مائیں اور بچے

تحریر:ام محمد سلمان، کراچی
گھر میں داخل ہوتے ہی شاہدہ بیگم کا پارہ ہائی ہوگیا۔ زینب ادھر آؤ! زینب بھاگتی ہوئی کچن سے آئی جی اماں کیا ہوا؟’’میں نے ہزار دفعہ منع کیا ہے تمہیں، سعد کو موبائل مت دیا کرو اور تم نے پھر دے رکھا ہے‘‘؟ زینب بولی’’ اماں! پھر آخر میں کیا کروں روتا ہے تنگ کرتا ہے کام نہیں کرنے دیتا کیا اسی کو لے کر بیٹھی رہوں؟ آپ تو گھر پہ تھیں نہیں اور سعد اتنا تنگ کررہا تھا تو میں نے موبائل پر کارٹون لگا کر دے دیے‘‘۔ اے بس کرو بہو! دیکھے تمہارے کام، جب تک بچہ سو رہا ہوتا ہے تو خود ٹی وی ڈراموں، واٹس اپ اور فیس بک پر لگی رہتی ہو اور جب یہ اٹھ کر رونے لگتا ہے تو تمہیں گھر کے کام یاد آجاتے ہیں۔ میں پوچھتی ہوں تمہاری پڑھائی لکھائی کا کچھ فائدہ بھی ہے جب تمہیں اتنا ہی نہیں پتہ کہ بچوں کے لیے کتنی نقصان دہ ہیں یہ سب چیزیں؟

’’اماں آپ کو بس موقع چاہیے مجھے باتیں سنانے کا اور کچھ نہیں بس۔ ساری دنیا کے بچے اب موبائل، کمپیوٹر اور ٹیبلٹ سے ہی کھیلتے ہیں’’زینب تڑخ کر بولی ‘‘۔ہاں ہاں ساری دنیا اگر کنوئیں میں جاگرے تو تم بھی چھلانگ لگادوگی کیا؟ ارے ہم نے بھی تو سات بچے پیدا کیے، نا اس وقت موبائل تھے، نہ یہ ٹی وی کا بھونپوچوبیس گھنٹے بجتا تھا جب بچے سوئے ہوئے ہوتے۔ ضروری کام اسی وقت نمٹا لیتے تھے، ورنہ بچے ساتھ ساتھ ہی لگے رہتے تھے۔ سبزی بنا رہی ہوتی تو ساتھ دو چار پتے اور ڈنٹھل وغیرہ دھو کر یمنیٰ اور حمنہ کو بھی پکڑا دیتی تھی وہ انہی سے کھیلتی رہتی تھیں۔ روٹی پکاتے میں تنگ کرتیں تو ذرا سا آٹے کا پیڑہ پلیٹ میں رکھ کر ان کو بھی دے دیتی تھی۔ محسن جب زیادہ ہی تنگ کرتا تو ایک چمچہ اور پلیٹ اس کو دے دیا کرتی تھی وہ اسی کو بجا بجا کر کھیلتا رہتا تھا۔ جھاڑو دیتے ہوئے ایک چھوٹی جھاڑو اس کو بھی پکڑا دیا کرتی تھی اور وہ بھی ساتھ ساتھ جھاڑو دیتا اور خوش ہوتا اور رات کو بچوں کو لے کر بیٹھتی اور پیاری پیاری کہانیاں سنایا کرتی تھی انہیں۔ تمہاری طرح مار پیٹ کر نہیں پالے ہم نے اپنے بچے، بڑی محبت اور جانفشانی سے پالے ہیں۔

’’اماں! تو کیا میں محبت نہیں کرتی بچوں سے؟ اور کیا میں مخلص نہیں بچوں کے ساتھ‘‘؟ اب کی بار تو زینب سچ مچ تڑپ اٹھی۔تم بچوں کے ساتھ مخلص ہوتیں تو یہ کرتب دکھاتیں ؟ سولہ جماعتیں پڑھ کے بھی تمہیں بچے پالنے نہ آئے؟ ’’اماں حد کرتی ہیں آپ! میں یونیورسٹی میں پڑھنے جاتی تھی یا بچے پالنا سیکھنے جاتی تھی‘‘؟ زینب بولی۔

ارے چولہے میں ڈالو ایسی پڑھائی، جو انسان کو اپنا بھلا برا بھی نہ سکھا سکے۔ آج ان سب چیزوں نے مل کر بچوں کو اپاہج بنا دیا ہے۔ ہلتے ہی نہیں ہیں موبائل اور کمپیوٹر کے سامنے سے، نہ دو گھڑی ماں باپ کے پاس بیٹھنے کا وقت ہے، نہ کچھ دین دنیا کا خیال اور ماؤں کو ذرا پروا نہیں کہ بچے کس سمت میں جارہے ہیں؟انہیں اپنے ہی چونچلوں سے فرصت نہیں ملتی۔ کبھی شاپنگ، کبھی درزی کے چکر، کبھی پارلر کی حاضری، کبھی ٹی وی کے آگے بیٹھی ہیں تو کبھی موبائل میں سر دے رکھا ہے۔ ان ماؤں کے پاس فرصت کہاں ہے بچوں کی تربیت کرنے کی؟

ابھی ساس بہو کی بحث جاری تھی کہ سعد پھر موبائل اٹھا کر امامہ کے جھولے کے پاس آکھڑا ہوا۔ امامہ بھی نیند سے جاگ چکی تھی اور سعد کے ہاتھ میں چمکتے موبائل کو دیکھ دیکھ کر ہمک رہی تھی، ہاتھ پیر چلا رہی تھی۔ سعد موبائل کو کبھی اس کے قریب کرتا اور کبھی دور کر لیتا۔ زینب نے ساس کی توجہ اس طرف دلائی، یہ دیکھیں اماں! چھ سات ماہ کی بچی بھی اس فون کی شیدائی ہے اب کیا کروں میں؟ کیسے بچاؤں انہیں؟ زینب تھک کر اماں کے پاس ہی آبیٹھی۔شاہدہ بیگم نے ایک نظر زینب کے چہرے کی طرف دیکھا جس پہ تھکن اور فکر کے آثار تھے۔ نگاہیں اپنی معصوم بچی پر جمی ہوئی تھیں، جو ٹکٹکی باندھ کر موبائل کی اسکرین کو دیکھ رہی تھی اور خوب جوش میں ہاتھ پیر چلا رہی تھی۔ ایک لمحے کو ترس سا آیا شاہدہ بیگم کو، بہو صبح سے کاموں میں لگی ہے اور اب میں نے بھی اتنی باتیں سنا دیں۔ بھلا ایسے میں نصیحت کیا اثر کرے گی؟ ’’تو پھر کیا کروں میں؟ کیسے احساس دلاؤں زینب کو اس کی غلطی کا‘‘؟ شاہدہ بیگم دل ہی دل میں سوچنے لگیں۔

دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوکر زینب، ساس کی دوا لیے ان کے کمرے میں ہی آگئی ’’اماں دوا کھا لیجیے‘‘ شاہدہ بیگم کو سچ مچ زینب پر پیار آگیا، کچھ بھی ہے میری خدمت بہت کرتی ہے۔ کھانا، کپڑے، دوا ہر چیز وقت پر تیار رکھتی ہے بس نہ جانے بچوں کی طرف سے اتنی لاپروائی کیوں کرتی ہے؟ انہوں نے زینب کو اپنے پاس ہی بٹھا لیا۔ بہو! کچھ دیر میرے پاس بیٹھو تم سے بات کرنی ہے ’’جی اماں کہیے‘‘۔بیٹا! تمہیں احساس نہیں ہوتا بچوں کا ہر وقت موبائل سے لگے رہنا کتنا غلط ہے؟احساس ہوتا ہے اماں، کیوں نہیں ہوتا؟ زینب بڑے دکھ سے بولی۔ مگر چاروں طرف یہی سب کچھ چل رہا ہے تو بس میں بھی، ہر کسی کے بچے اب انہی چیزوں سے کھیلتے ہیں اماں۔ ’’یہی تو ہمارا المیہ ہے زینب! ہم لوگ اندھادھند زمانے کے ساتھ بھاگتے ہیں نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر، ان چیزوں نے ہمارے معاشرے کو تباہ کردیا ہے تمہارے بچے ابھی بہت چھوٹے ہیں تم انہیں اس تباہی سے بچا سکتی ہو۔

مگر کیسے اماں؟دیکھو بیٹا! یہ بچے تمہارے ہاتھ میں کھلونا نہیں ہیں یہ اﷲ کی دی ہوئی امانت ہیں جس کی پوچھ ہوگی تم سے۔ حدیث ہے کہ ’’تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔ کل قیامت کے دن تم نے اﷲ کو جواب دینا ہے کہ بچوں کی پرورش کا کیا حق ادا کیا؟ کیا دین اسلام کے مطابق ان کی پرورش کی یا چھوڑ دیا شتر بے مہار کی طرح؟ صرف اچھا کھلانا پلانا، پہنانا، اسکول بھیج دینا اور سیرو تفریح کروادینا ہی تو بچوں کی ضرورت نہیں ہے ان کو اچھے آداب سکھانا، بری باتوں سے بچانا اور صحیح اسلامی خطوط پر ان کی تربیت کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔

پہلے ذرا تم اپنی خبر لو۔ نماز کبھی پڑھتی ہو کبھی نہیں پڑھتی، تلاوت کیے ہوئے تمہیں کئی کئی دن گزر جاتے ہیں، ٹی وی کا ہر ڈرامہ دیکھنا تمہارے لیے ضروری ہے جب تم خود ہی اﷲ کی نافرمانی کروگی تو بچے کیسے تمہارے فرمانبردار بنیں گے؟ کیسے بچاؤگی تم انہیں زمانے کی تلخیوں سے؟ فتنہ، فساد اور بے حیائی کی جو آگ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے چاروں طرف لگی ہے کیسے بچاؤگی تم اس سے ان معصوم پھولوں کو؟ اگر تم نے انہیں اپنے دین کے ساتھ نہ جوڑا تو یہ تباہ ہوجائیں گے زینب، آج دین پر چلنے کے سوا اور کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔

بچے ماں باپ کو جیسا کرتے دیکھتے ہیں، ویسا ہی خود کرتے ہیں۔ تم باقاعدگی سے نماز پنجگانہ پڑھا کرو، قرآن مجید کی روزانہ تلاوت کیا کرو، گناہوں سے بچا کرو اور بچوں کے لئے خوب نیکی اور ہدایت کی دعا مانگا کرو۔’’ اگر تم چاہو تو ابھی بھی سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے‘‘۔ مگر کیسے اماں؟ کیا میرے نماز پڑھنے سے یہ موبائل سے کھیلنا چھوڑ دیں گے؟ ’’ہاں زینب! جب تم اپنے رب کی فرمانبرداری کروگی، گناہوں سے بچوگی تو یہ بچے بھی تمہاری بات مانیں گے۔ تم انہیں روکو گی تو یہ ضرور رک جائیں گے۔ اس کے علاوہ بھی تم دوسری تدابیر اختیار کرو‘‘۔

دیکھو امامہ ابھی چھوٹی ہے اس کے قریب تو تم بالکل بھی موبائل لیکر نہ بیٹھا کرو۔ اس کے لیے تو بس اتنا ہی کرنا کافی ہے اور سعد پر تمہیں تھوڑی محنت کرنی پڑے گی۔ تم اس کی توجہ دوسری طرف دلاؤ۔ موبائل کو تم خود کم سے کم استعمال کرو۔ بچوں کی خاطر تمہیں یہ قربانی دینی ہوگی۔ فالتو ویڈیوز اور گیمز وغیرہ موبائل سے ڈیلیٹ کردو جب اسے اپنی پسند کی چیزیں اس میں نہیں ملیں گی تو خود ہی دلچسپی کم ہوتی جائے گی ۔ سعد کے لیے کچھ ایسے کھلونے لے آؤ جس سے اس میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ پیدا ہو۔ بلاکس خرید دو تاکہ وہ مختلف عمارتیں بناتا رہے، بیٹ بال سے کھلایا کرو، واٹر کلر، کلر پینسلز لا دو کہ ان سے ہی کاغذ پہ کچھ نہ کچھ بناتا رہے اور پھر اس پر اس کو خوب شاباش دو۔

محسن سے کہو شام کو تھوڑی دیر کے لیے سعد کو قریبی پارک میں لے جایا کرے۔ بچوں کے ساتھ کھیلے گا تو توجہ بٹ جائے گی۔ گھر کے کاموں کے دوران بھی اسے اپنے ساتھ ساتھ رکھا کرو، چھوٹا موٹا کام اس کو بھی دے دیا کرو۔ اس کے علاوہ بچوں کو اپنے پاس لے کر بیٹھا کرو جانوروں کی کہانیاں سنایا کرو کہ بچے ان میں بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ اچھی اچھی دین کی باتیں، سبق آموز قصے اور صحابہ کرام کے واقعات سنایا کرو۔ بچے کا ذہن صاف سلیٹ کی مانند ہوتا ھے اس پر جو بھی لکھو گے وہ اسی کو پڑھے گا اسی کے مطابق چلے گا۔ زینب بہت گہری سوچ میں تھی : لیکن یہ سب بہت صبر آزما ھے اماں۔
ہاں تو بیٹا کچھ مشکلیں جھیلنا بھی سیکھو، انہی آسانیوں کی خاطر تو مائیں آج بڑے آرام سے بچوں کو موبائل اور کمپیوٹر اسکرین کا عادی بنادیتی ہیں اور خود مزے سے اپنے کاموں میں یا اپنے دلچسپ مشاغل میں لگی رہتی ہیں۔ بھلا بتاؤ تو سہی کون ہیں جو چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں موبائل پکڑا پکڑا کر خوش ہوتے ہیں، یہ ان کے اپنے ماں باپ ہی ہوتے ہیں۔ شروع سے ہی ان چیزوں سے بچوں کو دور رکھا جائے تو کیوں ایسی نوبت آئے بھلا؟ اگر دینا ہی ہے تو بچوں کو سمجھا دو بس تھوڑی سی دیر کے لیے ملے گا کیوں کہ یہ آپ کی نہیں، امی ابو کے کام کی چیز ہے۔آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں! واقعی میں بچوں کی تربیت ایسی نہیں کررہی جیسی کرنی چاہیے، میں اب ان شاء اﷲ بھرپور توجہ دوں گی اپنے بچوں کو، یہی تو میری دنیا کی رونق اور آخرت کا سرمایہ ہیں، میں انہیں کسی صورت ضائع نہیں ہونے دوں گی چاہے مجھے کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025118 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.