صبح ہوتے ہی وہ کسی معمول کی طرح اٹھی اور اپنا بستر چھوڑ
کر کھڑکی کی جانب دیکھا۔ روشنی کی کچھ کرنیں دھیرے دھیرے کھڑکی کے شیشے پر
دستک دے کر اندر داخل ہورہی تھیں۔
وہ لپک کر باتھ روم میں گھسی اور دس منٹ بعد کچن میں کھڑی آٹا گوندھ رہی
تھی۔ اور اس کے بعد ہاتھ دھو کر صفائی میں جت گئی۔ سب کے اٹھنے سے پہلے اسے
ان کاموں سے فارغ ہونا تھا۔
ہر روز کی طرح وہ دل لگا کر کام کر رہی تھی کہ شاید آج اسے کوئی پیار بھرا
جملہ سننے کو مل جائے۔۔۔ کہ شاید آج اسے دھتکارنے کی بجائے اپنے ساتھ لگا
کر تھام لیا جائے۔ شاید۔۔۔۔
-------
ہسپتال کے کاریڈور میں نرس ادھر سے ادھر چکر لگاتی خود کو بہت مصروف ظاہر
کر رہی تھی جبکہ در حقیقت وہ فقط واک کر رہی تھی تاکہ اسے کوئی کام نا
پکڑایا جائے۔ ڈاکٹر اپنے ائر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھا چائے کی چسکی لیتے
ہوئے فون پر مصروف تھا۔ اور باہر مریضوں کی ایک قطار مسیحائی کے لیے منتظر
بیٹھی تھی۔
ڈاکٹر اور نرس کم تنخواہ ملنے پر صرف اتنا ہی کام کرنے پر تُلے ہوئے تھی
جتنا اس تنخواہ میں بآسانی کرنے کو دل چاہتا۔
اور ان جانوں کا کیا؟ جو اپنی زندگی کی ڈور ان کے ہاتھوں میں دینے آتے ہیں
کہ شاید ان کی بیماری کا علاج ہوجائے، اور ان کی زندگی کو تھوڑا آرام میسر
ہوجائے۔
شام ڈھلتے ہی مایوسی سے واپس لوٹنے والوں کی قطار کچھ کم چھوٹی نا تھی۔
-------
اس کے گال پر پڑا تھپڑ اسے چند لمحوں کے لیے سن کر گیا تھا۔ وہ بھول گئی
تھی کہ چند لمحے قبل وہ جلدی جلدی اپنا یونیفارم پہن کر اپنی چھوٹی بہنوں
کو سکول جانے کے لیے اٹھا کر ان کا ناشتہ تیار کر رہی تھی۔ وہ بھول گئی تھی
کہ دس منٹ میں اسکی وین آنے والی ہے اور اس نے ابھی تک ایک نوالہ منہ میں
نہیں ڈالا۔
ماں کے ہاتھ سے یہ تھپڑ پہلی بار تو نہیں پڑا تھا لیکن پھر بھی ہر روز نئے
سرے سے اسے دکھ دیتا تھا۔ اسکی امیدوں پر پانی پھیر دیتا تھا۔
اسے بہن کا یونیفارم ٹھیک سے استری نا کرنے پر تھپڑ پڑا تھا اور اس صبح کا
دوسرا تھپڑ اسے ناشتے میں دوسری بہن کو فریش جوس نا دینے پر پڑا تھا۔
وہ اس پر جملے کستی حقارت بھری نظروں سے دیکھتی چلی گئیں تو پیرپٹختے ہوئے
اسکی بہنیں بھی نکل گئیں۔ جبکہ وہ آنسو بہاتی برتن سمیٹنے لگی اور خالی پیٹ
سکول چلی گئی۔
--------
اتنی بے دلی سے کام کر رہی تھی تو دھیان ہی نا دیا اور بھول گئی کہ اس نے
دائیں والی قطار میں دوسرے کاٹ میں نومولود لڑکی کس کی رکھی تھی۔ کیوں اس
نے نام تو کیا، یہ بھی نہیں دیکھا کہ کس کی ہے اور یونہی اٹھا کر رکھ دی۔
اور تیسرے کاٹ میں پڑی لڑکی کو دیکھا جو اسنے کچھ گھنٹے قبل لاکر رکھی تھی۔
اب وہ نرس اپنے سامنے کھڑی عورت کو دیکھ رہی تھی جو اپنی پوتی کو دیکھنے
آئی تھی۔ نرس نے پہلے تو اپنی بے دھیانی پر خود کو گھُر کا پھر خفت چھپانے
کو انتظامیہ کو کوسنے لگی جو کم تنخواہ دیتے اور کام زیادہ کرواتے تھے۔
لیکن کیا لوگ پیسوں میں اپنے فرض ، اپنے کام کو تولتے ہیں؟ شاید ہاں۔۔ لیکن
وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ دوسروں کا کتنا نقصان کردیتے ہیں۔
نرس نے کمال مہارت سے مسکراہٹ سجائی اور کندھے اچکاتے ہوئے دوسرے کاٹ میں
سوئی بچی اٹھا کر دے دی۔
------
وہ انکی کتنی خدمت کرتی، کتنا مان دیتی، کتنا پیار کرتی۔۔ لیکن ہر روز اسے
دھتکار دیا جاتا، مارا جاتا، لفظوں سے چھلنی کیا جاتا۔
اس کی بہنیں تو شہزادیاں تھیں گھر کی، نہ کوئی کام کرتی، نہ انہیں ڈانٹا
جاتا۔ لیکن عشال نے کبھی پیار نہیں دیکھا، وہ بے تحاشہ روتی ، کڑھتی، بے
عزتی سہتی لیکن پھر بھی اگلے دن اٹھ کر ان کی خدمتیں کرتی ، ان سے مسکرا
مسکرا کر بات کرتی، عزت کرتی، بے لوث محبت کرتی۔۔
اور اس سب کے بدلے میں بس اتنا مانگتی کہ اسے قبول کرلیا جائے اور پیار دیا
جائے۔
اسے یقین تھا ایک نا ایک دن اسے صلہ ملے گا، اسے اپنے اللہ پر یقین تھا۔
لیکن یہ انسان، یہ انسان بہت امتحان لیتے ہیں۔ اور بار بار لیتے ہیں۔
"تو ہماری بیٹی ہے ہی نہیں ، ناجانے کن لوگوں کی ہے۔۔۔۔ تجھے رکھا ہوا اتنا
بہت نہیں؟ جا کام کر۔۔" وہ حقارت سے اسے دیکھتی اور آنسوؤں سے بھری آنکھوں
سے کہتی
"امی آپ قبول کرلیں میں آپ ہی کی بیٹی ہوں، مجھے بس پیار چاہئے آپ کا۔ میں
ہمیشہ آپ کی خدمت کرونگی۔ اگر میں آپ کی بیٹی نہیں بھی ہوں تو پیار بھرا
لمس عطا کردیں امی۔۔ میں تب بھی آپ ہی کی خدمت کروں گی۔ بس مجھے بیٹھی مان
لیں۔ اللہ کا واسطہ آپ کو۔۔۔
مجھے نا امید نا ہونے دیں۔۔۔ میرا یقین ڈگمگانے نا دیں۔ "
وہ بے تحاشہ روتی اور اللہ سے اپنی ماں کے دل میں رحم ڈالنے کی دعا کرتی۔
اور دعا کرتی اسکی ہمت جواب نا دیے جائے۔ یہی اسکی فیملی تھی جو بھی تھا
اسے انہیں میں رہنا تھا۔ وہ بس حالات بہتر کرنا چاہتی تھی۔
کسی کی لاپروائی نے کسی کے زندگی اجیرن بنا رکھی تھی۔ ہسپتال میں واویلا تو
اٹھا تھا اور سب یہی مانتے تھے کہ لڑکی بدل گئی تھی۔ بس جو بھی تھا اسکے
اختیار میں جو تھا وہ اسے ٹھیک کرنا چاہتی تھی۔
اس بات سے بےخبر کہ وہی ان کی سگی بیٹھی تھی۔ اور شاید کبھی اس کے گھر
والوں کا دل پگھل جائے، اور اسے صلہ مل جائے۔
اور باقیوں سے التماس ہے کہ لاپروائی نا کریں خاص طور پر تب جب کسی کی
زندگی کا سوال آپ کے ہاتھ میں آجائے۔ اور جو آپ کے اختیار میں ہے اسے بہتر
کریں نا کہ منفی ہوکر رُل جائیں۔
دعا کریں کہ ہر عشال کو کامیابی ملے، اور آزمائیش اس پر ٹوٹ کر نا گر پائے۔
آمین |