کچھ یادیں کچھ باتیں
جناب عبد العلیم قریشی
مولانا فتح محمدندوی
پکا رتی ہیں فرصتیں کہاں گئی وہ صحبتیں ٭ زمیں نگل گئی انہیں کہ آسماں کھا
گیا
(ناصر کاظمی)
عبد العلیم بھائی سے پہلی ملاقات غالباً جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں ہوئی؛
لیکن اب یہ با لکل معلوم نہیں کہ ملاقات کا سبب کیا تھا، ایسا لگتا ہے کہ آ
پ سے پہلی رسمی شنا سائی اس شعر کا مصداق ہو ، یہ روح کا رشتہ ہے پہچان
پرانی ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس گردش ایام میں دوستی اور تعلق داریاں عام طور
پر اپنے طے شدہ ضابطوں کے مطابق انہیں لوگو ں سے ہوتی ہیں جوعادت و اخلاق
اور charactor میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ۔طبیعت کی ہم آہنگی کا یہ
روحانی رشتہ رسمی شناسائی سے دوستی ،محبت ، اور تعلق خاطر میں تبدیل ہو جا
تا ہے۔ تاہم علیم بھائی کے حوالے سے میری یہ مذکورہ صورت استثنائی ہے ۔
کیوں کہ میں ا خلاق اور کردار اور اسی طرح دوسرے معاملات کے اعتبار سے علیم
صاحب سے بہت پیچھے ہوں۔ چونکہ علیم بھائی اپنے خلاق اور کردار میں ایک مجسم
پیکر ، سراپا محبت وشرافت ہیں بلکہ دوسر ے الفاظ میں آپ پیار و محبت کی
ایسی شمع ہیں جن کے دائیں بائیں ہزاروں پروانے ہالہ بناکر روز محبتوں کی
خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:
کہاں ہے تو کہ تیرے انتظار میں اے دوست
تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے
اب تک مجھے زندگی میں جو بھی دوست ملے یا جن سے میرے تعلقات ہیں ان میں ہر
ایک کچھ نہ کچھ انفرادیت ضرور رکھتا ہے ،ویسے یہ انفرادیت انسانی فطرت بھی
ہے اور انسانیت کا پیکر اور جمال بھی ۔ مزید تعلق میں بھی کچھ ایسے ہوتے
ہیں کہ وہ زندگی میں روح کی طرح جسم کے اندر داخل ہوجاتے ہیں ، لیکن دوستی
اور تعلق داری کا یہ مرحلہ زندگی میں چند لوگوں سے ہوتا ہے کہ وہ جسم میں
روح بن کر اتر جاتے ہیں اور ان کی محبت خون میں شامل ہوجاتی ہے ان کی تکلیف
اور پریشانی اپنی پریشانی بن جاتی ہے ان کا دکھ اپنا دکھ بن جاتا ہے ان کی
خوشی اپنی خوشی کی طرح ہوجاتی ہے یہ بات میں خود اپنے حوالے سے چند دوستوں
کے بارے میں کہہ سکتا ہوں جن میں سر فہرست علیم بھائی ،انتظار بھائی
کھجناوری ۔ ویسے اس فہرست میں اور بھی بہت سے دوست اور تعلق والے ہیں جن کی
محبت اور شفقتیں زندگی میں ہمیشہ شامل حال رہیں لیکن اس وقت ذکر تھا علیم
بھا ئی کا ۔وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ علیم بھائی سے محبت اور تعلق میں
اضافہ ہوتا گیا ، آپ کی روز مرہ کی زندگی میں میں سائے کی طرح ساتھ رہتا ،
میری دہلی کی زندگی میں وہ لمحات بڑے خوشگوار تھے جو علیم بھائی کی معیت
میں گزرے، میں تقریباً پانچ سال ان کے ساتھ رہا ان کو قریب سے دیکھا لیکن
زندگی کے کسی بھی شعبہ میں اسکو کمزور نہیں پایا بلکہ ہر شعبہ حیات میں خاص
طور سے وضعداریاں نبھانے میں وہ اپنی مثال آپ ہے ۔اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے
کہ وہ اپنی طرف سے کسی کو تکلیف دینا گوارا نہیں کرتا بلکہ زخم کھاکر
مسکرانہ اس کی فطرت میں داخل ہے ۔ سچ مچ وہ اس شعر کا مصداق ہے:
اپنی تو یہ مثال ہے کہ جیسے کوئی درخت
اوروں کو چھاؤں بخش دے خود دھوپ میں چلے
علیم بھائی کی آواز اور لہجے میں بڑی کشش ہے ، جب بات کرتے ہیں تو لگتا ہے
کہ ان کی زبان سے پھولوں کی بارش ہورہی ہے ،جب شوخی اور بذلہ سنجی کرتے ہیں
تو اس میں وہ ا پنی شیرینی گفتگو سے کما ل کا حسن پیدا کر دیتے ہیں ، بلکہ
ایک عجیب سی کیفیت اور لطف کا احساس ان کے انداز تخاطب میں شامل ہوجا تا ہے
جس میں مزاح بھی ہوتا اور طنز کے نشتر کے ساتھ ساتھ ہلکی سی سنجید گی
بھی،ایک مرتبہ ہم ان کو چھو ڑ نے دہلی ایئر پورٹ گئے ایک صاحب اور ہمارے
ساتھ گئے جو علیم بھائی کے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں ، جب ہم ایر پورٹ پہنچ
گئے تو ان سے علیم بھائی نے اسی مخصوص مزاح کے لہجے میں فرما یا، یہ ہمارے
بڑے بیٹے ہیں ،ہمیں رخصت کرنے آئے تھے ، بیٹے اب آپ جاسکتے ہیں ، نہ جانے
ان سے کچھ ایسی بات کہی کہ وہ کھسیانے سے ہوگئے اور آخر وہاں سے غصے سے
بغیر بتائے چلے آئے ، میں نے علیم بھائی سے پوچھا یہ تو بہت براہوا ہے ۔
کہنے لگے ،یہ ہماری اولاد ہے ۔کوئی بات نہیں اور جو کچھ انہوں نے بر وقت ان
کے بارے میں کہا اس پر ہنستے ہنستے حالت دیگر ہوگئی ۔ ہم نے یہ کہاوت اور
مثال بار بار سنی کہ کچھ لوگ روتے ہوئے کو ہنسانہ اور ہنستے ہوئے کو رلانہ
کا فن جانتے ہیں ۔ لیکن عملی طور سے ا س کا مشاہدہ اور تجربہ علیم بھائی کے
حوالے سے بارہا ہوا۔یقینا ایسی دلگیر آواز جس کی ساحرانہ کشش سے مرجھائے
ہوئے اور بے جان پھول پوری تابانی کے ساتھ کھل اٹھتے بلکہ جسم کی شکل
اختیار کرلیتے پھر مزید اس پر ان کی حاضر جوابی یارانہ مجلس میں دیر تک
قہقہوں کی بارش کر دیتی ۔ کئی بار دیکھا کہ اچانک اگر کوئی بے تکلف دوست
راستے میں مل جاتا تو اس پر اپنے اسی جادوئی انداز سے ایسا حملہ کرتے کہ وہ
پانی پانی ہوجاتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسی مجلس میں اس کو ہنسانہ یہ آپ کی
پر کشش گفتگوکی ایک بڑی کرامت تھی ۔کسی کا دل توڑنا یا مزاح کو کسی کی
رسوائی کا حصہ بنانا یہ علیم بھائی کی فطرت اور عادت کے خلاف تھا علیم
بھائی طنز و مزاح کے ماہر ضرور ہیں خود ہنسنا اور دوسروں کو ہنسانہ انکے
شریفانہ مزاج کا ایک حصہ ہے لیکن اخلاقی قدریں اور پھر ان ا قدار کا احترام
ان کے یہاں بہ درجہ اتم موجودہے۔وہ لوگوں کی قدروں کا لحاظ آخری درجہ تک
ملحوظ رکھتے ہیں۔کہیں بھی اور کسی رشتے میں بھی وہ شیشے میں بال آنے کی
نوبت نہیں آنے دیتے۔
خیال خاطر احباب چاہئے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے ان آبگینوں کو
میرے لئے اس وقت بڑی مشکل یہ ہے میں نے اپنے جن دوستوں کا ذکر کیایعنی علیم
بھائی اور ضمناً انتظار بھائی کا ان کے حوالے سے اور خاص طور سے ان دونوں
کے احسان اور سلوک کے حوالے سے یا ان کی محبت اور تعلق کے بارے میں کچھ
اظہار کرنا میرے لئے بڑا مشکل ہے یقینا یہ لوگ میری زندگی میں اس بنیاد کے
پتھر کی طرح ہیں جس پر پوری عمارت کا مدار ہوتا ہے ۔ان کے پیار اور محبت کے
گھنے سائے میں مجھے ہمیشہ اطمینان اور طمانیث قلب نصیب ہوتا ، غم کی دولت
جو مجھے وراثت میں ملی ہے اس کی تپش اورشدت میں اگر میں نے کبھی کمی محسوس
کی ہے تو یہ دونوں شخص ہیں جن کے پاس میرے درد کی دوا بھی تھی اور ساتھ ہی
ان کے پاس میرے لئے ہمیشہ اتنا وقت بھی تھا جس سے وہ میری زندگی کی روداد
بھی سنتے اور ساتھ ہی میرے درد کے نالوں پر آ نسو بھی بہاتے میرے غم کو
اپنا غم میری تکلیف اپنی تکلیف میری الجھنوں کو اپنی الجھن ہی نہ سمجھ تے
بلکہ شریک غم ہوکر میر ا دکھ ہلکا کرتے ، علیم بھا ئی اس وقت سعودی عرب میں
مقیم ہیں لیکن آج بھی وہ میرے اندر اس طرح رہتے ہیں کہ لگتا ہے علیم بھائی
ہر وقت ساتھ ہیں ان کے الفاظ مجھے اس وقت آنسو بہانے پر مجبور کردیتے ہیں
جب وہ تما م فاصلوں کو کم کر کے یہ کہتے ہیں کہ فتح بھائی آپ کو کوئی
پریشانی تو نہیں ، کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ، آپ بتائیے ، آپ بتا تے کیوں
نہیں ؟ میں آپ کے لئے مکہ اور مدینہ میں ہر وقت آپ لئے دعا کرتا ہوں۔ آپ
میری دعاؤں میں برابر شریک ہیں۔ یہ بات جب ایک دوست کی زبان سے خلوص اور
محبت سے سنتا ہوں تو بے اختیار آنکھیں ڈبڈ بہ جا تی ہیں ۔ یہاں ایک واقعہ
کا ذکر بڑا دلچسپ ہو گا جب ہم لوگ دہلی میں ایک ساتھ رہتے تھے تو بعض مرتبہ
ایسا ہوتا کہ کھا نہ کھانے کے لئے پیسے نہیں ہوتے ، بھوک کی شدت میں اچانک
علیم بھائی کا فون آجا تا تو میں یہ سمجھ جاتا کہ کھانے پر بلا یا جارہا ہے
خیر یہ مرحلے تو گزر گئے ہم دونوں نے ۲۰۱۵ میں یک ساتھ حج کیا اس وقت خوشی
کی انتہانہ تھی ۔ کہاں میں اور کہا ں یہ نکہت گل ۔ یہ خالص خدا کا فضل اور
اس کا کرم تھا کہ یہ مبارک سفر اور فریضہ حج ادا ہوا۔جب ہم حج سے فارغ
ہوگئے تو علیم بھائی نے اس وقت بھی اپنی بے پناہ عنایتوں سے نوازا اور
امیدوں کے وہ الفاظ استعمال کئے جس کی ایک مخلص دوست سے توقع کی جا سکتی ہے۔
علیم بھائی آپ کی محبت اور تعلق کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے میرے پاس وہ
الفاظ اور شبد نہیں جس کا سہارا لیکر میں آپ کو خراج عقیدت پیش کرسکوں ،یقینا
آپ میرے لئے محبت کی وہ خو شبوں ہیں جس سے میرے دل کا چمن زار پھول ہمیشہ
معطر رہتے ہیں ، آپنے اپنے اخلاق اور کردار سے محبت کا جو جام پلایا ہے اس
کا نشہ دیرپہ بھی ہے اور سکون بخش بھی ،آپ ہم سے دور ہیں لیکن دل یہ تسلیم
کرنے کو تیار نہیں یہ سب آپ کی مسلسل نوازشوں کا کرم ہے کہ آنکھیں اور دل
فاصلوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں ۔میرے قاری کو اس مذکورہ تحریر سے یہ
گمان ہو سکتا ہے کہ آپ کے حو الے سے جذبات سے کام لیا گیا ہے لیکن یہ سچ ہے
اس کے لئے جس کا آپ سے کوئی واسطہ اور تعلق نہیں رہا لیکن جن لوگوں سے آپ
کا رشتہ دوستی یا تعلق کی شکل میں مو جو د ہے تو اس کو میری یہ تحریر نہ
مبا لغہ معلوم ہوگی اور نہ جذبات نگاری بلکہ اس کو وہ حقیقت پرمحمول کریگا
۔
لبوں پے دم ہے تڑپتے ہیں درد مند تیرے
وہ اور کوئی نہیں عاشقانہ چند تیرے
(شاد عظیم آبادی )
کسی بھی شخص کی ا خلا قی قدروں کے معیا ر کو جا نچنے کے لیے ۔ یا پھر یہ
پرکھنے لئے کہ یہ شخص اخلاق اور کردار کے جس مقام پر فائز ہے اس کے پس پشت
کونسے عوامل کارفرما ہیں ۔تو ظاہر کہ کسی بھی انسان کی نشو ونما پر اس کے
گھر اور خاندان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسی نسبت سے اس شخص کو جا نا
اور پہنچانا جاتا ہے ۔ کیوں کہ اس کی تشکیل کے تمام مرحلے گھر اور خاندان
سے شروع ہوتے ہیں۔علیم بھائی کے حوالے سے اور خاص طور سے ان کی اخلاقی
قدروں کے حوالے جب ان کے گھر اور خاندان کے ماحول کو دیکھا جا تا ہے تو صاف
طور ان کی اعلیٰ اخلاقی قدریں واضح ہوتی ہیں ۔ علیم بھائی کے والد جناب
عرفان قریشی صاحب سے دہلی میں ملاقات ہوئی ۔یہ پہلی ملاقات تھی، واقعہ یہ
ہوا کہ علیم بھائی کے چھوٹے بھائی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں زیر تعلیم تھے ۔
اتفاق یہ ہوا کہ ان سے ایک چھوٹی سی غلطی سرزد ہوگئی ، جس پر علیم بھائی نے
اپنے والد محترم کو دہلی بلالیا ۔ جب وہ آئے تو میں ان کے ساتھ تھا واقعہ
کی پوری تفصیل ان سے بتائی ، تو بلک بلک کر رونے لگے ، میں محو حیرت تھا کہ
واقعی یہ شخص عزت اور شرافت نفسی کا مکمل پیکر ہے کہ اپنی اولادکی تربیت
اور عزت نفس کی خاطر یہ شخص کتنا حساس ہے ۔میں سمجھ گیا کہ علیم بھائی اسی
شجر طوبی کے پھل ہیں ۔ بہر حال مضمون کی طوالت کا خوف بڑھ رہا ہے ۔علیم بھا
ئی کی پیدایش ضلع فرخ آباد قصبہ قایم گنج میں ایک متوسط گھرانے میں ہوئی آپ
کی تعلیم و تربیت کے تمام فرائض آپ کے چچا محترم نے بہ حسن خوبی انجام دئے
ابتدائی تعلیم قائم گنج میں مشنری اسکول میں ہوئی اس کے بعد دہلی کی مشہور
تعلیم گاہ جا معہ ہمدرد پبلک اسکول میں داخل ہوئے ، پھر عالم اسلام کی عظیم
تعلیم گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں آپ نے بی اے اور ایم اے انگلش زبان
میں کیا اور ایم فل دہلی یونیورسٹی سے پاس کرکے علم کے میدان میں تشنگی
بجھائی اس وقت آپ سعودی حکومت کے زیر اہتمام t v t c کالج میں ممتاز عہدہ
پر فائز ہیں ۔ اب میں اس شعر کے ساتھ آپ کو دوبارہ پھر خراج عقیدت پیش کرتا
ہوں۔
غربت کی صبح میں بھی نہیں ہے وہ روشنی
جو روشنی کہ شام سواد وطن میں تھی
|