مرد جھوٹا اور دھوکے باز ہوتا ہے

تحریر: ساحر مرزا
جھوٹ بولتے ہو تم۔ مجھ سے ہر بات چھپاتے ہو۔خود باہر عیاشیاں کرتے ہو اور میں یہاں اس قیدخانے میں تمہارے ان بچوں کے ساتھ پابند رہتی ہوں۔ تم انتہائی گھٹیا انسان ہو۔جھگڑے کی آوازیں گلی میں دور تک جا رہرہی تھی اور حیرت کی بات تھی کہ اس جھگڑے میں آواز ایک ہی تھی۔

میمونہ خاتون ہمیشہ عامر میاں کے ساتھ اسی انداز سے پیش آیا کرتی تھیں۔ عامر میاں ایک پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے اور بہت مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور خود ذاتی لحاظ سے بھی بہت نیک سیرت انسان تھے۔ شہر سے دور کہیں ملازمت کیا کرتے ہیں اور اوسطاً دو تین ماہ بعد گھر آتے ہیں۔ دونوں میاں بیگم میں یوں تو بہت سلوک ہے مگر اکثر و بیشتر میمونہ خاتون عامر میاں سے بدظن رہا کرتی ہیں۔

میں کہتی ہوں کچھ تو بتاؤ کیا کر رہے تھے اس قدر رات گئے دوستوں کے ساتھ۔؟ میمونہ خاتون خاصی برہم تھیں ،کچھ اس قدر کہ آج بچوں کا لحاظ بھی اٹھ گیا تھا۔ اب خاموش کیوں ہیں بولتے کیوں نہیں؟، جواب دیجئے مجھے۔ میمونہ خاتون ان کی خاموشی سے مذید غصہ ہوئے جا رہی تھیں۔

بلآخر عامر میاں بولے۔ وہ کچھ احباب کے ساتھ بڑے بازار تک گیا تھا۔ کیا آگ لگی تھی وہاں جو آپ بجھانے چلے تھے؟بازار کیا رکھا تھا؟ کبھی ہمارے بارے میں سوچا۔

ارے ہم تو اک زندگی اسی قیدخانے میں گزار چکے، اک ہمیں ہی رہائی نصیب نہ ہوئی۔ خود تو دوست احباب کے ساتھ عیاشیاں کر آتے ہیں اور اوپر سے جھوٹ پر جھوٹ۔ کیجئے جو کرنا ہے آپ کو، ہم تو نہ روک سکے کبھی۔ ہوئے جو آپ بھی مرد، جھوٹے، دغا باز۔ اب میمونہ خاتون بولے گئیں اور ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ دھلانے کو سفلچی لے آئیں۔

لائیے جناب ہاتھ آگے کیجئے خادمہ آپ کی خدمت کو حاضر ہے۔ میمونہ خاتون نے سفلچی آگے کرتے ہوئے طنز سے کہا، ان کی خدمتیں کرو اور صلہ ندارد۔ ہمارے لئے اس دنیا میں کیا رکھا ہے۔میمونہ خاتون بڑبڑائے گئیں۔

عامر میاں ازلی فطرت کے ہاتھوں مجبور خاموشی سے سر نیواڑے کھانا کھانے لگے جبکہ پس منظر میں میمونہ خاتون کا بڑبڑانا جاری تھا۔ کھانے کے برتن سمیٹتے ہوئے میمونہ خاتون نے دیکھا خوان کے رومال کے اوپر اک ریشمی گتھلی پڑی تھی۔ کھول کر دیکھی تو کچھ روپے تھے، دل کو کچھ تسلی ہوئی مگر پھر سے غصہ چھا گیا۔

ہاں اب دے لیجئے رشوتیں، ایک تو اﷲ مارے نجانے اس دنیا میں یہ روپے کی قدر زیادہ کیوں ہے۔ ہر شخص یوں سمجھتا ہے کہ بس روپے سے ہر معاملہ سیدھا ہو جائے گا۔ عامر میاں نے پھر سے غصہ زور مارتے دیکھا تو ذرا کسمسائے۔ بیگم جان۔ انہوں نے بڑے پیار سے پکارا۔ جی فرمائیے، میرے کان کام کرتے ہیں ابھی اس قدر دور نہیں کہ سن نہ سکوں۔ میمونہ خاتون کو ان کا یوں بلانا اچھا نہ لگا۔ یہاں آکر بیٹھئے، کچھ کہنا ہے آپ سے، عامر میاں نے نرمی سے کہا۔

میمونہ خاتون آکر پائنتی بیٹھ گئیں۔ جی حکم صادر فرمائیے۔ وہ کیا نام لیا تھا اس دن۔ امروز۔ آپ کا بھتیجا، اس کی شادی میں شرکت کے لیے کپڑے بنا لیجئے اور تیاری کیجئے۔ پرسوں ہم جاتے ہوئے آپ کو ان کے یہاں چھوڑ کر ملازمت کے لیے جائیں گے، عامر میاں نے ذرا جھجکتے ہوئے مدعا بیان کیا۔

اچھا! مگر پہلے تو آپ کہہ رہے تھے مت جاؤ۔ اب کیسی دریا دلی دکھائی جا رہی۔ خیریت ہے نا۔ میمونہ بیگم اچھنبے سے کہنے لگیں۔ جی خیریت ہی ہے، کچھ خاص بات نہیں۔ اپنے فہیم میاں کا لڑکا ہے، اپنے بچوں جیسی بات ہے۔ بس آپ تیاری کیجئے۔ عامر بس کسی طرح بات کو ٹالنا چاہ رہے تھے۔ اچھا چلیں جیسا آپ کہتے ہیں۔
٭٭٭
بابا آپ واپس کب آئیں گے، ننھے عاطف نے افسردگی سے عامر سے پوچھا تھا۔ عامر جب کبھی ملازمت پر ہوتے اور گھر فون کیا کرتے ننھا ایسے ہی اداس ہو جایا کرتا تھا اور بس اسی ایک سوال کی رٹ لگایا کرتا تھا۔ گڑیا بیٹی چہک چہک کر فرمائشیں کیا کرتی تھی۔ بیٹھا ہم اگلے ہفتے گھر آ رہے ہیں، عامر نے بیٹے کو بتایا۔اچھا بیٹا اپنی اماں جان سے بات کروانا ذرا۔ عامر نے بیٹے سے کہا تو میمونہ خاتون فون پر آ موجود ہوئیں۔

تسلیم و آداب کے بعد پوچھنے لگیں کیا کر رہے ہیں۔؟کچھ خاص نہیں ابھی ذرا بس لیٹنے لگا تھا۔ عامر نے کمال اطمینان سے اپنے اوزاروں کے بستے کی جانب اور میلے کپڑوں پر ہاتھ پھراتے ہوئے کہا۔ کھانا وغیرہ کھا لیا آپ نے؟ میمونہ خاتون نے پوچھا۔

جی ابھی کھایا ہے، عامر نے اپنے بند ٹفن کی جانب دیکھا جس میں صبح کی دال بند پڑی تھی۔ کیا کھایا۔؟ سوال پر سوال تو جیسے میمونہ خاتون کا خاصا تھا۔ گوشت کا سالن تھا اور ساتھ روغنی نان ، عامر نے بڑی تسلی سے جھوٹ بولا۔ اچھا وقت بہت ہو گیا آپ سو جائیں۔ صبح آپ نے کام بھی کرنا ہے۔ میمونہ خاتون نے ذرا خیال سے کہا۔ ہاں مجھے بھی غنودگی چھا رہی تھی، عامر میاں نے بہانا بنایا۔

اوہو تو آپ سو جاتے پھر بات ہو جاتی آپ کے آرام میں خلل آیا۔ سو جائیے اس طرح صبح نیند پوری نہ ہونے سے سر گرانی رہے گی۔ اپنی صحت کا خیال رکھا کیجئے ، اﷲ حافظ، میمونہ خاتون نے نصیحتوں کے ساتھ فون بند کر دیا۔

’’میمونہ اگر تم ہماری عیاشیوں کو ایک لمحے کو دیکھ لیتیں تو شاید زندگی بھر طعنے نہ مارتیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم کبھی کھل کر کچھ کہہ نہیں پاتے کیوں کہ ہم جانتے ہیں یہ سب پھر بھی ہمیں ہی سہنا ہے‘‘۔ یہ جملے اس نے فن بند کر کے دل ہی دل میں کہیے، پھر اپنی میلی وردی اور اردگرد بکھرے اوزاروں کو سمیٹنے لگا، کیوں کہ اگلے روز اس نے ایک اور جگہ جانا تھا۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1143839 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.