تحریر: صدف نایاب، کراچی
آؤ آؤ، ارے آجاؤ یار گھبراؤ نہیں۔ کبھی ہمارے ساتھ بھی شام گزار لیا کرو،
کب تک اماں ابا کی گود میں جھولتے رہو گے۔ہاہاہاہا، ایک زور دار قہقہہ فضا
میں بلند ہوا اور اگلے ہی لمحے عامر شہر کے اوباش، آوارہ لڑکوں کے ساتھ
گپیں ہانکنے لگا۔لو یار پیو، نہیں میں سگریٹ وغیر نہیں پیتا۔ ارے ایک سوٹا
تو لگا کہ دیکھ جگر، مزہ نہ آئے تو کہنا۔ ایک لڑکے نے زبردستی عامر کے منہ
میں سگریٹ ٹھونستے ہوے کہا۔ رات کے بارہ بج رہے ہیں۔ مجھے اب جانے دو پچھلے
پانچ گھنٹے سے تم لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا ہوں۔ کتنے گندے لوگ ہو تم۔
سارے لڑکے ہی تقریباً مدہوش تھے۔ ہاں ہاں جاؤ، آئندہ نہیں آؤں گا۔ تم لوگ
مجھے مار دو گے ، میں اب کبھی نہیں آؤں گا۔ عامر نے قدرے چیختے ہوئے کہا۔
اس کی آنکھیں لال ہو رہیں تھیں اور منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔ گریبان چاک
تھا وہ عجیب بدحواسی کے عالم میں لڑکھڑایا اور تیزی سے اس نیلے رنگ کی
روشنی والے کمرے سے نکل گیا۔ارے جا جا! کوئی نہیں پوچھے گا تجھے تیرے گھر
والے بھی نہیں۔ چل، لوٹ کے پھر یہیں آئے گا اور بھلا کہاں جائے گا۔
ہاہاہاہاہاہا! ایک بار پھر پورا کمرہ جان لیوا ٹھٹھوں سے گونج اٹھا۔
عامر نے گھر کے رستے میں ایک جگہ سے منہ دھویا اور حلیہ درست کرتے ہوئے گھر
میں داخل ہوا۔ بیٹا کہاں جاتے ہو روز؟ اتنی رات گئے تک کہاں تھے؟ جب تک تو
گھر نہ آجائے مجھے نیند نہیں آتی بیٹا۔ ہاتھ میں تسبیح پکڑے ماں نے رندھی
ہوئی آوز میں ایک ساتھ ہی سارے سوال کر ڈالے۔ کہیں نہیں ماں بس دوستوں کے
ساتھ ہوتا ہوں۔ آپ انتظار نہ کیا کریں۔ پتا ہے بیٹا جب تم جھوٹ بولتے ہو نہ
تو تمہارے چہرے پر صاف نظر آجاتا ہے۔ اس لیے بیٹا ماں سے کبھی جھوٹ نہ
بولنا۔ اچھا ماں! اب مجھے سونا ہے۔ عامر نے الجھتے ہوئے جواب دیا۔
بیٹا اسکول والے تجھے نکالنے کے در پہ ہیں۔ آج ہی تیرے ابا نے ہیڈ ماسٹر سے
بات کی ہے کہ تجھے کچھ اور وقت دے دیں۔ بیٹا پڑھنے میں دل لگا۔ ہاں ماں،
پریشان مت ہوں پڑھوں گا۔ اب بس بھی کریں لیکچر یہ کہتا ہوا عامر کمرے کی
طرف چل دیا۔حی علی الفلاح موذن کے الفاظ عامر کے کانوں سے ٹکرائے، ایک
جھٹکے سے اس کی آنکھ کھلی تو اسے کچھ متلی سی محسوس ہوئی۔ رات کی عیاشی کے
بعد اس کا دل بہت خراب ہو رہا تھا۔ عامر بھاگ کر واش روم تک پہنچا تو اسے
یکدم الٹی آگئی۔ الٹی کے بعد اس کا دل کچھ ہلکا ہو گیا مگر بے چینی اب بھی
کچھ باقی تھی۔ خیر بستر پر آپڑا۔ نجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔
صبح جب آنکھ کھلی تو لاؤنج میں رکھا ٹی وی زور وشور سے چل رہا تھا۔ جس پر
ایک مناجات بھی لگی ہوئی تھی ۔ ’’میرا دل بدل دے ، میرا غفلت میں ڈوبا دل
بدل دے‘‘۔ عامر لڑکھڑاتا ہوا کمرے سے باہر پہنچا اور صوفے پر براجمان ہو
گیا۔مناجات کے الفاظ اس کے دل میں گھر کرنے لگے۔ نیند کی حالت میں ہی وہ
کمرے سے اٹھا صوفے پر جا کر لیٹ گیا۔ارے بیٹا کوئی اندازاہ ہے تمہیں ؟ 12
بج رہے ہیں۔ اسکول بھی نہیں گئے۔ ماں نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بالوں میں
ہاتھ پھیرتے ہوے پوچھا۔ طبیعت تو ٹھیک ہے؟ ہونٹ کیسے سفید ہورہے ہیں۔ اور
آنکھیں بھی چڑھی ہوئی ہیں، ماں یہ مناجات کتنی اچھی ہے نا؟ ہاں بیٹا اچھی
تو ہے۔ بس اﷲ واقعی میں ہمارا دل بدل دے اس دنیا سے بے نیاز کر دے اور اپنی
طرف ہمارا رخ موڑ دے۔ پر تو اسکول کیوں نہیں گیا۔
عامر، عامر، کہاں ہے یہ عامر ؟ ابا نے گھرمیں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔ جی
ابا، کیا ہوا عامر ایک دم اٹھ کر بیٹھ گیا۔ کیا ہوا جی؟ ماں نے بھی گھبرا
کر پوچھا۔ دیکھو اپنے لاڈلے کے کرتوت۔ آج اخبار میں خبر چھپی ہے۔ عامر صاحب
نے ہیروئن کا کاروبار شروع کر دیا ہے۔ جو اسے پکڑ کر لائے گا انعام پائے
گا۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ کوئی اور عامر ہوگا، میرا لال ایسا نہیں۔ میں
اسے خود تھانے تک پہنچا کر اتا ہوں۔ میری تو ناک ہی کٹوا دی، مگر ابا یہ سب
میں نے نہیں کیا؟ عامر حواس قائم کرتے ہوئے بولا۔
نالائق انسان، زیادہ باتیں مت بنا۔ دیکھ آنکھیں کھول کر دیکھ تیرا ہی نام
اور شکل ہے نا؟ابا نے گریبان پکڑ ا اور اسے جھنجھوڑ تے ہوئے پوچھا۔ کچھ
لمحوں تک عامر کچھ نہ بول پایا مگر پھر جلد ہی اسے کچھ یاد آیا اور اس نے
دروازے سے باہر دوڑ لگا دی۔ دروازہ کھول نہیں تو آج توڑ دوں گا۔ عامر نے
اپنے ادارے کے ایک دوست عابد کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا جو کہ نیم بے ہوشی
کی حالت میں پڑا سو رہا تھا۔ دروازے کی آواز سے چونک کر اٹھ گیا۔ جیسے ہی
عابد نے دروازہ کھولا عامر اس پر کسی بھوکے شیر کی طرح پل پڑا۔ بتا کیوں
کیا تو نے میرے ساتھ ایسا بتا کیوں کیا؟ عامر نے ایک گھونساعابد کے منہ پر
دے مارا اور اس کے گرتے ہی اس پر چڑھ بیٹھا۔
میں نے کچھ نہیں کیا۔ اپنی چوری چھپانے کے لیے تو نے مجھے پھنسوانے کا چکر
چلایا؟ اب دیکھ میں تیرا کیا حال کرتا ہوں۔ رکو رکو، عامر اسے گھسیٹتا ہوا
کمرے تک لے کر گیا کہ اسے بستر کے نیچے پستول پڑی نظر آئی۔ بول اگر تو نے
سچ سچ پولیس کو نہ بتایا کہ اس دن رات کو تو نے دکان میں ڈاکہ ڈالا تھا اور
یہ ڈرگز چوری کر کے اسمگل کرانے کی کوشش کی تھی تو میں ابھی اسی وقت تیرا
خون کر دوں گا۔ چھ چھ۔اچھا۔ عابدنے کانپتے ہاتھوں سے عامر کے سامنے ہاتھ
جوڑے۔مجھے معاف کر دے۔میں تجھے بچا لوں گا۔
خبردار کوئی چلاکی نہیں، چل تھانے۔ عامر نے اسے اس کی ہی گاڑی میں بالوں سے
گھسیٹتے ہوے ڈالا اور گاڑی تھانے کی طرف دوڑا دی۔ پولیس نے دونوں کو حراست
میں لے لیا۔ ایک ماہ تک دونوں جیل میں پڑے رہے۔ عامر کی ماں اپنے اوسان تک
خطا کر بیٹھی مگر زیادہ وقت نہ گزرا تھا۔ جب عابدنے پولیس کی مار کے ڈر سے
اقرار جرم کر لیا اور عامر کو بری الذمہ ٹھرا دیا۔
عامر جب اپنے گھر کے راستے ہی میں تھا کہ اسے ایک مسجد نظر آئی جس پر لکھا
تھا۔ ’’آؤ کامیابی کی طرف‘‘ آج وہ بہت عرصے بعد جب اچانک گھر پہنچا تو سارے
گھر والے اس سے لپٹ گے۔ ابا بھی اس کی جدائی میں بیمار پڑ گیا تھا۔ اب اس
کا غصہ بھی اتر چکا تھا۔ آگیا میرا لال، میرا بیٹا کیا حال ہو گیا تیرا؟ اب
میں تجھے کہیں نہیں جانے دوں گی۔ماں روتے ہوے عامر کے سینے سے لگ گئی۔ ہاں
ماں تیرا عامر اب وہ عامر نہیں رہا۔ بہت بدل گیا ہے۔ وقت نے تیرے عامر کو
بہت کچھ سکھا دیا ہے، میں پڑھوں گا ماں۔آجا کچھ کھا لے، ابا نے کھانا دیتے
ہوے کہا۔
شام کو عامر سو کر اٹھا تو لاؤنج میں رکھا ٹی وی بہت اونچی آواز سے چل رہا
تھا۔ میں تو امتی ہوں۔ یہ الفاظ عامر کے دل پر تیر کی طرح لگے۔ آج پہلی بار
عامر مسجد میں کھڑا تھا۔ اس نے ایمان کی حلاوت کو پالیا تھا۔ سکون کی یہ
کیفیت آج سے پہلے کبھی اس نے محسوس نہ کی تھی۔ اﷲ کے سامنے جی کھول کر
رویا۔ گھر پہنچا تو ماں نے ماتھے پر پیار کیا۔آج تیرے چہرے پر بڑا نور ہے۔
پہلی بار تجھے اس طرح خشوع خضوع سے نماز پڑھتے دیکھا، دل جھوم اٹھا، صدا
مسکراتا رہے۔ ہاں ماں! میں تو امتی ہوں۔عامر کے الفاظ جذبات سے لبریز تھے،
ایک آنسو عامر کے چہرے کو بھگوتا ہوا گر پڑا۔ |