تہذیب کا دائرہ

اکثر سُنا ہے کہ آدمی کو تہزیب کے دائرہ میں رہ کر بات کرنا چاہیے بات تو درست ہے مگر کسی کی تہزیب کیا ہے اور اس کا معیار کیا ہے یہ پتہ نہیں ہوتا اور یہ دایرہ کتنا وسیع ہے اور کن کن چیزوں کی اس میں گنجائش ہے یہ نہیں کہا جاسکتا اور انگریزوں کی تہزیب الگ ہندوں کی کچھ اور ہمارا دایرہ کی حدبندی مختلف مگر کچھ چیزیں سب میں متفقہ مہزب جانی جاتی ہیں اور خوب پہچانی جاتی ہیں اور وہ انسان میں ودیعت کر دی گئ ہیں جس سے کسی مزہب مسلک معاشرت کو اختلاف نہیں ہوتا مثلاً انسانیت پر ظلم عام نیکی بھلای اخلاق سے بات کرنا وغیرہ وغیرہ مگر اب قوم اور فرد کے اجتماعی اور ذاتی رویوں اور مزاج کی آ جاتی ہے اور کس ماحول میں تربیت پای ہے
لیکن ہمارے ہاں تہزیب کا دائرہ زرا بڑھتا جا رہا ہے اور اس میں وہ وہ کچھ آرہا ہے جو کبھی دیکھا نہ سُنا اور سیاست اور سوشل میڈیا کی زبانِ بے لگام اور تہزیب کا دائرہ وسیع تر ہو چکا ہے

الفاظ کی بڑی اہمیت دیکھی زندگی میں اور اس کو بُھگتنے کے ساتھ ساتھ اس سے فائدہ بھی خوب اُٹھایا

ان لفظوں سے گھر بنتے اور بگڑتے دیکھے اور جو تعلق قبولیت کے تین الفاظ سے شروع ہوے اور محبت بھرے الفاظ سے جُڑے رہے اور زہر بھرے الفاظ سے ہی کمزور پڑے اور تین الفاظ سے ٹوٹ گئے اور نہیں تو معلق رہے

کسی کے چاشنی بھرے الفاظ وہ کام کر گئے کہ محبت سے دل بھر گئے اور کسی کے دل میں گھر کر گئے اور انہی لفظوں سے کئ لڑ گئے اور اپنی بات پہ اڑ گئے اور پکے پھل سڑ گئےاور خزاں میں پتے جھڑ گئے لیکن انہی الفاظوں کا صحیح استعمال مناسب انداز سے ہوا تو پھر سے بہار آی اور پھول آگئے لفظوں کی صورت کہ کسی کا کہا پھولوں جیسا اور کسی کا کھرا کانٹوں جیسا اور کسی کا ہرا بھرا ایسے
جیسے بیمار کو بے وجہہ قرار آجاے

اور وہ لوگ جو لفظوں کی بازی ہار جایں وہ جیون بازی جیت گئے اور جو الفاظ کی مار پر صبر کر جایں اُن کی تقدیر بدلتے دیکھی اور بگڑا کام بنتے دیکھا

مطلب یہ کہ عمل اور کردار کی اہمیت اپنی جگہ لیکن الفاظ سے کردار کو نکھار اور عاجزی سے کہے دعا کے الفاظ سے خدا کو پکار اور اُس پر مالک کا پیار اور مل جاے قبولیت کا ہار اور بیڑا ہوا پار

سیاست میں بھی اگر برا بھلا کہنا لازمی ہے تو وہ بھی تہزیب کے دایرہ میں کہا جا سکتا ہے اور زیادہ چوٹ پڑ سکتی ہے اور مخالف پارٹی شرمندگی سے زمین میں گڑ سکتی ہے
اس سے مجھے یاد آیا بچپن میں دو معصوم کزن جن میں ایک چھوٹا بھای سخت غصے میں کسی بات پر مگر بڑوں کے احترام میں بڑے مہزب انداز سے بڑے بھای سے بولا

بھائ جان !!
آپ گدھے ہیں !!

یہی طریقہ اگر بڑے اور چھوٹے سیاست دان اپنا لیں
تو عام آدمی زرا سکون میں آجاے

اور کسی خوبصورت کتاب میں لکھے خوبصورت الفاظ ہماری زندگی بدل دیتے ہیں اور اگر الفاظ کے ساتھ کردار بھی شامل ہو جاے تو تہزیب بدل جاے اور تاریخ بدل جاے اور سیاست بدل جاے اور ریاست بدل جاے

برای کے بدلے اچھای کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے اور بڑے بڑے انسان بدلتے دیکھے لیکن ہے یہ بڑا مشکل کام

’’ ادفع بالتی ھی احسن فاذ الذی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم ‘‘ برائی کو بھلائی سے دفع کر و پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے جگری دوست‘‘۔

 

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 290752 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.