح نے دبی دبی آواز میں جسم
سے کہا۔یہ اچھا نہیں ہوا۔ جسم نے مردانہ وجاہت میں کہا۔ میرے اندر رہنا ہے
تو چپ چاپ رہ ۔ عورت کا کام نہیں کہ مردوں کے فیصلے میں بولے۔ روح افسردگی
سے باورچی خانے میں چکن کڑائی بنا رہی تھی۔ شام کو شخصیت و کردار نے ایک
فنگشن میں بھی جانا تھا۔ روح جسم سے نکل جانا چاہتی تھی مگر یہ بھی اس کے
بس کا نہیں تھاکیونکہ اس کی سچائی اور دانائی مر چکی تھیں ،اس کے اندر خوف
ہی خوف بچا تھا۔ وہ چپ چاپ ہانڈی میں چمچ چلاتی رہی۔چمچ کی آواز اذیت در
اذیت کا ایک سلسلہ تھی مگر روح اس کی عادی ہو چکی تھی۔ ہمارے معاشرے کی
عورت ایسی ہی ہے۔
دانائی نےاس گہرے کھڈے سے باہر نکلنے کا طریقہ سچائی کو بتایا۔ اگرچہ
دانائی جھوٹ ، تکبر ،فریب اور حسد کے ساتھ رہ رہ کر لاغر ہو چکی تھی مگر اب
بھی وہ دانائی ہی تھی۔ دانائی اور سچائی اس کھڈے سے نکل کر اس وجود سے
کوسوں دور جا چکی تھی۔ جھوٹ و فریب جب کہ اتراتے پھرتے کہ انہوں نے سچائی
کو مار ڈالا ہے۔ سچائی اور دانائی سمندر کنارے بیٹھی اپنی روح کے کھوکھلا
ہونے پر ماتم کر رہی تھیں ۔ کاش کہ ہماری ماں ہماری حفاظت کرتی ۔ جسم کو
اچھائی کی طرف لے جاتی۔ کاش۔ ۔۔۔دانائی نے افسردگی سے کہا۔ یہ جسم ،روح کی
سنتے کہا ہیں ۔ انہیں لگتا ہے کہ روح فسادی ہے۔ سچائی نے کہا ،فساد کی جڑ
روح تو نہیں ۔ دانائی مسکراتے ہوئے بولی ۔وجود کی بھلائی سچائی اور دانائی
کے ساتھ ہی ہوتی ہے اور جسم کی روح کے ساتھ ۔ کاش کہ کوئی سمجھے۔۔۔۔یہ
گمشدہ سچائی۔ |