میں آزادخیال نہیں ہوں، آزاد خیالی کوئی شے نہیں ہے اس
وقت تک جب لوگ خود اپنے خیالات کو زمانے کی مصلحتوں اور تقاضوں سے آزاد نہ
کر دیں۔ یہ سنہری الفاظ ارجنٹائن کے مشہور انقلابی قائد ارنسٹو چیگوویرا کے
ہیں، دنیا اس شخص کو ماہر طبیعات، گوریلا لڑاکا اور ایک سماجی لیڈر کے طور
پر جانتی ہے اس شخص نے اپنی ساری زندگی عوام کے حقوق کے تحفظ کی خاطر صرف
کی۔ چیگویرا کی بات پھر کسی اور دن کے لئے چھوڑتے ہیں ، آج ہم اردو افسانہ
نگاری کے اس چیگویرا کی بات کرتے ہیں جسے ہم سب سعادت حسن منٹو کے نام سے
جانتے ہیں۔
اتفاق کی بات دیکھئیے منٹو اور چیگویرا دونوں کا دور بیسویں صدی کے اوائل
اور درمیان کا دور ہے، دونوں کی زندگی مسلسل جدوجہد اور زمانے کی روایات سے
بغاوت پر مشتمل ہے۔ اس حساب سے میں اگر منٹو کو اردو افسانہ نگاری کے
چیگویرا سے تعبیر کروں تو شاید غلط نہیں ہوگا۔
سعادت حسن منٹو نے زندگی بھر زمانے کے ان تلخ، پسے ہوئے اور غلیظ کرداروں
کی نشاندہی کی جنکی بات کرنا آج بھی لوگ معیوب سمجھتے ہیں۔ اگر منٹو نے یہ
کہا کہ ہمارے معاشرے میں عورت صرف اپنی ماں ، بہن اور بیٹی کو سمجھا جاتا
ہے باقی سب گوشت کی دوکان کی مانند ہیں اور ہم بھوکے کتوں کی مانند جو اس
پر نظر گاڑ کر بیٹھا ہے تو کیا ایسا نہیں ہے اس نے تو آج سے 60 سال قبل یہ
بات کی آپ آج کسی بھی محلے ، بازار ، پارک یا شاپنگ مال کا چکر لگا کر
اردگرد نظر دوڑائیں ایسے سی۔کڑوں انسان نما کتا منڈلاتے نظر آئیں گے۔ منٹو
کی تحریروں پر کبھی فحش نگاری کا الزام لگا تو کبھی بے راہ روی کا، لیکن
کسی نے تحریر کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی صرف الفاظ کے ثانوی معنوں میں
کھوئے رہے۔
بقول غالب
عمر بھر ہم یہی غلطی کرتے رہے غالب
دھول چہرے پہ تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے
اگر منٹو یہ کہتا ہے کہ ہم آئینے کا استعمال صرف شکل دیکھنے کے لئے کرتے
ہیں تو غلط نہیں کہتا۔ مسئلہ الفاظ کا نہیں انکی حقیقت کا ہے، اگر کچرہ دان
ہے تو ہے ہم اس کے وجود سے انکار نہیں کر سکتے ہم اس سے مستفید بھی ہوتے
ہیں۔ اسی طرح اگر منٹو معاشرے کی گندگی کا ذکر کرتا ہے تو ہم سب توبہ
استغفار ، بدکار، گناہ گار اور خدا جانے کیا کیا فتوے لگانا شروع کردیتے
ہیں یہ سمجھے بغیر کہ ہمارے کوے کو سفید کہ دینے سے وہ اپنا رنگ نہیں بدلے
گا ہمیں مسئلے کو سمجھنا ہوگا۔
بقول غالب
کہاں میخانے کا دروازہ غالب، اور کہاں واعظ
مگر اتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
لگتا غالب کے اس شعر نے شاید منٹو کے الفاظ کو زبان دی ہے، منٹو نے بھی تو
زمانے کے اسی منافقانہ رویے سے اپنی تحریروں کے ذریعے پردہ اٹھایا تھا۔
آئینہ ہمیشہ وہی دکھاتا ہے جو اس کے سامنے ہو، مصنف کا قلم زمانے کی
مصلحتوں ، روایات کا پابند نہیں ہوتا وہ وہی لکھتا ہے جو محسوس کرتا ہے۔
منٹو نے بھی جو معاشرے کا درد اور کرب محسوس کیا اسے الفاظ میں ڈھال کر
ہمارے سامنے رکھ دیا، اب اسے ہم فحش نگاری کہیں ، بے راہ رو تحریریں کہیں
یا حقیقت یہ ہماری عقل اور سمجھ پر منحصر ہے۔ منٹو کا مقصد ہر گز یہ نہیں
تھا کہ ہم گندگی کو اپنا لیں مقصد یہ تھا کہ اس کے وجود سے منکر نہ ہوں
بلکہ ان مسائل کو ختم کرنے کے بارے میں سوچیں۔ وہ طبقہ جو اس سے متاثر ہے
اس کے وجود سے انکار مت کریں ان کے مسائل کا حل تلاش کریں۔
شاید آج پھر پاکستان کو اک ایسے ہی باغی کی ضرورت ہے جو مسائل کا منکر نہ
ہو، مسائل کا حل پیش کرے۔ مسائل کی منظر کشی کرکے دادِ تحسین ضرور وصول
کریں مگر حل کرنے کے بعد ، مگر بدقسمتی سے ہماری ساری تگ و دو تو داد تک
محدود ہے مسائل تک نہیں خدارا ہوش کے ناخن لیں !
پاکستان پائندہ باد!
|