ریڈیو پر ہلکی آواز میں عزیز میاں کی بھاری آواز کا اُتار
چڑھاؤ ، اس خاموشی میں سمندر کی لہروں کے اُتار چڑھاؤ کی آواز کی طرح بیک
وقت سکون اور شور پیدا کر رہا ہے ۔
اُن کی آنکھوں سے مستی برستی رہے
ہوش اُڑتے رہیں دور چلتا رہے
ہوش بھی اُڑتے رہے اور دور بھی چلتا رہا اور وقت بھی گُزرتا رہا جو دوپہر
کا وقت تھا ۔
باہر تیز دھوپ ، اندر ٹھنڈک سی ہے اور مَن کے اندر گرم طوفان اُٹھنے کے بعد
کی ٹھنڈک اور خاموشی حامد اپنے اندر محسوس کر رہا ہے ۔
سانولی آج اپنے کمرے میں نہیں بیٹھی ہے ۔ وہ اپنا بیشتر وقت کام ختم کرنےکے
بعد اپنے کمرے میں ہی گُزارا کرتی ہے اپنی یادوں اور موبائل پر چلتے ڈراموں
کے ساتھ اور رشتہ داروں سے فون پر باتوں کے ساتھ جو ختم ہی نہ ہوں ۔
آج وہ کمرے کے باہر بیٹھی حامد کے کپڑے سی رہی ہے جو اُسے بہت پسند ہیں اور
سانولی کو حامد کے کام کرنا پسند ہے۔
وہ کپڑے جو جگہ جگہ سے تار تار ہو رہے ہیں بلکہ اُس کے جزبات بھی تار تار
ہو رہے ہیں لیکن اچانک یہاں بیٹھے دیکھ کر اُس کے دل کے تار بجنے لگے۔
وہ آلتی پالتی مارے زمین پر بیٹھی ہے اور سر نیچے جھُکاۓ ہاتھوں سے کچھ
کرتی نظر آرہی ہے۔ اُس کا ہاتھ بار بار اوپر جاتا اور کندھوں سے اونچا ہوتا
اور پھر نیچے چلا جاتا اور حامد کی محبت میں ایک اور ٹانکا لگ جاتا ۔
حامد کی محبت بھری نظر اُس پر پڑی اور وہ دیکھتا رہا اور دیکھتا ہی رہا اور
اپنے جزبات کو سینکتا ہی رہا ۔
سُقراط کی طرح زہر کا پیالہ شوق سے پینے کے بجاۓ ، شوق کا پیالہ محبت سے
پینے لگا۔ پیاس تھی کہ بُجھتی نہ تھی اور گُتھی تھی کہ سُلجھتی نہ تھی ۔
پیاس ایک نامعلوم آس میں ڈھل رہی تھی ، وہی آس جو اُسے ایک بُزرگ کی بیٹھک
تک لے گئ تھی ۔ جہاں اُن کے دئے پانی کے دو گھونٹ اُس کی پیاس بیک وقت
بُجھا بھی رہے تھے اور بڑھا بھی رہے تھے جو محبت کے قائم رہنے کا ایک راز
بھی ہے۔
سائنس بھی اس نتیجہ پر پہنچ چُکی ہے کہ پانی کی بھی یادداشت ہوتی ہے اور وہ
آس پاس کی کیفیت کو اپنے اندر جزب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اچھے بُرے
الفاظ سُن کر اُس کی اندرونی ساخت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ جیسے دم کئے ہوۓ
پانی کے مُثبت اثرات اور غم زدہ انسان کا سمندر کے قریب رہنے سے زہنی کیفیت
کا بدلنا وغیرہ ۔
بُزرگ کے ہاتھوں کے دئے پانی کو شائد آب زم زم سے عقیدت ہو گی یا زیرِزمین
کوئ تعلق کی نہر وہاں تک پہنچ رہی ہو اور قُبولیت کی لہر پینے والے تک پہنچ
رہی ہو ۔
سانولی نے بھی اک قبولیت بھری نظر ڈال کر نظروں کو جھُکا لیا اور اپنے کام
میں میں محو ہو گئ اور حامد سانولی کے ہاتھوں میں محو ہو گیا ۔
حامد کے بس میں ہوتا تو وہ وہیں کھڑا رہتا ، اُس کے کھڑے نقوش دیکھتا رہتا
اور ہلتے ہوۓ ہاتھ دیکھتا جو کلاسکل ڈانس کی طرز پر بار بار اوپر نیچے ہو
رہے تھے۔
عورت سے لگاؤ اور محبت میں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دل چاہے کہ کوئ اُسے نہ
دیکھے ، کوئ اُس کی آواز نہ سُنے ۔ حامد بھی یہ سوچ رہا تھا کہ وہ صرف میری
ہو اُس کی مُسکراہٹ صرف میرے لئے ہو جبکہ اس دنیا میں شائد ایسا مُمکن نہیں
ہوتا ۔ یہ خیال بھی آتے کہ یہ محبت یکطرفہ ہے یا دو طرفہ ۔ اگر اُسے کسی
اور سے محبت ہے تو میرے ساتھ کیا ہے اور اگر مُجھ سے لگاؤ ہے تو اُس کے
ساتھ کیا ہے ؟
شائد پسند ، محبت ، دوستی اور وقتی لگاؤ الگ الگ انسانوں سے بیک وقت مُمکن
ہوتا ہو ۔
نام کچھ بھی دیں حقیقت کُچھ بھی ہو مگر یہ بھی حقیقت تھی کہ سانولی بھی اُس
سے لگاؤ رکھتی تھی اور حامد کی ناراضگی برداشت نہیں کرپاتی تھی۔
وہ سب کچھ بھول کر پھر سے اُسے دیکھنے لگتا اور اپنے پانچوں حواسِ خمسہ سے
اُس کی قُربت محسوس کرنے لگتا۔
نہ جانے کیوں وہ اس وقت بہت اچھی لگ رہی تھی ۔اُس نے سوچا صدیاں گُزرتی
رہیں مگر اُن دونوں کے لئے وقت صفر ہو جاۓ۔ اور ایسا ہوتا ہے کہ دو مختلف
انسانوں کے لئے وقت مختلف رفتار سے گُزر رہا ہوتا ہے۔ انتظار کرنے والے کے
لئے آہستہ اور مصروف کے لئے تیزی سے گُزرتا ہے۔
گُزرتی ٹرین پر بیٹھا انسان گھڑی کی سوئ کو کو دیکھے تو اس کی ٹِک بہت دیر
لگاتی ہے بنسبت رُکا ہوا شخص اگر دیکھے۔
چونکہ محبت سے سرشار خاموشی کی گُفتار اور سوچ کی رفتار ، روشنی کی رفتار
سے قریب ہونے کو تھی چنانچہ آئنسٹائن کے دریافت شُدہ قانون قدرت کے مُطابق
وقت صفر ہونے کے قریب تھا۔
حامد نے سوچا وقت یہیں پر رُک جاۓ ۔ گھڑیاں تو سیل نہ ہونے کی وجہ سے پہلے
ہی رُک چُکی تھیں اور دھڑکنیں رُکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں ۔
فضا میں خاموشی تھی ۔ پنکھے کی أواز اور توجہ کا ارتکاز مُسلسل ایک مُراقبے
کی سی کیفیت پیدا کر رہے تھی ۔
ایک سُکون تھا کہ موبائل ہر تیز گھنٹی نے سارا کھیل خراب کر دیا جو ابھی
شروع ہی ہوا تھا اور اختتام کی گھنٹی بج گئ ۔ ۔۔۔ !!!
میں لکھ رہا تھا اور لکھتے لکھتے چاۓ بھی حامد کے جزبات کی طرح ٹھنڈی ہو
چُکی ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ سب کُچھ میرے ساتھ بِیت رہا ہو یا میں
جاگتے میں خواب دیکھ رہا ہوں ۔ اچانک میرے موبائل کے الارم کی گھنٹی بجی
۔۔۔۔!!!
جس نے میرے کانوں میں بجتی کسی پرانے وقت کی پُرانی محبت کی گھنٹی کی آواز
کو دبا دیا اور موجودہ دور کے دوڑتے وقت کی گھنٹیاں سُنائ دینے لگیں ۔میں
خوبصورت خوابوں کی دُنیا سے باہر آگیا ۔
اب بھی دلکش ہے تیرا حُسن مگر کیا کیجئے
اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
|