وہ اک دیا بجھا تو سیکڑوں دئیے جلا گیا

تیونس شمالی افریقہ میں بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہے اور اسکا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو کوہ اطلس کے گردو نواح میں واقع ہیں۔ تیونس کی سرحدیں مغرب میں الجزائر اور جنوب مشرق میں لیبیا سے ملتی ہیں۔ 20 مارچ 1956 کو تیونس ، فرانسیسی تسلط سے آزاد ہوا۔ آزادی کے بعد سے تیونس میں اسلام شدید مظلومیت کا شکار رہا ہے۔یکم جنوری1957 سے جب سرکاری ضابطہ قوانین پر عمل درآمد شروع ہوا تو شرعی عدالتوں کو تنسیخ کردیا گیا، عالم اسلام کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ الزیتونیہ جو عربی زبان کی حفاظت کا قلعہ تھی اسکا اسلامی تشخص ختم کر کے مخلوط تعلیم رائج کر دی۔ لوگوں کے دلوں سے ایمان کو محو کرنے کے لیے ، بے حیائی اور بدکاری کے فروغ کے لیے حکومت نے مخلوط ہوسٹل، رقص و سرور کے مخلوط کلب وسیع پیمانے پر قائم کیے گئے، حد یہ کہ بدکاری اور جنسی بے راہ روی کے فروغ کے لیے یونیورسٹی کے طلبہ و طلبات کو اخلاقیات سے گری ہوئی ویڈیوز دکھائی جاتی، حکومت نے وقتاً فوقتاً ایسے قوانین جاری کیے جن سے تیونسی خاندانوں کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔

تیونس میں سیاسی، انسانی اور اسلامی حقوق کی پامالی کا بہران تو نیانہ تھا لیکن ایک چراغ نے گل ہو کر اس میں وہ لہو دوڑا دیا جسکی ان لوگوں کو عرصہ دراز سے ضرورت تھی۔ تیونس کے چھوٹے سے قصبے ‘سدی بوزید‘ کے 26 سالہ نوجوان ‘محمد بوعزیزی ‘ اسوقت لوگوں کے دل اور جذبات کا صحیح ترجمان بن کر اُبھرا کہ جب وہ گریجویٹ ہونے کے باوجود بھی نوکری حاصل نہ کرسکا اور پھل فروشی پر مجبور کردیا گیا ، لیکن اس پر بھی حکومتِ وقت کی جبرانہ سوچ کو رحم نہ آیا اور پولیس حکام نے اُسکا سامان یہ کہہ کر ضبط کرلیا کہ اسُکے پاس اُسکی ریڑھی کا لائسنس نہیں ہے ۔ یہ بات یقیناً بوعزیزی کے ارمانوں کو راکھ کر گئی ہوگی جس پر اُس نے خودسوزی جیسے انتہائی اقدام کا فیصلہ کیا اور پھر داد دینی چاہئے تیونس کی غیور عوام کو جو گھروں سے سڑکوں پر آئے اور سراپا احتجاج ہوئے۔ القيروان سے لیکر صفاقس تک ، تیونس سے لیکر البجا تک،عوامی سیلاب تھا کہ تھمنے ہی کو نہ تھا۔ ابھی شاید تیونس کی عوام کو یہ یقین نہ ہو کہ انکی محنت کا ثمر بہت جلد حکومتی سربراہ ‘ذین العابدین‘ کے ملک سے سعودیہ عرب فرار ہونے کی خبر کی صورت میں ملے گا۔

یہ بات کسی حد تک دُرست ہے کے دور دراز کے لوگ تیونس کے سربراہان خصوصاً صدر بن علی ،انکی بیگم لیلیٰ طربلسی اور انکے خاندان کی شاہ خرچیوں، حکومتی بے ضبطگیوں اور 23 سالہ طویل جابرانہ اندازِ حکومت سے نہ واقف ہونگے۔ تعلیمی اور حکومتی اداروں میں حجاب اور داڑھی پر پابندی پہلے ہی امّتِ مسلمہ کے لیے شرم کا باعث تھی لیکن فرانس اور امریکہ اس سے بخوبی واقف تھے۔ جس کا اندازہ دونوں کی بہت دیر تک خاموشی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور فرانس کے ایک حکومتی وزیرِ خارجہ‘ مشیل الیٹ مئیر ‘ کا تیونس کے حالیہ بہران کے حوالے سے یہ کہنا کہ ہماری یہ زمہ داری ہے کہ بجائے نکتہ چینی کرنے کے ہمیں چاہیے کہ اس واقعے پر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ تجزیہ کریں، پھر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہہ گئے کہ ‘ ہمیں سبق دینے والوں کی طرح سامنے نہیں آنا چاہیے۔ ایک اور فرانسیسی وزیرِ زرعت ‘برونو لی میئر‘ تو یہاں تک کہہ گئے کہ ‘ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ،صدر بن علی کو مسلسل غلط تصوّر کیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ وہ بہت سے اچھے کام کر گئے ہیں‘۔ مزید یہ کہ وکی لیکس ان واقعات سے کچھ ہی عرصہ پہلے طربلسی خاندان کی بے ضابطگیوں اور بن علی اور انکی اہلیہ و خاتونِ اول کی گرتی ہوئی ساکھ کے بارے میں امریکی سفیر رابرٹ گوڈیک کے ریماکس کو سب کے سامنے فاش کر دیا ہے۔

سیاسی اور مذہبی جماعتوں کےرہنماؤں کی آمد اور 60 دنوں میں نئے انتخابات کی خبر ایک خوش آئین بات ہے لیکن ایک بات جو خدشے کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ کیا تیونس کی عبوری حکومت اسلامی جماعتوں کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دے گی؟ جب کہ اُن کا آئین اُنہیں ایسا نہ کرنے کا پابند کرتا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا تیونس میں ایسی حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے جو عوام کو اُسکے سلب کردہ انسانی اور اسلامی حقوق فراہم کرنے میں کامیاب ہو۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو مغربی ممالک کے بڑھتے ہوئے خدشات ضرور دیکھنے کا باعث ہونگے اور کیا یہ سیلاب تیونس کے برادر ممالک کے ساحلوں اور سرحدوں کو چھوئے گا؟ لیکن یہ بات درحقیقت سچ ہے ایک چراغِ گل ‘مرحوم بو عزیزی‘ باقی مندہ غیور عوام اور آنے والی تمام نسلوں کے امیدوں کے چراغ روشن کر گیا۔
Talha Iftikhar
About the Author: Talha Iftikhar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.