جاپانی نظام تعلیم دنیا کے کامیاب تعلیمی نظاموں میں سے ایک

قوموں کی تعمیر وترقی اور عروج و کمال میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

جو قومیں تعلیم کی اہمیت سے بہرہ ور ہوتی ہیں وہ اس پر عمل پیرا ہوکر زمانہ کی قیادت کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں اور اقوامِ عالم میں منفرد پہچان کی حامل ہوتی ہیں۔اس کے برعکس جو قومیں تعلیم کو اہمیت نہیں دیتیں وہ رفتار زمانہ کا ساتھ دینے سے قاصر نظر آتی ہیں اور جمود کا شکار ہو جاتی ہیں۔ تقلید اور ذہنی و فکری غلامی ان کا مقدر بن جاتی ہے اور وہ زندگی کے ہر شعبے میں دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں۔
ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن جاتی ہے اور بالآخر صفحہ قرطاس سے ان کا نام حرف غلط کی طرح مٹا دیا جاتا ہے۔

تعلیم انسان کو اس کی حقیقی مقام تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ انسان کے شعور کو بالیدگی اور صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے۔ تعلیم اور عقل ودانش کی وجہ سے ہی انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے اور یہ بات حقیقت ہے کہ علم کے بغیر انسان حیوانوں سے بھی بدتر ہے۔

جس طرح کسی گھر،ادارے،محکمےاور ملک کو چلانے کے لیے کچھ قواعد و ضوابط اور نظریات و اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس سے اس کے انتظام و انصرام اور کارکردگی کو بہتر اور مطلوبہ نتائج کے حصول کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

یہ تمام افعال ایک بہترین نظام اور حکمت عملی کے تحت ہی سرانجام پاتے ہیں۔

تعلم،متعلم،معلم اور ادارے کے درمیان بہترین مطابقت اور موافقت اور شاندار تعلیمی کارکردگی کیلئے ایک سسٹم ضروری ہوتا ہے۔ جو کہ نظام تعلیم کہلاتا ہے۔

دنیا میں بے شمار تعلیمی نظام رائج ہیں جو اپنی اپنی استعداد کے مطابق نسل انسانی کو زیور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے میں مددگار ثابت ہورہے ہیں۔

مگر ان سب سے ہٹ کر جاپانی نظام تعلیم ایک منفرد اور جداگانہ حیثیت کا حامل ہے۔ جاپانی معاشرے کی بنیاد ان کی تعلیم ہے۔ جاپانی نظام تعلیم کبھی بھی امریکی یا برطانوی نظام ہائے تعلیم سے متاثر نہیں رہا ہے۔
یہ نظام اپنے فلسفے اور روح میں مکمل طور پر جاپانی ہے۔ جاپانی نظام تعلیم کے بنیادی مقاصد علم و شعور کی بڑھوتری اور کردار و عمل کی بہتری ہے۔ وہاں مقابلے کا عنصر نظر نہیں آتا۔
دنیا میں دو قسم کے ملک ہیں۔
ترقی یافتہ
ترقی پذیر
ان دونوں اقسام میں فرق کی بنیادی وجہ نظام تعلیم ہے۔
جاپانی نظام تعلیم دنیا کے تمام نظاموں میں سرفہرست ہے۔

قارئین کرام!
آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کونسی ایسی خصوصیات ہیں جو جاپانی نظام تعلیم کو دنیا کے دوسرے تعلیمی نظاموں سے نمایاں اور ممتاز کرتی ہیں۔

جاپان نے 1868میں "تعلیم سب کے لیے"کا آغاز کیا۔

1885میں جاپانی وزیر تعلیم آری موری نوری نے کہا تھا۔
کہ
" جاپان میں تعلیم کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کی ایسا افراد کی کھیپ تیار کی جائے جو فنون اور سائنس کی تکنیکوں سے بہرہ ور ہوں بلکہ اس کا مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو ریاست کو درکار ہوں"


جاپانی نظام تعلیم کی منفرد اور نمایاں خصوصیت

لازمی پرائمری تعلیم

پرائمری تعلیم جاپانی نظام تعلیم کا بنیادی اور اہم حصہ ہے۔ یہ چھٹی کلاس تک ہوتا ہے۔

علم سے پہلے تربیت

جاپانی سکولوں میں تین سال تک روائتی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ ان سالوں میں بچوں کی کردار سازی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور ان کو اخلاقیات سکھائی جاتی ہیں۔

بڑوں کی عزت،چھوٹوں سے پیار،جانوروں کے ساتھ شفقت،کھانے پینے،اٹھنے بیٹھنے کے آداب و اطوار اور دیگر معاشرتی قدروں سے روشناس کرایا جاتا ہے۔

آزادانہ ماحول

چوتھی کلاس تک کوئی امتحان نہیں ہے بچوں پر دباؤ کم اور وہ گھٹن سے آزاد ہوتے ہیں۔
اس عمر میں انہیں جاپانی کیلیگرافی اور پینٹنگ سکھائی جاتی ہے۔
جاپان میں پرائمری سکولوں کی تعداد تقریباً 3.5 ملین ہے۔

تعلیمی سال کا آغاز

دنیا کے بیشتر ممالک کے برعکس جاپان میں تعلیمی سال کا آغاز یکم اپریل سے ہوتا ہے۔
جاپانی تعلیمی سال تین حصوں میں منقسم ہے۔

یکم اپریل سے بیس جولائی
یکم ستمبر سے چھبیس دسمبر
سات جنوری سے پچیس مارچ

طلباء کو سردیوں میں دو ہفتے اور گرمیوں میں چھے ہفتے کی تعطیلات دی جاتی ہیں۔


پرامن اور خوشگوار تعلیمی ماحول

یورپی اور امریکن سکولوں کے برعکس جاپانی سکولوں کا ماحول پرامن اور خوشگوار ہوتا ہے۔ جو طلباء کی ذہنی و فکری اور جسمانی صلاحیتوں کو جِلا بخشتا ہے۔


ٹیم ورک اور امداد باہم

جاپانی سکولوں میں طلباء صفائی خود کرتے ہیں۔ طلباء و طالبات میں بلاامتیاز مل جل کر کام کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار انکی عملی زندگی میں بڑا مددگار ثابت ہوتا ہے۔

دوپہر کا کھانا

جاپانی سکولوں میں طلباء کو دوپہر کا کھانا سکول کی طرف سے دیا جاتا ہے۔
کھانا اساتذہ اور طلباء مل جل کر کلاس روم میں کھاتے ہیں۔
طلباء اور اساتذہ کے درمیان دوستی کا نمایاں عنصر پایا جاتا ہے۔
یہ کھانا حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔

مقدار سے بڑھ کر میعار

جاپانی نظام تعلیم "مقدار نہیں میعار " کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
طلباء کو مختصر مگر پراثر اور جامع تعلیم دی جاتی ہے۔

سو فیصد حاضری

جاپانی طلباء میں چھٹی کرنے کا رجحان صفر ہے۔ یہی وجہ کہ جاپانی سکولوں میں حاضری کی شرح تقریباً سو فیصد ہوتی ہے۔

آفٹر سکول کلاسز اور ورکشاپس

جاپانی طلباء میں آفٹر سکول کلاسز اور ورکشاپس میں شمولیت کا بڑا رجحان پایا جاتا ہے۔
جاپانی طلباء بڑی دلچسپی اور دلجمعی سے ان سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں جس سے یقیناً ان کی تعلیمی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔

تہذیب و ثقافت سے محبت

جاپانی اپنی تہذیب و ثقافت سے بڑی محبت کرتے ہیں۔
ان کی محبت کا یہ عنصر ان کے نظام تعلیم میں بھی نمایاں ہے۔
طلباء کو ایسے مضامین پڑھائے جاتے ہیں جس سے ان کے اندر اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ محبت اورتعلق کو مضبوط بنایا جاسکے۔

یہ وہ خصوصیات ہیں جو جاپانی نظام تعلیم کو دنیا بھر کے تعلیمی نظاموں میں نمایاں اور بہترین مقام کا حامل بناتی ہیں۔

جاپانی نظام تعلیم کا بنیادی مقصد دنیا کے لیے ایسے افراد تیار کرنا ہے جو اپنے افعال و اعمال اور کردار و گفتار میں شانداراور جاندار کردار کے حامل ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ڈاکٹر،سائنسدان،انجینئر،سرمایہ دار اور انتظامی امور کا ماہر بنانے سے زیادہ ایک باشعور اور باکردار شہری بنانے کے لیے ہردم کوشاں ہے۔

تعلیم وہ خوب ہے جو سکھلائے ہنر
اچھی ہے وہ تربیت جو روحانی ہے

Muhammad Abu Sufyan Awan
About the Author: Muhammad Abu Sufyan Awan Read More Articles by Muhammad Abu Sufyan Awan: 19 Articles with 30170 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.